جامعہ سلفیہ: مقام صفہ کی ایک عظیم یادگار

ہفتہ 19 مارچ 2016

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

اسلام ایک آفاقی دین اور ملکوتی مذہب ہے ۔ اس کی تعلیمات میں روح انسانیت کی تما م تشنگیوں کا مداوا ہے جو اسے دنیا وی امور میں مختلف موڑ پر محسوس ہو تی ہیں۔ لیکن اسے کیسے حاصل کیا جائے ؟ان پریشانیوں کو خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام صفہ کے قیام اور وہاں جمع ہو کر حضرات صحابہ رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کی تعلیم وتر بیت کے ذریعے حل کرتے ہوئے امت کو یہ سبق دیا کہ اگر تمہیں دین اسلام کی بقا اور اس کے صیح اور اصل شکل میں اشا عت مطلوب ہے اور اس کے ذریعے اپنی دینی و تعلیمی حالت کو سنوارنا چاہتے ہو تو تمہیں بھی مقام صفہ کی طرح درسگاہیں قائم کر کے اپنی اور آنے والی نسلوں کو تعلیمات اسلامیہ سے روشناس کرا کے اور علم کی شمع روشن کر کے جہالت کی تاریکیوں کو ختم کر نا ہو گا۔

(جاری ہے)


اس کے نتیجے میں مسلمانوں نے اس مشن کو آگے بڑھا یا ،جس کے نتیجے میں پوری انسانیت بیداری کے رستے کی مسافر بنی اور انسان کو انسان کی عزت و تکریم کا مقام معلوم ہوا۔مقام صفہ سے بہنے والے علم و حکمت کے چشمے سے سیراب ہونے والوں نے اہل دنیاکے سامنے تعلیم وتربیت اور اخلاق حسنہ کا ایک ایسانمونہ پیش کیاجس کی بدولت مسلمانوں نے صدیوں حکمرانی کی اور ان کے زیر اہتما م چلنے والے تعلیمی اداروں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے دنیا کو پوشیدہ علوم کا رستہ دکھایا ۔

قرطبہ یونیورسٹی جسکا سکہ صدیوں مشرق و مغرب میں چلتا رہا یہاں سے ابن سینا ، جابر بن حیان اور ان جیسے کئی افراد جنہوں نے زما نے کی نئی جہتوں کو متعارف کرایا وہ انہی درسگاہوں کے طالب علم تھے۔
مجھے بہت افسوس کے ساتھ یہ بات لکھنی پڑ ہی ہے کہ پچھلی دو صدیوں سے ہم اور ہمارے حکمران اپنے اسلاف کے ماضی کو بھلا کر روز ہی نت نئے منصوبوں پر عمل کر کے معزز ٹہر نے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔

تعلیمی نصاب سے ماضی کی شاندار تاریخ کو مسخ کر کے مغضوب اور غلام قوموں کے رسم و رواج اور ان کی تعلیمات کو کتابوں کی زینت بنا یا جا رہا ہے ۔ لیکن انہیں کو ن سمجھائے کہ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ وہ قومیں کبھی ترقی کی شاہراہ کی مسافر نہیں بن سکتیں جو اپنے شاندار ماضی کو پس پشت ڈال کر غیروں کی نقالی کر نے اور ان کی تعلیمات کو سینے سے لگاکر رکھنے کی عادی ہو جائیں۔

لیکن اس افسوس کے ساتھ یہ بات بھی قابل تعریف ہے کہ جس کی وجہ سے بہترین مستقبل کی امید اب بھی باقی ہے ۔ یہ ہے پاکستان میں قائم چند دینی مدارس جہاں خالصتاََ قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلند کر نے والے دیوانے مقام صفہ کی تاریخ کو زندہ و جاوید رکھے ہو ئے ہیں ۔
قارئین ! کچھ روز قبل مجھے اپنے مہربان اور دنیا ئے اسلام کی معروف شخصیت یاسین ظفر صاحب کی دعوت پر فیصل آباد میں علو م اسلامیہ کی ایک عظیم دینی درسگاہ جامعہ سلفیہ میں جانے کا تفاق ہوا ۔

ساڑھے چار ایکڑ پر پھیلے وسیع و عریض جگہ جامع مسجد،دفاتر، کلاس رومز ،طلبہ کی رہائشگاہیں، لائبریری ہال، طعام گاہ ، کانفرنس روم مہمان خانہ، ہسپتال نما ڈسپنسری اور دارالافتا ء پر مشتمل یہ جگہ رنگ و نور کا ایگ الگ ہی منظر پیش کر رہی تھی ۔
قارئین کرام !بلا شبہ آج کے نو نہال مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں اور اگر ان کی تعلیم و تر بیت درست سمت میں کی جائے تو کچھ بعید نہیں ایک روشن اور درخشان مستقبل اس قوم کا مقدر نہ ٹہرے۔

جامعہ سلفیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ نہ صرف دینی علو م بلکہ دور حاضر کے جدید علوم کے میدان میں بھی جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ خیر القرون سلف صالحین کے منہج پر پوری طرح قائم ہے بلکہ ماہرین تعلیم کی زیر نگرانی تعلیمی کمیٹی وقتاََ و فوقتاََعلما ء کرام ، دانشور اور مختلف تھنک ٹینکس کے رہنماؤں کی سفارشات پر نصاب کو دور حاضر سے ہم آہنگ کرنے کے لئے پوری طرح مستعد و متحرک رہتی ہے ۔

ہزاروں دینی مدارس کے مشترکہ امتحانی بورڈ، وفا ق المدارس السلفیہ بھی یہی سے اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہے جہاں سے اب تک نہ صرف پاکستان پوری دنیا سے لاکھوں علم کے متلاشی اپنی علمی پیاس کو بجھا کر خود بھی اس علم کی روشنی پھیلانے کے اس عظیم مشن پر گامزن ہیں۔
مجھے یہ جان کر بھی از حیرت ہوئی کہ یہاں پر زیر تعلیم سینکڑوں طالب علموں سے کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی بلکہ ان کے قیام، طعام، کپڑوں اور کھانے وغیرہ کے تما م تر اخراجات بھی جامعہ برداشت کر تا ہے ۔

ایک اور بات جو مجھے بہت خوب محسوس ہوئی وہ یہاں کی تکمیل کے قریب وسیع و عریض لا ئبریری اور مستقل بنیادوں پر طالبعلموں کی ذہنی و جسمانی تربیت کی کلا سز کا انعقاد تھا جس کی بدولت طالبعلم کسی بھی شدت پسندانہ سوچ کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے۔
میں سمجھتاہوں کہ لوگوں کی تعلیمی حالت کو پروان چڑھانے ،قوم وملت کو عزت وشرافت اور با وقار زندگی گذارنے کی تربیت دینے اور ملک کی تعمیر وترقی کی فروغ دینے میں جامعہ سلفیہ انقلابی کردار ادا ء کر رہا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا سمیت حکو متی سطح پر ان جیسے دینی مدارس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کے ساتھ ہر ممکنہ تعاون کر نے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :