دوانتہاوٴں پر کھڑی قوم
منگل 1 مارچ 2016
(جاری ہے)
کالم لکھنے سے پہلے میں نے ایک مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک دوست کو فون کیا جو باشرع ہیں اور میری معلومات کی حد تک خوش اخلاق اورپانچ وقت کے نمازی بھی ہیں۔میری خوش فہمی تھی کہ انہوں نے کبھی اپنی اہلیہ کی مارپیٹ نہیں کی ہو گی لیکن ان کے رائے میں اسلام نے بیوی کو ایک حد تک مارنے کی اجازت دے رکھی ہے ۔کمال مہربانی سے انہوں نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ ان کے علاقے میں توبیوی کو دو چارلگائے بغیر گزارا نہیں اور وہ خود بھی ماشا اللہ چار پانچ بار یہ ناگوار فریضہ ادا کر چکے ہیں۔ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ گھریلو تشدد کا شکار صرف مذہبی گھرانوں کی خواتین ہوتی ہیں ۔ میر ی ایک محترم دوست جو حقوق نسوں کی بڑی علمبردار ہیں وہ خود ایک سیاستدان کے ہاتھوں گھریلو تشدد کا شکا ر بن چکی ہیں لیکن یہ سیاستدان غلام مصطفےٰ کھر نہیں ہیں۔
خاکسار کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ کسی بھی معاملے میں رائے قائم کرنے سے پہلے کسی ” علم والے “سے بات کر کے کچھ سیکھ لینا چاہئے ۔کراچی میں رونق افروز درویش خدا مست خواجہ شمس الدین عظیمی یاد آئے ،ہمیشہ جنہوں نے مساوات انسانی کی بات کی اور اپنے عقیدت مندوں میں اس بات کا پرچار کیا کہ عورت اور مرد میں سوائے جسمانی ساخت کے کوئی فرق نہیں ،خالق کائنات نے دونوں کو بے شمار صلاحیتیں عطا کی ہیں اور اس کے ہاں مرد اور عورت کی نیکی اور بدی ایک برابر ہے۔
قارئین !بیوی یا خاتون پر ہاتھ اٹھانے کی ساری کہانی ایک آیت کی من پسند تشریح سے گھڑی گئی ہے جس کی وجہ سے مغرب پسند حلقوں کو اسلام پر انگلی اٹھانے کا موقع ملا ہے۔سورة نسا کی آیت نمبر چونتیس جس سے خواتین پر تشدد کا جواز نکالا جاتا ہے اس کو پورا پڑھنے یا سمجھنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔
ترجمہ:” نیک عورتیں فرمانبردار اور مردوں کی غیر موجودگی میں اپنی عصمت (مال،عزت اورحقوق )کی حفاظت کرنے والیاں ہوتی ہیں۔اور وہ عورتیں جو”سرکشی “کریں، تم ان کو نصیحت کرو اگر نہ سدھریں تو ان سے اپنے بستر الگ کر لو اور اگر وہ پھربھی نہ سمجھیں تو پھر ان کو مارو“۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ اس آیت کے مطابق ”سرکش عورت“ کون ہے۔آیت کا مفہوم واضح ہے کہ ” سرکش عورت وہ ہی ہے جو عصمت کی حفاظت نہ کرے“۔قارئین آپ بخوبی جانتے ہیں کہ عورت کی عصمت کیا ہے اور اس کی حفاظت نہ کرنے کا مطلب کیا ہے۔ اب عصمت کی حفاظت نہ کرنے والی عورت کے بارے میں قرآن تو یہ کہہ رہا ہے کہ اس کو زبان سے سمجھاوٴ، نہ سمجھے تو اس سے علیحدگی اختیار کرو اور آخری درجے میں ا س کو مارو۔ا ب ”مارنے “ کی تشریح جو میں فقہا سے سمجھا ہوں اس کے مقابلے میں تو ایک تھپڑ بھی تشددکے زمرے میں آتا ہے اور خواتین پر تشدد کی جتنی ممانعت اسلام نے کی ہے و ہ کسی اور مذہب یا سماج نے نہیں کی۔مذکورہ آیت کے لفظ ”واضربو“ کا ترجمہ ”مارو“ کیا گیا ہے ،لیکن خیال رہے کہ عربی زبان میں اس کا ایک مطلب بیان کرو ،تشریح کرو یا کھل کر بتاوٴ بھی لیا جاتا ہے۔زیادہ وضاحت کے لئے اگر آیت پینتیس کا مطالعہ کریں تو اس میں ذکر ہے کہ تنازعہ کی صورت میں مرد اور عورت کے خاندان میں سے ایک ایک ثالث مقرر کیاجائے تاکہ اختلافات کا خاتمہ ہو۔ یہ فیصلہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ بات چیت یا ثالث مقرر کرنے سے پہلے ”مارنے“ یا تشدد کرنے کی اجاز ت اسلام کیسے دے سکتا ہے؟اسلام نے جہاں کہیں بھی طاقت کے استعمال کی اجازت دی ہے وہ انتہائی محدود اور بہت سی شرائط کے ساتھ دے رکھی ہے ۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سماج کے بنیادی یونٹ گھر کے بارے میں اسلام اتنی آسانی سے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی اجاز ت دے ۔
رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث کا مفہو م یہ ہے کہ ”عورتیں آبگینے (بلبلے) ہیں ان سے نرم روی اختیار کرو“۔لفظ آبگینے پر غور کیجئے کہ عورت کو(بلاتخصیص رشتہ) کس قدر نرم ،لطیف ،نازک اور خوبصورت قرار دیا گیا ہے ۔اب جو ہستی عورت کو ایک بلبلے کی مثال دے کر سمجھا رہی ہے اور اس سے نرم سلوک کی تلقین کر رہی ہے اس سے یہ بات منسوب کرنا کہ عورت کو مارنے کی اجاز ت دے رکھی ہے کس قدر ناانصافی اور ظلم کی بات ہے۔ایک صورت یہ ہے کہ عورت پھر بھی نہ سمجھے اور سرکشی سے باز نہ آئے توا سلام اس صورت میں بھی شوہر کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ اس پر حد لاگو کرے بلکہ وہ مرد کو طلاق کا اختیار دیتا ہے ۔ حد نافذ کرنے کا اختیار صرف اورصرف ریاست کو ہے ۔لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ حقوق نسواں یا آزادی کے نام پر خواتین کو شتر بے مہاری کا لائسنس دے دیا جائے اورماڈرن کہلانے کے شوق میں سماج اورشرافت کی ہر حد پار کر لی جائے۔عورت کا گھر سے باہر نکلنا کوئی گناہ یا جرم کی بات نہیں ہے لیکن اخلاقیات سے انکار کسی بھی مذہب کو نہیں اور ہر سماج اپنے شہریوں سے یہ امید رکھتا ہے کہ وہ اخلاقیات کا پورا پورا خیال رکھیں تاکہ معاشرے کے تاروپود نہ بکھر نہ جائیں اور اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو کم از کم اسلامی سماج تو کسی بھی اخلاقی برائی کی سب سے پہلے پردہ پوشی اور پھر حکمت کے ساتھ اس کا سدباب کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔ اسلام کسی بھی صورت میں خواتین پر تشدد یا مرد کی تذلیل کی اجازت نہیں دیتا بلکہ ہر فرد کی عزت کی حفاظت کا ضامن ہے۔لہذا خاکسار کی رائے میں توگھریلو تشد د کے خاتمے کے لئے تعلیمی اداروں ،علما ء حق اور خود والدین کا اپنا کردا ر ادا کرنا چاہیے ۔سماجی دباوٴ کی طاقت اس مسئلے کا بہت موٴثر حل ہے کیونکہ اس قانون کے نفاذ سے گھر یلو معاملات میں پولیس کی دخل اندازی کاراستہ کھلے گا ،اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ گھریلو معاملات میں پولیس کی دخل اندازی سے خاندان کی بہتری کی راہ کھلے گی یا ایک اور بگاڑ پید ا ہوگا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خواجہ محمد کلیم کے کالمز
-
صحت کے دشمن تعلیمی ادارے
جمعرات 10 جنوری 2019
-
سو دن، کرتار پورہ اور سشمادیدی کا ندیدہ پن
منگل 4 دسمبر 2018
-
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ دو دن
منگل 20 نومبر 2018
-
بابائے قوم محمد علی جناح کے نام ایک مکتوب
جمعرات 16 اگست 2018
-
لبیک ، لبیک ، لبیک یار سول اللہ ﷺ
پیر 30 جولائی 2018
-
دہشتگردی، سیاست اور قوم کا مستقبل
پیر 16 جولائی 2018
-
سیاسی کارکنوں کا احتجاج،اِشاریہ مثبت یا منفی ؟
ہفتہ 16 جون 2018
-
ماں جائی
بدھ 6 جون 2018
خواجہ محمد کلیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.