کشمیر…ایک بیٹی کی جنگ!

جمعرات 18 فروری 2016

Sareer Khalid

صریر خالد

کشمیری سماج میں بیٹیوں کا ایک خاص مقام ہے اور عام تاثر یہ ہے کہ یہاں کے مرد بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں تاہم کشمیری بیٹیاں بھی اپنے آپ کو والدین کے تئیں وفادار ثابت کرتے ہوئے وہ سب کچھ کر رہی ہیں کہ جسکی عام حالات میں بیٹوں سے توقع کی جاتی رہی ہے۔سابق وزیرِ اعلیٰ مفتی سعید کی بیٹی محبوبہ مفتی،جو اپنے والد کی فطری موت پر ایک چھوٹی بچی کی طرح آنسو بہابہاکر اپنا حال خراب کرکے اپنے سیاستدان والد کے ساتھ اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کر چکی ہیں، کے علاوہ یہاں کی ایک عام بیٹی بلقیس منظور اپنے والد ،جو فوجی حراست میں لاپتہ ہوچکے ہیں،کے لئے کسی شیر دل بیٹے کی طرح لڑ رہی ہیں۔

حالانکہ محبوبہ کے والد اپنی بیٹی کے لئے وزارتِ اعلیٰ کے اعلیٰ منصب کے علاوہ ہر سامانِ عیش چھوڑ کر گئے ہیں جبکہ بلقیس محض اپنے والد کی ایک جھلک پانے اوراُنہیں انصاف دلانے یا کم از کم اُنکی موت کی خبر سُننے کے لئیچودہ سال سے دربدر پھر رہی ہیں۔

(جاری ہے)


گو کہ بلقیس منظور کی اُنکے دوا فروش والد منظور احمد ڈار کے لئے انصاف کی لڑائی چودہ سال قبل تب ہی شروع ہوگئی تھی کہ جب ڈار کو فوج کے ایک افسر نے گھر سے اُٹھا کر غائب کردیا تھا تاہم اُنکی جدوجہد کا شہرہ 19/جنوری کوڈار کے غائب ہونے کے چودہ سال مکمل ہونے پر ہوا۔

بہت جدوجہد کے بعد ایک عدالت کا یہ تبصرہ ،کہ ڈار کو شائد قتل کر دیا گیا ہے،بلقیس نے 19/جنوری کو اپنے والد کا جنازہ پڑھوایا۔یہ ایک مختلف جنازہ تھاکہ جس میں شامل لوگوں کے سامنے کوئی تابوت تھا نہ کوئی لاش۔ڈار خاندان کی جانب سے کئی دن پہلے کئے گئے اعلان سے لوگ جان چکے تھے کہ با الآخر منظور احمد کا جنازہ پڑھا جانا ہے لہٰذا وہ مقررہ دن کو بروقت راولپورہ کے گورنمنٹ اسکول کے صحن میں جمع ہو گئے،ہزاروں کے مجمع نے منظور کی غائبانہ نماز(جنازہ)پڑھی۔

یہ بلقیس کے والد منظور احمد ڈار کے فوجی حراست میں غائب ہونے کے ٹھیک چودہ سال بعد تھا کہ جب اُنکا جنازہ پڑھا جارہا تھا اور یوں اُنکا خاندان پہلی بار اُنہیں مردہ تصور کر رہا تھاحالانکہ اس سے قبل بلقیس اور اُنکا گھرانہ منظور کے کبھی نہ کبھی گھر لوٹ آنے کی آس لئے تھے۔وہ کہتی ہیں”پاپا کا جنازہ پڑھواکے میں نے طویل اور کربناک انتظار کا اختتام کیا،اب میں اُن کے لئے منتظر نہیں رہوں گی لیکن اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ میں تھک گئی ہوں،میری لڑائی جاری رہے گی یہاں تک کہ پاپا کے قتل میں ملوث فوجیوں کو سزا ملے اور میرے معصوم والد کو انصاف“۔


چار بچوں کے والد کو غائب کردینے اور پھر اس خاندان کی کربناک جدوجہد کی یہ کہانی 2002کی 18/اور19/جنوری کی درمیانی رات کو شروع ہوتی ہے کہ جب راولپورہ سرینگر کے ایک دوا فروش منظور احمد ڈار کو فوج کی 35/آر آر کے ایک افسر کے ماتحت ٹکڑی اُٹھاکر غائب کر چکی تھی۔ ہزاروں کشمیریوں کی طرح سرکاری فورسز کی حراست میں لاپتہ ہو چکے منظور احمد ڈار کی بہادر بیٹی بلقیس سے پوچھئے تو اُنہیں اپنے پاپا کے غائب ہونے کے دن سے لیکر ابھی تک کی ہر بات،ہر تاریخ یاد ہے۔

وہ کہتی ہیں”مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ فوج نے کس طرح میرے والد کو گھر سے اُٹھایا تھا،تب سے اُنکے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا“۔ وہ مزید کہتی ہیں”فوج کی 35آر آر سے وابستہ لوگ جب گھر میں داخل ہوئیتھے میں نے اُنکے افسر ،میجر کشور ملہوترا،کا نام پڑھ لیا تھا،یہ نام تب سے جیسے میرے ذہن پر میری یاداشت پر کُنندہ ہے“۔بلقیس کی مانیں تو اُنکے والد کو ساتھ لیجانے کے اگلے دن سے ہی فوج اُنکے دو چھوٹے بھائیوں کو بھی حراساں کرنے لگی کہ اُنہیں فوجی کیمپ میں بلا کر سوال و جواب کے کڑی مراحل سے گزارا جانے لگا تاکہ ڈار خاندان منظور کی تلاش کرے اور نہ اس معاملے پر آواز اُٹھائے۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ جب جموں کشمیر، باالخصوص وادی،میں فوج کا انتہائی خوف تھا اور مرد اس(فوج)کی نظروں میں آنے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔بلقیس کہتی ہیں کہ خاندان نے فیصلہ لے لیا کہ منظور احمد کے دونوں بیٹے خاموش رہیں گے اور اکیلی بلقیس ہی اپنے والد کی تلاش کے لئے سرگرم رہیں گی۔اُنہوں نے کئی دن تک مختلف فوجی کیمپوں کے چکر لگائے اور اپنے والد کا کوئی سُراغ نہ لگا پانے کے بعد متعلقہ پولس تھانہ میں رپورٹ درج کرائی۔


وہ کہتی ہیں کہ رپورٹ درج کرنے کی اگلی ہی صبح اُنکے گھر کے نمبر پر فون آیا اور کسی نامعلوم شخص نے اُنہیں ایک خاص جگہ پہنچنے کو کہا تاکہ منظور احمد کے بارے میں اُنہیں بتایا جائے۔فون کرنے والے نے بلقیس کو یہ بھی بتایا تھا کہ اُنہیں راولپورہ کے مضافات میں رنگریٹ کے مقام پر موجود فوجی کیمپ لیجایا جائے گا۔وہ کہتی ہیں”دوست احباب نے منع کیا تھا لیکن میں نے ہمت کرکے جانے کا فیصلہ کیا،اگلے دن میں گئی تو مجھے واقعی فوجی کیمپ میں پہنچایا گیاجہاں میں نے میجر کشور ملہوترہ کو پہچان لیا جن کی موجودگی میں مجھ سے کئی طرح کے سوالات کئے گئے اور پھر جانے کو کہا گیا“۔


منظور احمد ڈار ایسے اکیلے شخص نہیں ہیں کہ جنہیں فوج نے اُنکے لواحقین کے سامنے اُٹھا لیا اور پھر نہ جانے کہاں ہوا میں تحلیل کر دیا بلکہ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کے پاس موجود شواہد کے مطابق ایسے لوگوں کی تعداد دس ہزار کے قریب ہے۔فی الواقع ایسے لوگوں کے لواحقین نے تو Association of Parents of Disappeared Persons (APDP)یا انجمنِ والدین زیرِ حراست گمشدگان نام کی تنظیم قائم کی ہوئی ہے جو اجتماعی طور مذکورہ افراد کی تلاش بھی کر رہی ہے اور عالمی سطح پر اس مسئلے کی جانب توجہ حاصل کرنے کی سعی بھی۔

مں طور احمد کے زیرحراست غائب ہونے کے دو ایک ماہ بعد بلقیس نے مارچ2002میں مذکورہ تنظیم سے رابطہ کیا تاہم بعدازاں اُنہوں نے تنظیم سے الگ اکیلے ہی اپنے والد کی تلاش اور اُنہیں انصاف دلانے کی لڑائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور چلتی رہیں۔
بلقیس کی جدوجہد کا دوسرا مرحلہ،جیسا کہ وہ کہتی ہیں،مشکلات،مایوسیوں اور مختلف حلقوں کی جانب سے دھتکار سے پُر تھا لیکن اپنے والد کی اس وفادار کے قدم ڈگمگا جانے کی بجائے اور بھی جم گئے اور وہ ہر مشکل کے باوجود اپنے والد کی تلاش میں بھٹکتی رہیں۔

اُنکا کہنا ہے کہ فوج نے اُنہیں اُنکے والد کی تلاش سے روکنے اور اس معاملے کی تحقیقات کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کے لئے نہ صرف اُنہیں اور اُنکے بھائیوں و دیگر اہلِ خانہ کو ستایا بلکہ اُنکے پروسیوں کو بھی حراساں کیا یہاں تک کہ اُنکے کئی پڑوسیوں کو گرفتار کرکے اس بات کے لئے مجبور کیا گیا کہ وہ بلقیس کو خاموش ہونے پر آمادہ کریں۔

وہ کہتی ہیں”پریشان ہوکر میرے کئی پڑوسیوں نے تو مجھے خاموش ہونے کا مشورہ دیا بھی تھا لیکن میں اپنے پاپا کے ساتھ کس طرح غداری کرتی اور کیسے وفا ہو جاتی“۔بہادری کے ساتھ ساتھ قدم قدم پر قانونی راستہ اختیار کرتی رہیں بلقیس کہتی ہیں کہ جب اُنہیں معلوم ہوا کہ فوج نے اُنکے بھائیوں کو،جو اب اپنے والد کی ادویہ کی دکان چلاکر گھر چلاتے ہیں،مزید پریشان کرنے لگی ہے تو میں نے ایک فوجی میجر اور جموں و کشمیر پولس کے ڈی آئی جی کو فون کرکے کہا کہ میرے بھائیوں کو اس معاملے سے الگ سمجھا جائے کیونکہ یہ لڑائی میں اکیلے لڑ رہی ہوں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس دوران اُنہیں کئی بار خفیہ ایجنسیوں،فوج اور نہ جانے کن کن اداروں کی جانب سے ڈرایا بھی گیا،دھمکایا بھی گیا اور خاموش رہنے کی صورت میں پیسے کا لالچ بھی دیا گیالیکن اُنہیں اپنے والد سے کم یا پھر اُنکے قاتلوں کی سزا سے کم کچھ نہیں چاہیئے تھا سو وہ ڈر گئیں اور نہ ہی لالچ میں آکر ہاتھ کھڑا کرنے پر آمادہ۔
اپنے باپ کی تلاش اور اُنہیں غائب کرنے والے فوجیوں کو کٹہرے تک لانے کو مشن بناکر چل رہی بلقیس کا کہنا ہے”ایک دن فوج کے ایک افسر میجر اجیت نے کسی کے ہاتھ مجھ تک اپنا فون نمبر پہنچادیا تھا اور مجھے فون کرنے کو کہا تھا،میں نے فوری طور پولس کو مطلع کیا جس پر پولس کے ایک ڈی ایس پی ،شبیر احمد،نے مجھے اُنکا اشارہ ملنے کا انتظار کرنے کو کہا۔

بعدازاں ڈی ایس پی مذکورہ مجھ سے ملے،اُنہوں نے مجھے ایک فون اور سِم کارڈ دیا اور کہا کہ میں اسی سے مذکورہ فوجی افسر سے بات کروں اورپوری گفتگو ریکارڈ کرکے رکھوں،میں نے ایسا ہی کیا اور اس گفتگو کا پولس کے خفیہ محکمہ کا ایک اہلکار گواہ رہا۔میجر نے مجھے پیسے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ میں اگر مقدمہ واپس لوں تو مجھے منھ مانگا پیسہ دیا جائے گا“۔

وہ کہتی ہیں کہ کہانی میں تب ایک نیا موڈ آگیا کہ جب مذکورہ پولس اہلکار ایک پُراسرار کار حادثے میں مارا گیا۔بلقیس کے مطابق اس حادثے کا تعلق بھی اُس لڑائی کے ساتھ ہے کہ جو وہ ایک با اثر اور طاقتور فوجی افسر کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں”یہ محض ایک حادثہ نہیں تھا بلکہ ثبوت مٹانے کے لئے مذکورہ اہلکار کو ایک سازش کے تحت ختم کیا گیا“۔


دیگر دروازوں سے مایوس لوٹنے کے بعد بلقیس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے اسکی مداخلت کی درکواست کی جسکے ردِ عمل میں جموں کشمیر ہائی کورٹ نے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ بڈگام کو معاملے کی تحقیقات کرنے کے لئے کہا۔جون 2004میں یہ معاملہ تحقیقات کے لئے سیشن کورٹکو منتقل ہوا اور با الآخر2007میں منظور احمد ڈار کی حراستی گمشدگی کے اس معاملے کو جموں وکشمیر پولس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم یا ایس آئی ٹیم کے سپرد کردیا گیا۔

بلقیس کہتی ہیں کہ یہ اُنکے لئے ایک اہم حصولیابی تھی کہ فوج اور دیگر حلقوں کے دباوٴ کے باوجود بھی وہ اپنے والد کے مقدمے کو اس مقام تک لے آسکی تھیں۔اُنکی محنت رنگ لا رہی تھی کہ مختلف رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود با الآخر2008میں پولس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے کام شروع کیا۔چناچہ بلقیس سرگرمی سے معاملے کے پیچھے تھیں ٹیم نے کئی بار مثل کھولی،بند کی اور پھر سے کھول کر جانچ شروع کی یہاں تک کہ ٹیم نے میجر کشور ملہوترہ،جو اب ترقی پاتے پاتے برگیدئر ہوچکے ہیں،کو ملوث بتاکر اُنہیں حاضری کے لئے طلب کرتے ہوئے سمن جاری کردیا،برگیڈئر صاحب تاہم ٹس سے مس نہ ہوئے اور اپنہوں نے خود کو حاضری کے لئے مجبور نہ پایا۔


2009کے اوائل میں بلقیس نے پرشانت بھوشن کو وکیل بناکر سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی جہاں سے ملزم برگیڈئر کے نام سمن جاری ہوا لیکن اُنہوں نے اس پر حکمِ امتناعی جاری کروایا۔اس معاملے سے منسلک کئی اتفاقات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب اسی سال کے اواخر میں بلقیس کی شادی ہوئی تو عین اُنکی شادی کے دن دلی سے اُنکے وکیل نے اُنہیں فون کرکے کچھ یوں بتایا”آپ نے مقدمہ جیت لیا ہے بلقیس“۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ فون کال اُنکی شادی پر ملنے والے سبھی تحفوں میں سے سب سے اعلیٰ اور قیمتی تحفہ تھاکہ اُنہیں ایسا لگا تھا کہ وہ اپنے پاپا کو انصاف دلانے کے قریب ہوگئی ہیں۔سپریم کورٹ نے جموں کشمیر ہائی کورٹ کے حکم کو بر قرار رکھتے ہوئے ملزم کشور ملہوترہ کو جموں کشمیر پولس کی ایس آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کو کہا تھا۔یہ حکم یونین آف انڈیا کی جانب سے ملزم کشور ملہوترہ کے لئے خصوصی استثنیٰ کی در خواست یا Special Leave Petitionکو خارج کرتے ہوئے دیا گیا تھا۔

بعدازاں ایس آئی ٹی نے برگیڈئر ملہوترہ سے پوچھ تاچھ کے بعد اپنی رپورٹ میں یوں کہا”پوچھ تاچھ کے دوران اُنہوں نے منظور کو حراست میں لینے کا اعتراف نہیں کیا (اور نہ ہی اُنکی لاش کا کوئی سُراغ دیا)جس سے صاف ہے کہ ملزم نے لاش ضائع کردی ہوگی لہٰذا اُنکے خلاف ثبوت مٹانے سے متعلق رنبیر پینل کوڈ کی دفعہ 201کے تحت بھی معاملہ درج کر لیا جاتا ہے“۔


فروری2013کو بلقیس کو اچانک ہی پولس نے فون کرکے مقامی تھانے طلب کیا جہاں سے اُنہیں ایک فوجی چھاونی لیجایا گیا جہاں پولس کے چیف پراسیکیوٹنگ افسر،آئی جی پی،ڈی آئی جی اور نچلے درجے کے کئی افسروں کی موجودگی میں اُنہیں ملزم فوجی افسر کشور ملہوترہ کے روبرو کرایا گیا اور اُنہیں ملزم کی شناخت کرنے کو کہا گیا۔وہ کہتی ہیں”میں نے کسی دقعت یا پریشانی کے بغیر جھٹ سے کشور ملہوترہ کی جانب اشارے کے ساتھ بتایا کہ وہی میرے پاپا کے قاتل ہیں“۔

پولس نے کچھ مزید پوچھے یا بتائے بغیربلقیس اور اُنکے ساتھ گئے رشتہ داروں کو واپس گھر چھوڑا تاہم اڈھائی سال بعد گئے سال جولائی میں ہائی کورٹ نے پولس کو منظور احمد ڈار کی حراستی گمشدگی کے جُرم میں کشور ملہوترہ کی گرفتاری کا حکم دیا۔عدالت کے اس حکم سے ڈر کر ملزم فوجی افسر نے سپریم کورٹ میں عرضی لگا کر ایک بار پھر اپنی معصومیت کا رونا رویا تاہم عدالت نے درخواست کو مسترد کردیا۔


ظلم،بربریت،نا انصافیئبُزدلی،بہادری اور وفاداری کے کرداروں سے بھرپور اس کہانی سے منسلک یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ جس دن بلقیس اپنے والد کی نمازِ جنازہ پڑھوارہی تھیں،سپریم کورٹ میں ملزم فوجی افسر کی جانب سے دائر خصوصی استثنیٰ یا Special Leave Petitionزیرِ شنوائی آئی جو اُنہوں نے اپنی گرفتاری کے چلینج میں دائر کی ہے۔عدالت نے منظور احمد کی بیوہ اور بلقید کی والدہ کو مذکورہ درخواست کا جواب دائر کرنے کے لئے کہا ہے جو وہ یقیناََ پیش کرنے والی ہیں۔


یہ بھی ایک رُلادینے والا اتفاق ہی ہے کہ اپنے بیٹے منظور احمد کو ایک نظر دیکھنے کی حسرتیں کرتے کرتے آنکھیں اندھی کرچکیں اُن کی ماں زیبہ بیگم منظور کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنے کے دوسرے ہی دن انتقال کر گئیں۔بلقیس کہتی ہیں”ایسا لگتا ہے کہ دادی پاپا کے انتظار میں ہی جی رہی تھیں لیکن جب اُنہیں اُنکی نمازِ جنازہ پڑھے جانے پر سبھی اُمیدیں ختم محسوس ہوئیں تو وہ کوچ کر گئیں“۔

وہ کہتی ہیں کہ نمازِ جنازہ کے بعد ہی زیبہ نے اپنے پوتے پوتیوں سے کہا تھا”میرے بچے کے لئے میرا انتظار اب ختم ہو چکا ہے،میں تو اب اُس سے اُدھر(دوسری دُنیا میں)ہی ملوں گی،واقعی دادی پاپا سے ملنے چلی گئی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ وہاں اُنہیں پا لیں گی۔
چودہ سال کی طویل مدت کے دوران بلقیس اور اُنکے خاندان نے بڑی پریشانیاں جھیلی ہیں جو یقیناََ تھکا دینے والی ہیں لیکن اُنکے پاپا کی محبت ، اُنکے ساتھ ہونے والے ظلم اور انصاف پانے کی چاہت نے اُنہیں دیوانوں کے جیسی ہمت دلائی ہوئی ہے۔

وہ کہتی ہیں”میں نہیں تھکوں گی ،میں پاپا کو زندہ تو نہیں دیکھ پاوٴں گی لیکن ہاں اُن کے قاتلوں کو انجام تک پہنچتے دیکھنے کے لئے لڑتی رہوں گی،اُنہیں سزا ملنے تک میں چین سے نہیں بیٹھوں گی“۔
معاملہ بھلے ہی مختلف نوعیت کے ہوں لیکن جموں کشمیر میں ابھی دو بیٹیاں اپنے والدین کے ساتھ وفا کی کہانیاں لکھ رہی ہیں…ایک طرف محبوبہ مفتی خوشامدیوں،موقعہ پرستوں،وزیروں اور سیاستدانوں کے جھرمٹ میں اپنے والد کی سیاسی وارث بنکر وزیرِ اعلیٰ بننے والی ہیں،وہ ہر آن کہنے والی ہیں کہ وہ اپنے والد کے ادھورے خواب پورا کرنا چاہتی ہیں اور دوسری جانب بلقیس نہ جانے کب تک تن تنہا اپنے مظلوم والد کے لئے ایک بڑی طاقت کے ساتھ لڑتی دیکھی جائینگی۔

یہ ایک بیٹی کی جنگ ہے جس میں اصول و ضوابط کے مطابق اُنکی جیت یقینی ہے لیکن کیا بلقیس کو جیتنے بھی دیا جائے گا…؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :