اگلا وزیر اعظم”سوشل میڈیا“

اتوار 14 فروری 2016

Hussain Jan

حُسین جان

انگریزی بولنے والے بابا جی ہوں، جسٹن بیبر کا گانا گانے والی بہنیں ہوں، گٹروں پر ڈھکن لگوانے ہوں ، ٹرک کو روک کو لوگوں کو بچانے والا ہو،سیاستدانوں کا اصلی روپ دیکھنا ہو یا کچھ بھی کرنا ہو،آپ اپنا مسئلہ سوشل میڈیا پر ڈال دیں اگر تقدیر اچھی ہوئی اور وہ viralہو جائے تو سمجھیں آپ کا کام منٹوں میں ہوجائے گا۔ اخبارات نے نرگس فخری کا اشہتار ایک دن چلایا تھا مگر سوشل میڈیا پر اُس کی اب تک دھوم ہے۔

پاکستان ایک ایسا بد قسمت ملک ہے جس کے عوام کو کام کروانے کے لیے نیوزچینلز یا سوشل میڈیا کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
اگر ہم نے سارئے کام سوشل میڈیا کے زریعے ہی کروانے ہیں تو کیوں نہ اگلے الیکشن میں سوشل میڈیا کو وزیر آعظم کے طور پر نامزد کر دیں۔ بدقسمتی سے ہماری حکومت ، صوبائی ہو یا وفاقی کو تب تک ہوش نہیں آتی جب تک سوشل میڈیا پر کوئی چیز وائرل نا ہوجائے۔

(جاری ہے)

ہمارے وزیر آعظم صاحب اکثر و بیشتر ملک سے باہر ہی پائے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی احباب سوچتے ہیں کہ اگر سوشل میڈیا نا ہوتا تو کیا بنتا۔ کچھ لوگوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کو ہر چیز سے تبدیل کر دینا چاہیے تاکہ لوگوں کو ضروریات تو پوری ہو جائیں۔ اگر میٹرو ٹرین منصوبہ بھی سوشل میڈیا سے مکمل کروا لیا جاتا تو بہتر تھا ،ہوسکتا ہے اس سے جن لوگوں کو املاک رستے میں آرہی ہیں اُن کی کچھ بچت ہوجاتی ۔

اس کے ساتھ ساتھ تاریخی امارات کا جو حشر نشر ہو رہا ہے اس سے بھی جان چھوٹ جاتی۔
جتنی سیاسی شعبدہ بازیاں ہمارے دیس میں ہوتی ہے اُتنی شائد دُنیا کے کسی ملک میں نہیں ہوتی۔ ہمارئے وزرا جن کا کام عوامی خدمت کرنا ہے وہ ہر وقت اپوزیشن کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے رہتے ہیں، تقریبا تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا سیل بنا رکھے ہیں جن کا کام دشمن جماعت کے لیڈروں اور کارکنوں کی کردار کشی کرنا ہوتا ہے۔

تمام جماعتوں نے تحریک انصاف کی نقل کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر لوگوں کو لگا رکھا ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے ورکر بلا معاوضہ کام کرتے ہیں اور اُن کا مقصد لوگوں کی کردار کشی کرنا نہیں بلکہ عوام میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔ اپنی پارٹی کی ممبر شپ کرنا اور پارٹی کے منشور کو آگے بڑھانا ہے ، جبکہ باقی تمام جماعتوں کے سوشل میڈیا ورکروں کا کام صرف اور صرف لوگوں پر کیچڑ اُچھالنا ہے۔


پوری دُنیا سوشل میڈیا کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ لوگوں کو جتنا علم سوشل میڈیا سے حاصل ہوا ہے اُتنا شائد کتابوں سے بھی نہیں ملا۔ لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ حکومتیں تب ہی کام کریں جب کوئی شہری اپنامسئلہ سوشل میڈیا پر ڈالے۔ کرپشن ایک ایسا دیمک ہے جو ہمارئے معاشرئے کو گزشتہ کئی دہائیوں سے چاٹ رہی ہے۔ ہر ادارئے میں کرپشن عروج پر پہنچ چکی ہے، پی آئی اے، واپڈا، ریلوئے، جیسے دوسرئے تمام ادارئے اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔

حکومت قرضوں پر قرضے لے رہی ہے، کیا کبھی قرضوں سے کسی کا گھر چلا ہے۔ ہمارئے وزیر آعظم الیکشنز سے پہلے کہاکرتے تھے کہ اُن کے پاس تجربہ کار ٹیم موجود ہے وہ اقتدار میں آتے ہی ملک کے تمام مسائل ختم کردیں گے۔ آج ان صاحب کو حکومت میں آئے تین سال ہونے کو ہیں مگر ایک بھی ایسا کام نہیں کر پائے جس سے عوام کو راحت حاصل ہوئی ہو۔ شہباز شریف صاحب میٹرو بس پر بہت اتراتے ہیں کیا کبھی انہوں نے کسی سرکاری ہسپتال کا دورہ کیا ہے، کیا اُن کو پتا ہے کہ سرکاری سکولوں کی کیا حالت ہے۔


سوشل میڈیا ہو جا عام میڈیا ہماری حکومت کا پسندیدہ مشغلہ اشتہار بازی ہے، شہباز شریف کی بڑی بڑی تصویریں چھپتی ہیں۔ تمام منصوبے اخبارات کی حد تک ہی نظر آتے ہیں۔ اگر چلنے والے نام نہاد منصوبوں سے عوام کو کوئی فائدہ ہو رہا ہوتا تو شوشل میڈیا پر بھی اس کی دھومیں ہوتی ہیں۔ اخبارات حکومتی نااہلی سے بھرئے پڑئے ہیں۔ کرپشن کی ایسی ایسی کہانیاں لائی جاتی ہیں کہ عقل دھنگ ہو جاتی ہے۔

کچھ نون لیگے یہ کہتے بھی پائے جاتے ہیں کہ ملک کی یہ حالت پی پی پی اور مشرف دور میں ہوئی۔ چلو مانا مشرف تو ایک ڈیکٹیٹر تھا مگر پی پی پی تو سول اور جمہوری حکومت تھی۔ اور میاں صاحب اپوزیشن میں تھے۔ اگر انہوں نے حکومت کو مشکل وقت دیا ہوتا تو ملک کا یہ حال نا ہوتا۔ انہوں نے زرداری حکومت کو کھلی چھوٹ دی کہ وہ اور اُن کے حواری جو دل میں آئے کرتے رہتے تھے ، مگر میاں صاحب نے کبھی اپوزیشن کامثبت کردار ادا نہیں کیا۔

بد قسمتی سے یہ کردار بھی شوشل میڈیا کو ادا کرنا پڑا۔
اگر موجودہ دور کی اپوزیشن کا کردار دیکھیں تو وہ بھی کسی عجوبے سے کم نہیں ، چوہدری نثار صاحب نے شاہ صاحب پر الزامات لگائے تو شاہ صاحب کو ہوش آیا کہ وہ اپوزیشن میں ہیں۔ کچھ دن سلطان راہی کی طرح بھڑکیں مارتے رہے پھر جاگ کی طرح آرام سے بیٹھ گئے۔ یہ تو اللہ بھلا کرئے عمران خان کا جس نے بہت کم سیٹوں کے ساتھ بھی اپوزیشن کا کردار احسن طریقے سے نبھایا۔

ورنہ شائد موجودہ حکومت بھی پی پی پی سے کم نا کرتی۔ عمران خان کی پارٹی کے ساتھ ساتھ شوشل میڈیا نے بھی اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔
لہذا بہت سے دوستوں کی فرمائش ہے کہ ہم اپنا اگلا وزیر آعظم سوشل میڈیا کو بنایں گے۔ جس میں ٹویٹر وزآعظم کی سیٹ سمبھالے گا اور فیس بک وزیر داخلہ کی۔ یو ٹیوب وزیر دفاح، اور گوگل وزیر صحت ۔ ہمارئے لیے کتنے شرم کی بات ہے کہ لوگوں کی شنوائی تب تک نہیں ہوتی جب تک اُن کی فریاد کسی نہ کسی طرح میڈیا تک نا پہنچ جائے۔

کیا لوگوں نے اسی لیے میاں صاحب کو اقتدار سونپا تھا کہ وہ جو دل میں آئے کرتے پھریں۔ اپنے برئے وقت کے دوستوں کو نوازتے پھریں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو ایک دن نون لیگ بھی پی پی پی کی طرح قصہ پارینا بن جائے گی۔ اور پھر واقعی سوشل میڈیا ہی پاکستان پر حکومت کرئے گا۔ یہ تو میاں صاحب کی قسمت اچھی ہے کہ جنرل راحیل شریف کو اقتدار کا لالچ نہیں ورنہ حکومت نے تو مارشل لاء کے بہت سے مواقع عطا کیے ہیں۔

کچھ درویش قسم کے دوستوں کا تو یہاں تک ماننا ہے کہ راحیل شریف کی سبکدوشی کے بعد ہوسکتا ہے آنے والے جرنیل سے حکومت کی نا بنے اور پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔ بڑی بڑی ہانکنے والے زرداری صاحب تو باہر کسی بل میں چپھے بیٹھے ہیں کہیں یہی حال موجودہ حکمرانوں کا بھی نا ہو۔ لہذا اگر سوشل میڈیا سے بچنا ہے تو حکومت کو اپنا قبلہ درست کرنا پڑئے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :