شہید کشمیر محمد مقبول بٹ

جمعرات 11 فروری 2016

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
میں اپنا خون دے کر ثابت کروں گا کہ میں کس مقصد کے لیے جدوجہد کررہاہوں۔ مقبول بٹ نے ۱۱ فروری ۱۹۸۴ء کو تہاڑ جیل دہلی میں تختہ دار پر آزادی کا نعرہ بلند کرکے پھانسی کے پھندے کو چومتے ہوئے دنیا کو بتا دیا کہ کشمیری موت سے نہیں ڈرتے ۔تاریخ انسانی میں بہت بہادر اور نڈرانسان گذرے ہیں لیکن مقبول بٹ جیسا جری اوربہادر انسان شائد ہی تاریخ انسانی میں ملے۔

یہ ایک محض جذباتی جملہ نہیں بلکہ واضع حقیقت ہے کہ اگر کسی کوپھانسی کی سزا سُنائی گئی ہو، جہاں کی حکومت بھی اُس کی جانی دشمن ہو اور وہ پھانسی کی کوٹھڑی توڑ کر دشمن کی قید سے باہر نکلا ہو اور سب نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے پھر ایک بار موت میں جانے کی ہمت کرے وہ مقبول بٹ ہی ہوسکتا ہے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

(جاری ہے)

مقبول بٹ کو اگر ذرا بھی موت کا خوف ہوتا تو وہ کبھی بھی سزائے موت کے فیصلہ کے ہوتے ہوئے دوبارہ وادی کشمیر میں نہ جاتے۔

انہوں نے سیالکوٹ جموں کی سرحد پر واقع سوچیت گڑھ کے مقام پر مادروطن کی مٹی کو ہاتھ میں لیکر جو حلف اٹھایا تھا اُسے سچ کردیکھایا۔ اقوام متحدہ کی بے عملی اور مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکامی اور ٹاخیری حربوں سے کشمیری قوم بے زار ہورہی تھی۔ دنیا کے منصفوں کو کشمیرکی وادی میں بہتے ہوئے لہو کا جب شور سُنائی نہیں دے رہاتھا تو مقبول بٹ نے اپنی قوم کو بتا دیا کہ آزادی مانگنے سے نہیں چھیننے سے ملتی ہے۔

غلامی کے اندھیروں کو اپنے خون کے چراغ جلاکر ہی روشن کیا جاسکتا ہے اور دوسروں پر تکیہ کرکے آزادی کے خواب دیکھنا محض خوش فہمی ہوگا۔آج مقبول بٹ کا نام ایک تحریک کا نام بن گیا ہے۔ کشمیری نوجوان خواہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتا ہو وہ شہید کشمیر کی جلائی ہوئی شمع کی روشنی میں آزادی کے لیے مصروف جدوجہد ہے۔ مقبول بٹ نے جب یہ دیکھا کہ کشمیری عوام کو اعتماد میں لیے بغیر اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث آپریشن جبرالٹر کی ناکامی،۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد معائدہ تاشقند کے بعد مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈالا جارہا ہے تو انہوں نے مسلح جدوجہد کا راستہ اپنایا۔

ایک مقابلہ میں بھارتی آفیسر امرچند کی کشمیری مجاہدین کے ہاتھوں قتل کے بعد مقبول بٹ گرفتار ہوئے اور اُن پر مقدمہ چلاکر انہیں پھانسی کی سزا سُنائی گئی۔ جج نے جب اپنا فیصلہ سنایا تو مقبول بٹ نے بڑی دلیری سے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ابھی وہ پھندا نہیں بنا جس سے مقبول بٹ کو پھانسی دی جاسکے۔ اور انہوں نے یہ اس وقت سچ کردیکھایا جب وہ دسمبر ۱۹۶۹ء کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سری نگر جیل توڑ کر مظفر آباد پہنچے۔

لیکن یہاں آکر بھی اُن پر ظلم و ستم کا دور جاری رہا اور بلیک فورٹ میں انہیں پابندِ سلال کردیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد رہائی ملنے کے بعد وہ پھر متحرک ہوگئے۔اُس وقت مسئلہ کشمیر جمود کا شکار ہورہاتھا۔ کشمیری سیاستدان مظفر آباد اور سری نگر کی کرسی کے پجاری بننے لگے اور حصول اقتدار کی خاطر وہ آزادی کو بھول چکے تھے۔ دوسری جانب عالمی سطح پر بھی مسئلہ کشمیر کو دنیا بھول رہی تھی کہ انہوں نے فلسطینی مجاہدہ لیلیٰ خالد کی پیروی کرتے ہوئے کشمیری حریت پسندوں ہاشم قریشی اور اشرف قریشی(مرحوم) کے ہاتھوں بھارتی جہاز گنگا کو اغواہ کرواکے پوری دنیا کی توجہ ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول کروا دی۔

لاہور کے ہوائی اڈہ پر ذولفقار علی بھٹو خود گئے اور ہاشم قریشی سے ملاقات کی۔ جہاز کے جلائے جانے کے بعد یحییٰ خان کی حکومت نے انہیں بھارتی ایجنٹ قرار دے کر مقدمہ چلایا لیکن پاکستان کی سپریم کورٹ نے مقبول بٹ اور اُن کے ساتھیوں کو محب وطن قرار دے کر باعزت بری کردیا۔گنگا طیارہ ہائی جیک کرنے والے جناب اشرف قریشی پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ کشمیریات میں راقم کے استاد تھے۔

وہ بہت محب وطن اور اعلیٰ اوصاف کے حامل انسان تھے۔ اللہ رب العزت انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
۱۹۷۱ء کی جنگ اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد شیخ عبداللہ مایوس ہوگئے اور انہوں نے اندرا گاندھی سے معائدہ کرلیا جبکہ دوسری جانب بھٹو اور اندرا معائدہ کے بعد پاکستان اور بھارت نے عملاََ تقسیم کشمیر کو تسلیم کرتے ہوئے سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن قرار دے دیا ۔

مقبول بٹ نے ایک بار پھر جدوجہد شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک بار پھر بھارتی زیر قبضہ کشمیر میں اپنے دو ساتھیوں ریاض ڈار اور حمید بٹ کے ساتھ ۱۹۷۶ ء میں داخل ہوگئے۔ یہ کوئی آ ّسان فیصلہ نہ تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہاں ان کے لیے سزائے موت کا فیصلہ موجود ہے پھر بھی وہ بے پناہ بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں چلے گئے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس بغیر تحریک آزادی کو متحرک نہیں کیا جاسکتا۔

اسی دوران وہ ایک بار پھر بھارتی افواج کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے اور انہیں تہاڑ جیل دہلی میں پابند سلال کردیا گیا۔ انہوں نے جیل سے بھی درس حریت جاری رکھا۔ آخر کار وہی ہوا جو غاصب قوتیں آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے ساتھ کرتی ہیں۔ موت ایک حقیقت ہے اور ایک دن سب کو اس کا سامنا کرنا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں موت بھی سلام پیش کرتی ہے مقبول بٹ بھی انہیں میں سے ایک تھے جنہیں موت نے تہاڑ جیل دہلی میں ۱۱ فروری ۱۹۸۴ ء کو سلام پیش کیا ۔


جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
مقبول بٹ کی شہادت پر کشمیری قوم کا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے۔ اُس کی جرات و بہادری اور جوش و جنوں کو شکست نہیں دی جاسکی۔۔ مقبول بٹ کو ختم کرنے والی قوتوں نے سمجھا کہ اب کشمیر کی آزادی کی کوئی تحریک نہیں اٹھے گی اور یہ کہ کوئی اس کا نام لیوا نہ ہوگا۔

مگر یہ اُن کی خام خیالی تھی۔ یہ مقبول بٹ کا ہی لہو تھا جس کی روشنی میں کشمیری نوجوان اٹھے اور راہ آزادی پر چل پڑے۔ شہید کے ساتھی امان اللہ خان نے برطانیہ میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی اور پھر وہاں کے ساتھ پاکستان اور آزادکشمیر میں کشمیری نوجوانوں کو منظم کرنا شروع کیا۔ ۱۹۸۸ء میں یہ سلگتی ہوئے چنگاری ایک شعلہ بن گئی اور وادی میں آزادی کے متوالے مقبول بٹ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے لہو کے چراغ جلانے لگے۔

اشفاق مجید وانی، شیخ عبدالحمید، جمیل چوہدری،رضا، شبیر صدیقی اور ہزاروں شہیدوں نے لازوال داستان رقم کی ہے جس پرکشمیری قوم بلا شبہ فخر کرسکتی ہے۔
میں مقبول بٹ کو پھانسی دینے والوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر اپنے مادر وطن کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کرنا جُرم اور دہشت گردی ہے توکیا ہندوستان کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کرنے والے سبھاش چندر بوس اور اُن کی آزاد ہند کے سپاہی بھی مجرم اور دہشت گرد تھے وہ کون سا قانون ہے جس کے تحت پھانسی پانے والے کو سزائے موت سے قبل اس کے لواحقین سے نہ ملایا جائے اور پھانسی کے بعد اُس کی میت بھی اُن کے حوالے نہ کی جائے اور جبری طور پر دفن کردیا جائے ۔

شہید کی والدہ، بھائی اور اہل خانہ آج بھی شہید کے جسد خاکی کے منتظر ہیں اور سرنگر میں ان کی آخری آرام گاہ بھی شہید کو اپنے پہلو میں لینے کی منتظر ہے۔مقبول بٹ نے کشمیری نوجوانوں کے قلوب میںآ زادی کی جو شمع روشن کی ہے وہ اب ریاست جموں کشمیر کی آزادی پر ہی جا کر ختم ہوگی اور مقبول بٹ نے مادر وطن کی آزادی کا جو خواب دیکھا تھا وہ آخر کار ایک دن انشاء اللہ ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :