آئیڈیا ز کا قتل !

پیر 1 فروری 2016

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

تقریبا دوسال پہلے کی بات ہے میں ملک کے ایک مشہور اخبار کے آفس میں بیٹھا تھا ،میں اخبار کے ایڈیٹر سے ملنے گیا تھا اور یہ ایک رسمی ملاقات تھی ۔میں ان دنوں ٹائن بی کو پڑھ رہا تھا اور ٹائن بی کے نظریہ تخلیق کاری نے مجھے بہت متاثر کیا تھا ۔ میں ٹائن بی کے اس نظریئے کی کھوج میں تھا کہ وہ کسے تخلیق کار ڈکلیئر کرتا ہے ، میں نے اس سے متعلق مختلف لوگوں ، دانشوروں اور اخبار نویسوں سے سوالات کیے لیکن میری تشنگی ابھی باقی تھی ، اخبار کے ایڈیٹر سے ملاقات ہوئی تی یہی سوال میں نے ان کے سامنے رکھ دیا ۔

ایڈیٹر صاحب بولے ”میں تخلیق کاری کی کوئی لگی بندھی تعریف تو نہیں کر سکتا لیکن میرے خیال میں دنیا کا ہر وہ انسان تخلیق کارہے جو نئی سوچ اور نئے آئیڈیاز پیش کرتا ہے “ میرا اگلا سوال تھا ” سر کیا ہمارے ہاں ایسے تخلیق کا ر جنم لے رہے ہیں اور اگر نہیں تو کیوں نہیں ؟“ وہ بولے ” پہلی بات یہ ہے کہ تخلیق کار ایک خاص ماحول میں جنم لیتا ہے اور ہمارے ہاں ایسا ماحول بنتا نہیں یا بننے نہیں دیا جاتا اور اگر غلطی سے کہیں کوئی تخلیق کار سامنے آ جائے تو اسے مناسب پذیرائی نہیں دی جاتی اور اسے اس کا جائز مقام نہیں دیا جاتا اور یوں وہ تخلیق کار اپنے آئیڈیاز کے ساتھ یا بیرون ملک مقیم ہوجاتا ہے یا اپنے آئیڈیاز کو اپنے سینے کی قبر میں دفن کر دیتا ہے “ میں نے پوچھا ”سر کیا ایک رائٹر ،مصنف ،شاعر اور کالم نگار بھی تخلیق کار ہو سکتا ہے “ وہ پر جوش انداز میں بولے ” برخوردار یہی لوگ تو اصل تخلیق کار ہیں کیونکہ یہ عوام کو نئی سوچ ،نئی فکر اور نئے رجحانات سے متعارف کرواتے ہیں یہ عوام کی فکری راہنمائی کرتے ہیں اور معاشرتی رویوں کی تشکیل میں ان کا بڑا کردار ہوتا ہے “ میں نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا ” سر کیا آپ نے کبھی کسی ایسے تخلیق کار کی قدر کی ، آپ نے کبھی کسی شاعر کو پذیرائی دی، کیا آپ نے کبھی کسی تخلیق کار کی حوصلہ افزائی کے لیے دوبول بولے ، سر آپ ایک بڑے اور نامور اخبار کے ایڈیٹر ہیں کیا آپ نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ آپ کے اخبار میں کتنے نئے لوگ لکھ رہے ہیں اور ان میں سے کتنے ایسے ہیں جو مستقبل میں بہترین تخلیق کار بن سکتے ہیں اور کیا آج تک آپ نے کسی ایسے تخلیق کار کو مناسب پذیرائی دی اور اسے اس کا جائز مقام دیا “ انہوں نے رسمی سا جواب دیا اور ضروری میٹنگ کے لیے اٹھ کر چلے گئے ۔

(جاری ہے)


ملکوں اور قوموں کی ترقی میں اصل کر دار تخلیق کاروں کا ہوتا ہے دنیا کا ہر وہ انسا ن تخلیق کار ہے جو نئی سوچ ، نئی فکر، نئے آئیڈیاز ، نئے رجحان ، نئی بات اور نئے طریقے پیش کرتا ہے ،ہر وہ انسان جو اپنے وقت کے چیلنجز کا ادراک کر کے ان سے نمٹنے کا مناسب حل پیش کرے اسے ہم تخلیق کار کہہ سکتے ہیں اور دنیا میں وہی معاشرے زندہ رہتے ہیں جن کے تخلیق کار اپنے عوام کو مسلسل نئے افکار کی آکسیجن فراہم کرتے رہتے ہیں اور جب ایسے تخلیق کار دم توڑ دیں تو معاشرہ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ دیتا ہے ۔

دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے ، جتنی بھی نئی ایجادات ہوئیں اور آج تک دنیا نے جتنی بھی ترقی کی اس سب کا کریڈٹ اپنے وقت کے تخلیق کاروں کو جاتا ہے ۔ہماری جدید دنیا کا آغاز انقلاب فرانس سے ہوتا ہے اور انقلاب فرانس کے پیچھے مونٹسکو ، وولٹائر اور روسو جیسے تخلیق کاروں کا ہاتھ تھا ، آج امریکہ اگر مادی ترقی کا امام ہے تو اس کے پیچھے تھامس ایلوا ایڈیسن جیسے تخلیق کار بیٹھے ہیں جنہوں نے اتنی چیزیں ایجاد کی کہ انہیں ان کے نام تک یا نہیں تھے ، آج چین اگر چین ہے تو اس کے پیچھے ماوٴزے تنگ جیسے تخلیقی لیڈرکی سوچ کارفرما ہے اور ہمیں اگر علامہ اقبال اور قائد اعظم جیسے تخلیق کار نہ ملتے تو یہ ملک کبھی وجود میں نہ آتا ،بل گیٹس اگر ہارورڈ یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد اپنی تخلیقی سوچ کو کام میں نہ لاتا تو آج دنیا کا امیر ترین آدمی نہ کہلاتا ، مارک زکر برگ اگر ہا رورڈ یونیورسٹی کے ہاسٹل کے کمرے میں بیٹھ کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نہ آزماتا تو آج ہم سوشل میڈیا کی ”نعمت “ سے محروم ہوتے ۔

تخلیق کار کسی بھی معاشرے کے لیے آکسیجن کا درجہ رکھتے ہیں اور جب تک یہ آکسیجن وافر مقدار میں فراہم ہوتی رہے معاشرے زندہ رہتے ہیں ورنہ ان کا وہی حال ہوتا ہے جو آج ہمارا اور تیسری دنیا کے تمام ممالک کا ہے ۔ یہ وجہ نہیں کہ تیسری دنیا بانجھ ہے اور یہاں تخلیق کار جنم نہیں لیتے بلکہ یہ لوگ اپنی ناقدری کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں چلے جاتے ہیں اور ان کی ساری تخلیقی صلاحیتیں ان ممالک کے کام آتی ہیں ۔


مصنف ،ادیب اور لکھاری کسی معاشرے کے بہترین تخلیق کار ہوتے ہیں اور اکیسویں صدی میں ایک اہم صنف کالم نگاری بھی اس فہرست میں شامل ہو گئی ہے ، بلکہ اب تو کالم نگاری کی صنف دیگر تمام اصناف پر حاوی ہو گئی ہے ۔ ہمارے کالم نگار معاشرے میں رائے سازی کا کردار ادا کرتے ہیں اور انہیں معاشرے میں ” اوپینین میکر “ کا درجہ حاصل ہوتا ہے ۔

پاکستانی اخبارات کا ادارتی صفحہ انٹرنیشنل اخبارات کے معیار کا ہوتا ہے اور ہمارے پاس بہت اچھا لکھنے والے موجود ہیں ،ہمارے اورانڈیا کے اردو اخبارات کے ادارتی صفحات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اس صنف کی اہمیت کے پیش نظر ہمارے نئے لکھنے والے یا دوسرے لفظوں میں ہمارے نئے تخلیق کار اس میدان میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں لیکن انہیں مناسب پذیرائی اور ان کا جائز مقام نہیں دیا جا رہا۔

جو حضرات کالم نگاری کی صنف سے وابستہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک کالم لکھنے کے لیے کتنی محنت درکار ہوتی ہے اس لیے اگر ہماری نئی نسل میں سے کچھ ” سر پھرے “ اس میدان میں قدم رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کے آئیڈیاز کی قدر کرنی چاہئے ۔ اخبارات کے ایڈیٹوریل بورڈ میں کوئی ایسا نظام ہونا چاہئے جو نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرے اور انہیں آگے آنے کا موقعہ دے ۔

اخبارات اپنے 12یا 16صفحات میں سے کسی بھی صفحے کا لوئر ہاف نئے لکھنے والوں کے لیے مختص کرسکتے ہیں، اس صفحے پر چھپنے والوں کو ایک خاص معیار کے بعد باقاعدہ ادارتی صفحے میں شامل کر لیا جائے ۔ اب ہوتا یہ ہے کہ اپنے کیرئیر کی ابتدا میں کھڑا کالم نگار اپنے ماحول ، سوسائٹی اور حالات سے تو عوام کو باخبر کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کے اپنے مسائل کیا ہیں اور وہ خود کس پوزیشن میں ہے اس کا کسی کو کچھ پتا نہیں ہوتا اور وہ دس سال بعد بھی اس جگہ پر کھڑا ہوتا ہے جہاں سے اس نے سفر کا آغاز کیا تھا ۔

اس کا کام صرف ادارتی صفحات کا پیٹ بھرنا ہے اس سے ذیادہ اس کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں اور اگر کہیں سے کوئی سفارشی کالم آ گیا تو اس کی یہ حیثیت بھی ختم ۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ہر ہفتے دو کالم لکھ کر میل کردے ، چھپ جائیں تو شکر کرے نہ چھپیں تو صبر کر کے بیٹھ جائے ۔ حتیٰ کہ اسی دوران اگر وہ مر بھی جائے تو نہ اس کے قارئیں کو خبر ہو گی اور نہ اس کا اخبار اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کرے گا ۔


میری ناقص رائے کے مطابق اپنے تخلیق کاروں کے ساتھ ہمارا یہ رویہ ٹھیک نہیں اور ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اخبارات کے ایڈیٹوریل بورڈ اور حکومتی سطح پر ایسے نئے تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کا کوئی نہ کوئی میکنزم موجود ہونا چاہئے ۔ تخلیق کار کسی بھی معاشرے میں آکسیجن کا درجہ رکھتے ہیں لیکن ہم جو رویہ اپنے تخلیق کاروں کے ساتھ اپنائے ہوئے ہیں یہ کوئی نیک شگون نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :