اُردو پاکستان کی قومی زبان

ہفتہ 30 جنوری 2016

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

ہر قوم کی اپنی تہذیب،ثقافت ، کلچر اور قومی زبان ہوتی ہے۔ قومی زبان اُس کی ترجمان ہوتی ہے اور قومیں زبان سے ہی پہچانی جاتیں ہیں۔ اسی ہی لیے بانی پاکستان قائد اعظم  نے بھی اُردو کو قومی زبان تسلیم کیا تھا بلکہ اس کے نفاذپر زور بھی دیا تھا۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ۲۵/ فروری ۱۹۴۸ء کو پاکستان کی سرکاری زبان اُردو کو قرار دیا تھا اور قائد اعظم محمد علی جناح نے بحیثیت گورنر جنرل اس پر دستخط کیے تھے۔

اگر اُردو کی تاریخ بیان کی جائے تو اُردو کا سب سے پہلا اخبار”جام جہان نما“ ۱۳/ مارچ ۱۸۲۲ء میں کلکتہ سے شائع ہوا تھا۔اُردو کہ پہلی یونیورسٹی جامعہ عثمانیہ حیدر آباد ۱۸۸۱ء میں قائم ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اُردو کا پہلا شاعر قلی قطب شاہ ہے جو ایک ریاست کا سربراہ بھی تھا۔

(جاری ہے)

یہ ریاست بیجا پور،گولکنڈا اور احمد نگر پر مشتمل تھی جو ۱۵۱۸ء میں قائم ہوئی تھی۔

جبکہ ولی دکنی کو ایک عرصہ تک اُردو کا پہلا شاعرماناجاتا تھا۔ اُردو کی ترقی میں پاکستان اور بھارت کی اُردو صحافت،الیکٹرونک میڈیا،فلمیں اور عام لوگوں کا آپس میں اُردو میں بات چیت کرنا شامل ہے۔ شاعروں نے بھی اُردو کو بہت ترقی دی جیسے کہا گیا کہ’(آتی ہے اُردو زبان آتے آتے“س اس طرح اُردوترقی کرتے ہوئی ہم تک پہنچی۔ اُردودنیا بھرمیں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

ایک عالمی سروے کے مطابق عالمی زبانوں کی درجہ بندی میں ہندی کو ساتھ ملا کر اس کا دوسرا نمبرہے۔دنیا کی زیادہ تر قوموں نے اپنی اپنی قومی زبانوں کو اپنا کر ترقی کی ہے جیسے جاپان،چین،ترکی،اسرائیل ، روس اور دیگر ملک شامل ہیں۔ہمارے حکمرانوں نے جیسے پاکستان کے دوسرے اداروں کے ساتھ نامناسب رویہ رکھا تھا ایسا ہی قومی زبان اردو کے ساتھ بھی روا رکھا گیا۔

آج تک اُردو پوری طور پر پاکستان کی قومی زبان نہیں بن سکی۔اس کی وجوہات پر اگر غور کیا جائے تو سب سے بڑی وجہ ہماری حکمرانوں کی غلام زہنیت ہے۔ انگریز تو خود ہمارے قائد کی جان تھکادینے والی جد وجہد سے تو چلے گئے اور ہم کو آزدی مل گئی مگر اپنی نشانیان غلام زہنیت حکمران،ڈکٹیٹروں، بیروکریٹ، گدی نشین اور انعام یا فتہ طبقے جس میں چوہدری، خان اور وڈیرے شامل ہیں کی شکل میں چھوڑ گئے تھے۔

اس تناظر میں اُردو کے نفاذ کی کوششوں کو دیکھا جائے توپاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ۲۵/ فروری ۱۹۴۸ء کو پاکستان کی سرکاری زبان اُردو کو قرار دیا تھا مگر اس کا نفاذ نہ ہو سکا۔۱۹۵۶ء کے دستور کی شق نمبر ۲۱۴ / کے تحت بیس برس یعنی ۱۹۷۶ء میں اُردو کو انگریزی کی جگہ لینی تھی مگر یہ دستور ڈکٹیٹر ایوب خان نے ۱۹۵۸ء میں منسوخ کر دیا۔۱۹۶۲ء کے آئین کی شق نمبر۲۱۵/ کے تحت اُردو کے نفاذ کے لیے دس سال طے ہوئے تھے مگر ۱۹۶۹ء میں ڈکٹیٹر یحییٰ نے یہ دستور منسوخ کر دیا۔

یہ طبقے عام مسلمانوں کو انگریز کے دور میں بھی اور اب بھی کنٹرول کرتے تھے۔ ایک طرف حکمرانوں ،ڈکٹیٹروں اور بیروکریٹ نے اُردو کو ملک کی قومی زبان نہیں بننے دیا تو دوسری طرف اِن وڈیروں، خانوں، چوہدریوں اور گدھی نشینوں نے عوام کو اُردو کے نفاذ کے لیے کوئی بھر پور تحریک بھی نہیں اُٹھانے دی۔ حکومت اگر آج ہی سول سروس کے امتحان اُردو میں لینے کافیصلہ کر لیا جائے چند تودنوں میں تمام کتابیں اُردو میں آ جائیں گی۔

بھارت کی الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی فیصلہ دیا ہے کہ تمام سرکاری ملازم اور سیاسی رہنما اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھائیں ۔ اگر ایسا پاکستان میں بھی ہوجائے تو سرکاری اسکولوں کا معیار تعلیم کسی بھی انگلش میڈیم اسکول سے بہتر ہو جائے گا۔ پھر ۱۹۷۳ء کے آئین میں اُردو کے نفاذ کے لیے ۱۵ /سال کی مدت کا تعین کر دیا تھا وہ تاریخ بھی گزر گئی اور اِن مقتدر طبقوں نے اُردو کو قومی زبان نہ بننے دیا۔

اب پھر عدالت اعظمیٰ نے آئین کی شق پر عمل کرتے ہوئے حکم دیاہے کہ اُردو کو قومی اور دفتری زبان بنایا جائے۔ مقدمے کا فیصلہ بھی اُردو میں تحریر کیا اور تقریر بھی اُردو میں کر کے پاکستان کے عوام کے دل جیت لیے ہیں۔کاش کہ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا مگر دیر آمد درست آمد والی بات ہے۔ عدالت اعظمیٰ کے موجودہ جسٹس صاحب نے بھی سینیٹ میں اُردو میں تقریر کر کے اچھی روایت قائم کی ہے۔

دوسری طرف ہمارے وزیر اعظم نے کچھ دن پہلے اقوام متحدہ میں انگریزی میں تقریر کر کے پاکستانی عوام میں کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں کیا۔کراچی کی لسانیت پر قائم ہونے والی علاقائی جماعت نے اُردو کو ایک خاص ، خود ساختہ قوم سے منسوب کر کے بھی اُردو کو نقصان پہنچایا ہے۔ اُردو برصغیر کے اربوں اور پاکستان کے کروڑوں لوگوں کی رابطے کی زبان ہے یہ کسی لسانی گروہ کی زبان ہرگز نہیں۔

یہ ہمارادینی مسئلہ بھی ہے کیونکہ عربی کے بعد سب سے زیادہ اسلامی لڑیچر اُردو زبان میں ہے۔ اس لیے ہمارے اندر کسی قسم کا کوئی احساس کمتری نہیں ہونا چاہیے۔ عدالت اعظمیٰ کے فیصلے کی رو سے اور آئین کے آرٹیکل ۲۵۱/ کے احکا مات کہ اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔ تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کر لیا جائے۔

وفاقی سطح پر مقابلہ کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال کے بارے میں حکومتی اداروں کی سفارشات پر عمل کیا جائے۔ عوامی مفادات کے عدالتی فیصلوں کا اُردو میں ترجمہ کرایا جائے۔عدالتی مقدمات میں سرکاری محکمے اپنے جوابات اُردو میں پیش کریں۔اگر کوئی سرکاری ادارہ آرٹیکل ۲۵۱/ کی خلاف ورزی کرے تو جس شہری کو بھی اس سے نقصان ہو یا ضرر پہنچے تو اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہے۔

ایک بات اچھی ہے کہ حکومت نے بھی احکامات جاری کئے ہیں جس سے ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس میں اُرود زبان خط وکتابت کا ذریعہ بن رہی ہے۔جہاں تک انگریزی زبان اہمیت کا تعلق تو اس سے انکار نہیں۔ تعلیمی اداروں میں اس کو مضمون کی حیثیت سے ضرورپڑھایا جائے ۔اس میں مہارت بھی حاصل کی جائے مگر پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ذریعہ تعلیم اُردو کو ہونا چاہیے ۔

دنیا بھر کے ماہر لسانیات،ماہرین نفسیات اور سائنس دان اس بات ہر متفق ہیں کہ بچہ اپنی مادری زبان اور ماحول میں بچپن سے سیکھی گئی زبان کے ذریعے بہترین طریقے سے تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔ حکومت نے اپنے حصہ کا کچھ کام کیا اور باقی کے لیے حکومت پر عوام کی طرف سے دباؤ ضرور ڈالنا چاہیے۔ اُردو کے نفاذ میں انگلش میڈیم اسکولوں کے حضرات اور بیروکریٹ مزاحمت کریں گے۔

پاکستان میں بیرونی امداد حاصل کر کے جبراً انگریزی کو رائج کرنے والے حکمران بھی عدالت اعظمیٰ کے فیصلے کو ٹال مٹول کرتے ہوئے نفاذ میں مداخلت کریں گے۔ اس تناظر میں عوام کو اپنے حصے کا کام جو تھوڑی سے مشقت سے کر سکتے ہیں کرنا چاہیے۔ مثلاً اُردو کے نفاذ کے جو اُن کے ذمہ کام بنتے ہیں وہ اُس پر عمل کرنا شروع کر دیں اور اپنے اپنے حلقوں میں اِسے مہم کے طور پر جاری کریں۔

عوام آپس میں مل کر تنظیمں بنا لیں کیونکہ اشتراک عمل سے کام آسان ہو جاتاہے۔دستخط انسان کی پہچان ہوتے ہیں ہمیں اپنے دستخط اُرود میں کرنے چاہییں۔ اپنی پہچان کے لیے بنائے جانے والے کارڈ (وزیٹنگ کارڈ) اُردومیں بنوائے جائیں۔چیک اُردو میں لکھنے چاہیں۔ایک عدالتی فیصلہ کے مطابق بنک ایسے چیک قبول کرنے کے پابند ہیں۔دعوت نامے اور شادی کارڈ بھی اُرود میں چھپانے چاہییں۔

موبائل فون سے ایس ایم ایس (پیغام)اُرود میں ہی کرنے چاہییں۔ہمیں اپنے کاروباری اداروں میں دفتری امور اُرود میں نمٹانے چاہییں۔ہمیں اپنے دکانوں اور دفاتر کے سائن بورٹ اُرود میں لکھوانے چاہییں۔ہمیں دن میں عام گفتگو کے دوران عدالت اعظمیٰ کے اُردو کے نفاذ کے فیصلے کو دوستوں میں موضوع بنانا چاہیے تاکہ ہرعام و خاص اُردو کے نفاذ کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائے ۔ پاکستان میں اُردو کے نفاذ کے لیے قائم اداروں اورعوام کے نمائندوں کو سیاسی جماعتوں کے سربراہوں ،ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اورسینیٹ کے ممبران سے ملاقاتیں کر نی چاہییں تاکہ حکومت پر بھی دباؤ بڑھتا رہے اور ملک میں اُردو ہی رائج ہو کیونکہ کہ اُردو ہماری قومی زبان ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :