سندھ حکومت کا تھر کے بچوں سے سوال

بدھ 13 جنوری 2016

Ammar Masood

عمار مسعود

تھر کے نوزائیدہ بچے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے خلاف صریحا سازش کر رہے ہیں۔ مرنا ہے تو چپ چاپ مر جائیں لیکن حکومت کوکمزور کرنے کی سازشیں نہ کریں ورنہ ہم اس سارے نظام کی، اپنی ہی عوام کی ،اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔یہ حکومت اسی ناشکری عوام کی فلاح کے منصبوں میں مصروف ہیں۔ ہمارا کئی دہائیوں سے یہ دعوی ہے کہ اس قومی خدمت میں نہ کوئی دقیقہ فروگزاشت رکھا جائے گا نہ کوئی رکاوٹ برداشت کی جائے گی۔

قحط ، بھوک ، ننگ ، افلاس اور جہالت تو پرانی باتیں ہیں ۔ ہم نئے زمانے کے لوگ ہیں ہم نئے مسائل کا حل دریافت کریں گے۔ ممبران اسمبلی کے ہوسٹل میں بیوٹی پارلر ہونا چاہیے۔ ایم پی اے ہوسٹل میں شاپنگ پلازہ بھی بننا چاہیے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کے حل پر حکومت سوچ سوچ کر ہلکان ہو گئی ہے۔

(جاری ہے)


عوام کو بھی ہمارے بارے میں سوچنا چاہیے کہ عوامی مسائل سن سن کر خواتین ممبران اسمبلی کے رنگ زرد ہو گئے ہیں۔

راتوں کو ان بدبختوں کی فلاح کے بارے میں سوچتے سوچتے آنکھوں کے نیچے حلقے پڑ گئے ہیں۔ جلد کی رعنائی ماند پڑ رہی ہے۔ چکتے دمکتے چہرے سیاہی مائل ہو گئے ہیں۔مرد اراکین اسمبلی کی فکر کی وجہ سے روز بہ روز آنکھیں مخمور ہوتی جارہی ہیں۔ عوامی خدمت کا نشہ ہے جو ہر وقت چڑھا رہتا ہے۔بات بات جو قہقے پھوٹتے اسمبلی کے فلور پر اپ کو نظر آتے ہیں یہ عوام کے غم کو چھپانے کا حیلہ ہے۔

یہ عظمت ہے ممبران اسمبلی کی کہ وہ کس بہادری، جرات اور شجاعت سے عوام کے غم کو جھیل رہے ہیں۔روتے ،بسورتے ،گندے ،غلیظ ، لڑتے اور مرتے لوگوں کی تصویریں تو اپ روز دیکھتے ہیں اپ ہماری خوشیاں تقسیم کرنے کی سکیم کے خلاف سازش نہ کریں۔اس صوبے کے ناشکرے عوام کو اندازہ ہی نہیں کہ ہم کیا کیا کشٹ کاٹ رہے ہیں ، ہم پر کیا گزر رہی ہے۔ یہ جو اسمبلی میں سیشن کے دوران جب بھوک اور افلاس کو مٹانے کو تحریک پیش ہوتی ہے تو ارکان اسمبلی اپنے اپنے موبائیل پر لطیفے ، دلچسپ و عجیب وڈیوز اور کارٹون دیکھ رہے ہوتے ہیں یہ بھی ترقی کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

جدید ٹکینالوجی کا عام ادمی کی بحالی استعمال کی اس کاوش پر بھی تنقید کی گئی۔ اس کے بھی ٹی وی چینل نے لطیفے بنا بنا کر خوب حظ اٹھایا۔ہماری نیک نیتی کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ اور تو اور اگر کوئی ممبر اسمبلی اپنی مخمور شبینہ مصروفیات کی بناء پر تکان سے اسمبلی میں چند لمحوں کے لیئے سو بھی گیا تو اس پر بھی عوام الناس کو اعتراض ہونے لگا۔

لوگ طعنے دینے لگے ۔ اخباروں میں سرخیاں لگنے لگیں ۔ چینلوں پر بریکنگ نیوز آنے لگی۔کسی نے نے دریافت کرنے کی ضرورت نہ سمجھی کہ کیا ناگزیر وجوہات تھیں جن کی وجہ سے نیند اسمبلی میں پوری کرنی پڑی۔ کن کن مرحلوں سے وزراء اور ممبران دشوار راتوں کو گزرتے ہیں ان کا بیان کیسے عوام کے سامنے لایا جائے۔راز کی بات کو سرعام کیسے بتایا جائے۔
یہ جو ہمارے وزیر اعلی ہیں انکے خلاف بھی سازشیں کم نہیں ہو رہیں۔

ایسی کون سی قیامت آگئی اگر وزیر اعلی نے صوبے میں گندے مندے عوام کی تعداد کبھی بیس لاکھ بتا اور کبھی ایک ہی ہلے میں اس تعداد کو بیس کڑوڑ تک پہنچا دیا۔ایسے ناکارہ لوگ دس لاکھ ہوں یا بیس کڑور فرق ہی کیا پڑتا ہے۔کون سا پہاڑ گر گیا اگر وزیر اعلی یونیورسٹی میں ہونہار طلباء کو ڈگریاں دیتے کچھ لڑکھڑا گئے۔ کون سے مصیبت ٹوٹ پڑی اگر وزیر اعلی نے دس دن بعد پانی کی قلت سے مرنے والوں کی تیمار داری کر لی۔

ایسا کون سا گناہ کر دیا کہ اگر وزیر اعلی کی بجٹ سیشن میں کچھ دیر کو آنکھ لگ گئی۔ ایسا کون سا گناہ ہو گیا کہ اگر وزیر اعلی سہ پہر کے وقت بیدار ہوتے ہیں اور اس دوران ہونے والے تمام واقعات سے پوری انتظامیہ بے خبر رہتی ہے۔کار حکومت میں مشکل مقام آتے ہیں۔ یہ بچوں کا کھیل نہیں۔ اس میں انسان تھک بھی جاتا ہے ، نیند بھی آ جاتی ہے، قدم ڈول بھی جاتے ہیں، زبان لرکھڑا بھی جاتی ہے ۔

ان سب باتوں میں اسمبلی کو نہ الجھائیں انہیں کام کرنے دیں ۔ سند ھ کے عوام کے لیئے۔ جمہوریت کے نام کے لیئے۔
ہماری حکومتوں کے خلاف بین القوامی سازشیں تو جانے کب سے ہو رہی ہیں۔وفاق بھی ہمارا حق مار رہا ہے۔ اپوزیشن بھی دھونس اور دھمکیوں پر اتر آئی ہے۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا اب تو دس ماہ کی بچی بسمہ تک نے ہمارے خلاف محاذ کھو ل دیا ہے۔

آپ خود سمجھدار لوگ ہیں ۔ بیماری سے بچے مر تے ہی رہتے ہیں۔ علاج میں بھی دیر سویر بھی ہو جاتی ہے۔ ایمبولینس پولیس کے ناکے میں پھنس بھی سکتی ہے۔رکشے میں ولادت بھی ہو سکتی ہے۔چھوٹے سائیں کی زندگی کی حفاظت ہم سب کا فرض اولین ہے۔ وہ نہ رہے تو ہم نہیں رہیں گے اور ہم نہ رہے تو اسمبلی میں بیوٹی پارلر کیسے کھلے گا؟ اس ایوان کے باہر شاپنگ پلازے کی تعمیر کیسے ہو گی؟ان سب ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے کا دماغ کس کے پاس ہو گا؟
تھر کے چھوٹے چھوٹے بچو ۔

ہمارا پیغام بھی سن لو۔ ہم تمہارے گیدڑ بھبکیوں میں آنے والے نہیں۔ ہمارامقصد تمہاری بے فائدہ زندگیوں سے بہت عظیم ہے۔تم ہماری عوامی حکومت کے خلاف سازشیں بند کر دو۔ موت برحق ہے۔ ایک دن معین ہے۔چپ چاپ رضائے الہی کو قبول کر لو۔خاموشی سے مر جاو۔ بھوک سے موت ائے یا پیاس سے۔ غربت وجہ ہو یا جہالت۔ ظلم کی داستان زندگی ختم کرے یا کہانی افلاس کی ہو۔ ہمارے کاموں میں مخل نہ ہو۔ ہم پہلے ہی پر یشان ہیں۔ سازشوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہمارے خلاف نیا محاز نہ کھڑا کرو۔ورنہ دانہ پانی تو ہم نے لے ہی لیا اب ہم سانسوں پر ٹیکس لگا دیں گے۔اسمبلی میں ایک اور بیوٹی پارلر بنا دیں گے، سب سے پہلے تمہاری اینٹ سے اہنٹ بجا دیں گے۔ تم کو بھٹو کے نام کی اور سزا دیں گے۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :