کشمیر…پھر اُٹھنے لگی ہیں بندوقیں!

جمعہ 8 جنوری 2016

Sareer Khalid

صریر خالد

اس وقت جب وزیرِ اعظم نریندرا مودی اور میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں ہندوپاک نے اپنے تعلقات کو نئے سرے سے اُستوار کرنے کی کوششوں کے ذرئعہ گویا قیامِ امن کی اُمیدیں باندھنا شروع کی ہیں جموں کشمیر میں نوجوانوں کے سرِ نو جنگجوئیت کی طرف راغب ہونے کے رجحان میں اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔23/دسمبرکو راجیہ سبھا میں وزارتِ داخلہ نے جموں کشمیر میں جنگجوئیت کی صورتحال کا جو نقشہ پیش کیا ہے وہ نہ صرف سکیورٹی سے وابستہ اداروں بلکہ ہندوستان کے پالیسی سازوں کے لئے بھی باعثِ تشویش قرار پاتا ہے اور اُنہیں دکھاوے کے اقدامات سے آگے سنجیدہ اور نتیجہ خیز اقدامات پر اُبھارتا ہے۔

راجیہ سبھا کو بتایا گیا ہے کہ جموں کشمیر میں نوجوانوں کے جنگجوئیت کی جانب راغب ہونے کے رجحان میں متواتر اضافہ ہورہا ہے اور گذشتہ سال کے مقابلے میں امسال 30/فی صد زیادہ نوجوان بندوق اُٹھاکر جنگجو ہوگئے ہیں۔

(جاری ہے)


گذشتہ منگل کو راجیہ سبھا میں جموں کشمیر میں جنگجوئیت کی صورتحال کے بارے میں بتایا گیا تو پورا ایوان گویا تشویش میں مبتلا ہوگیا کہ ریاست کی ایک ایسی تصویر پیش ہورہی تھی کہ جسکا ہوسکتا ہے سکیورٹی اداروں کو ادراک ہو لیکن قانون سازوں اور عام لوگوں کی اکثریت کو اندازہ بھی نہ تھا۔

وزارتِ داخلہ نے ایوان کو بتایا کہ ریاست میں جنگجوئیت کی جانب نوجوانوں کے میلان کے رجحان میں متواتر اضافہ ہوتا جارہا ہے یہاں تک کہ رواں سال کے دوران پونے سو سے زیادہ نوجوان جنگجو بن گئے ہیں اور یہ تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں 30/فی صد زیادہ ہے۔ بی جے پی کے ممبرلعل سن ودودیا کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے تحریری جواب میں امورِ داخلہ کے مرکزی وزیر مملکت ہری بھائی پراٹھی بھائی چوہدری نے وضاحتاََ کہا کہ نہ صرف جموں کشمیر میں نوجوانوں کا جنگجوئیت کی جانب مائل ہونا جاری ہے بلکہ اس میں اضافہ ہورہا ہے۔

اُنہوں نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ رواں سال کے دوران30/نومبر تک79/کشمیری نوجوان مختلف جنگجوتنظیموں میں شامل ہوگئے اور یہ تعداد گزشتہ برس اس عرصے کے مقابلے میں30/فیصد زیادہ ہے۔وزیر ِمملکت نے ایوان کو بتایا کہ سال2014میں نومبر کے آخر تک60/کشمیری نوجوان جنگجووٴں کی صفوں میں شامل ہوئے تھے۔اُنہوں نے کہا کہ جموں کشمیر میں ملی ٹینسی کی سرگرمیوں پر متواتر اور کڑی نگاہ رکھی جارہی ہے اور اس کا وقتاً فوقتاً مختلف سطحوں پر جائزہ لیا جاتا ہے۔


حالانکہ ”کشمیر کی آزادی“کے لئے سرگرم جنگجووٴں نے کبھی بھی اعلانیہ طور ہار مان کر ہتھیار ڈالنے کا کوئی اجتماعی اعلان تو نہیں کیا تاہم سکیورٹی فورسز کا ماننا تھا کہ گذشتہ کئی برسوں کے دوران جنگجووٴں کو دفاعی پوزیشنوں پر دھکیلتے دھکیلتے اتنا پیچھے کر دیا گیاتھا کہ وہ غیر محسوس انداز میں نابود ہو کے رہ گئے تھے۔سکیورٹی ایجنسیوں نے کہیں اشارتاََ اور کہیں وضاحتاََ یہ بات پختہ کرنے کی کوششیں کیں کہ جموں و کشمیر میں کسی بھی جنگجو تنظیم میں اب اتنی سکت ہی باقی نہیں رہ پائی ہے کہ اس سے خوف کھانے کی ضرورت محسوس ہو۔

چناچہ زمینی صورتحال بھی بڑی حد تک اس اندازے کو درست ٹھہراتی دکھائی دے رہی تھی لیکن اب صورتحال مختلف ہے اور گھڑی کی سوئیاں واپس مڑتے ہوئے محسوس ہو رہی ہیں جسکے ثبوت میں راجیہ سبھا کو دکھائے گئے اعدادوشمار کو دیکھا جاسکتا ہے۔
ابھی صورتحال یہ ہے کہ عام لوگوں سے لیکر پولس اور فوج تک اور خفیہ ایجنسیوں سے لیکر مین اسٹریم کی سیاسی جماعتوں تک سبھی حلقوں میں ریاست میں شروع ہورہے ”جنگجوئیت کے نئے دور“کی باتیں ہو رہی ہیں اور تعلیم یافتہ اور تیز دماغ لڑکوں کے ہتھیار اُٹھانے کے حوالے سے مختلف قسم کی تاویلات کی جا رہی ہیں۔

جیسا کہ ایک پولس افسر کا کہنا ہے”صورتحال قابو سے باہر تو نہیں ہے لیکن ہاں،مٹھی بھر ان جنگجووٴں نے اپنی موجودگی کا احساس بھی کرایا ہے اور ایک خاموش خطرے کی گھنٹی بھی بجائی ہے“۔وہ کہتے ہیں”تشویش کی بات تو یہ ہے کہ جنگجوئیت میں کئی طرح کی سوچی سمجھی تبدیلیاں ہو رہی ہیں جن میں سے سب سے تشویش اس بات پر ہے کہ اب ایک بار پھر مقامی جنگجووٴں نے کمان سنبھالی ہے جبکہ غیر ملکی جنگجووٴں کو سلیقے سے کنارے لگایا جا رہا ہے“۔

اُنکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر مذکورہ پولس افسر نے بتایا”یہ اس وجہ سے تشویش کی بات ہے کہ مقامی جنگجو اگر مارا جائے یا گرفتار ہوجائے تو اسکے لئے فطری طور ہمدردی کی ایک لہر اُٹھتی ہے پھر مقامی جنگجووٴں کے لئے بالائے زمین کارکن بنانا یا لوگوں کو اپنی مدد پر آمادہ کرنا بھی مقابلتاََ آسان ہوتا ہے،یعنی ایک مقامی جنگجو اکیلا نہیں ہوتا ہے بلکہ ا ن کے پیچھے ایک مظبوط نیٹورک ہوتا ہے جو غیر ملکی جنگجووٴں کے لئے اتنا آسان نہیں ہو تا ہے۔

اُنکا کہنا ہے کہ پڑھے لکھے مقامی نوجوان بندوق اُٹھاتے ہیں تو اُن سے دیگر نوجوان بھی متاثر ہوتے ہیں اور یہ ایک دائرہ بن جاتا ہے۔
جنگجووٴں کی نئی صف بندی کے انداز کا جائزہ لینے پر چیزیں واقعی کچھ الگ اور مختلف معلوم ہوتی ہیں۔مثال کے بطور یہ کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر بندوق اُٹھانے والوں میں اکثریت خاصے پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانوں کے بچوں کی ہے جن کے لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ بے روزگاری سے تنگ آکر تشدد کے راستے جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

جیسے کہ جنوبی کشمیر کے ترال علاقہ کے 19سال کے اسحاق جو سائنس کی تعلیم میں اس قدر زیرک تھے کہ علاقے میں لوگ اُنہیں مشہور سائنسداں نیوٹن کا نام دے چکے تھے۔اُنکے ایک دوست کہتے ہیں”وہ پڑھائی میں اتنے تیز تھے کہ ہم نے اُنہیں نیوٹن بلانا شروع کیا تھا اور اب تو اُنہیں سب ہی نیوٹن کے نام سے پہچاننے لگے تھے“۔اسحاق نے دسویں جماعت میں قریب99فی صد نمبرات حاصل کئے تھے اوربارہویں میں 85۔

شریف الطبع،مہذب،فرمانبردار اور دیگر سبھی اوصافِ حمیدہ سے پُر،جیسا کہ اُنکی والدہ رحتی بیگم اپنے بچے کا تعارف دیتی ہیں،اسحاق میڈیکل انٹرنس کے لئے تیاری کر رہے تھے کہ اُنہیں ڈاکٹر بننا تھا لیکن اُنہوں نے سفید اپرن بہن کر انسانی جسم کے علاج و معالجہ کا سامان تھامنے کی بجائے مسئلہ کشمیر کے سیاسی مسئلہ کے لئے بندوق اُٹھا کر گویا اپنے سر پر کفن باندھ لیا۔

اُنکی والدہ کہتی ہیں”وہ ایک بہترین بچہ ہے ،کبھی مٹرگشتی کرتا تھا اور نہ ہی ایسا بگڑا ہوا تھا کہ پیسے مانگ کر اُڑاتا پھرے،پہلی اور آکری بار اُس نے والد سے کمپیوٹر ٹریننگ کے لئے فیس کے بطور ایک ہزار روپے مانگے اور پھر کبھی گھر نہیں لوٹا“۔یہ واقعہ اپریل کا ہے جسکے بعد پولس نے اسحاق کے گھر اسحاق کے جنگججوٴں کے ساتھ شامل ہونے کی اطلاع کی۔

پولس کا کہنا ہے کہ اسحاق جنگجووٴں کی صفوں میں اضافہ کرنے والے اکیلے نہیں ہیں بلکہ وہ اُن 33نوجوانوں میں شامل ہی کہ جنہوں نے گذشتہ6ماہ کے دوران اپنے لئے موت کی گھاٹی میں ختم ہونے والا راستہ چُن لیا ہے۔
نیوٹن اکیلے نہیں ہیں کہ جنہوں نے ایک اچھی زندگی کے خواب ادھورے چھوڑ کر اپنے لئے ایک مشکل زندگی کا انتخاب کیا اور ہزاروں فوجیوں کو جنگل جنگل خاک چھاننے میں مصروف کر دیا ہے جو نیوٹن اور اُنکے ساتھیوں کو مار گرانے کے لئے موقعے کی تلاش میں ہیں۔

نیوٹن کے لری بل گاوٴں کے پاس میں ہی نورپورہ گاوٴں کے ذاکر رشید نیوٹن سے قریب دو سال قبل اسی طرح اپنے کیرئر کو چھوڑ کر خطروں کے کھلاڑی بن گئے ہیں۔ذاکر کے انجینئر والد عبدالرشید بٹ کے مطابق ذاکر چندی گڈھ کے ایک کالج میں انجینئرنگ کی تعلیم پارہے تھے کہ 2013میں گھر لوٹے اور پھر اچانک غائب ہوکر جنگجو بن گئے۔بٹ کہتے ہیں”اُس نے میرے نام ایک خط چھوڑا تھا جس میں ریاست کے حالات اور ریاست سے باہر کشمیریوں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کے بارے میں لکھا ہوا تھا،اُس نے لکھا تھا کہ جہاد ہی واحد راستہ ہے“۔

بٹ،جنکے ایک اور بیٹے ڈاکٹر اور بیٹی ایک نامی بنک کی ایکزیکٹیو ہے،کہتے ہیں کہ گھر سے جانے کے بعد سے ذاکر اپنے دادا کے انتقال کے موقعہ پر فقط ایک بار گھر آئے تھے اور کچھ لمحے روتے رہنے کے بعد واپس چلے گئے جسکے فوری بعد فوج نے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔بٹ کہتے ہیں”وہ(ذاکر)جو کبھی دن میں کئی سو روپے کے چاکلیٹ اور آئس کریم اور نہ جانے کیا کیا کھاتا رہتا تھا اب ایک بدلا بدلا سا انسان لگ رہا تھا جب گھر سے گیا تھا تب روز شیو کرتا تھا جبکہ آج دیکھا تو چہرے پر گھنی داڑھی تھی“۔


یہی نہیں بلکہ پولس کے مطابق جو درجنوں دیگر لڑکے جنگجو بن کر سرکاری اداروں کی نیند اُرا چکے ہیں اُن میں سے بیشتر کے کوائف اور حالاتِ زندگی ایک جیسے ہیں اور خاص بات یہ کہ اُن میں سے کوئی کسی غریب گھر کا لڑکا نہیں ہے۔ریاست میں ملی ٹینسی کے موجودہ چہرہ اور نئے سبھی لڑکوں کو شامل کرنے کے لئے ذمہ دار بتائے جارہے 21سال کے بُرہان مظفر کی کہانی اپنے ساتھیوں سے مختلف نہیں ہے۔

ترال قصبہ کے ہی رہنے والے خوبرو بُرہان کے والد ایک کالج کے پرنسپل ہیں جبکہ اُنکی والدہ بھی پوسٹ گریجویٹ ہیں۔بُرہان،جنکے بڑے بھائی خالد مظفر کو رواں سال کی ابتداء میں فوج نے مبینہ طور تشدد کر کے مارڈالا تھا،تب دسویں جماعت مین تھے کہ جب وہ اپنے بھائی خالد کے ساتھ نئی موٹر سائیکل پر قصبے کے چکر لگا رہے تھے کہ سرکاری فورسز کی ایک ٹکڑی نے اُنہیں روک کر پہلے اُن سے سگریٹ منگوائے اور پھر اُنکی شدید مار پیٹ کی۔

ذرائع کے مطابق بُرہان کے بھائی کی حالت خراب ہوگئی تاہم بُرہان خود فرار ہونے میں کامیاب رہے اور دور تک فورسز اہلکاروں کو یہ سُناتے ہوئے بھاگے کہ اب اُنہیں نہیں چھوڑے گا بلکہ بدلہ ضرور لے گا۔اُنکے ایک رشتہ دار کہتے ہیں”اسکے چھ ماہ بعد ہی وہ غائب ہو گیا اور پھر پتہ چلا کہ وہ جنگجو بن گیا ہے“۔ایک سینئر پولس افسر کا کہنا ہے”بُرہان موجودہ ملی ٹینسی کا چہرہ ہے،یہ لڑکا چھوٹا ہونے کے باوجود بھی بہت زیرک ہے اس نے اپنے ارد گرد ایک پوری فوج کھڑا کی ہے اور اپنی حکمتِ عملی کچھ یوں بنائی ہے کہ گولی چلائے بغیر بھی اپنی موجودگی کا احساس کرا رہا ہے“۔


ریاست میں ملی ٹینسی شروع ہونے پر صورتحال یوں ہو گئی تھی کہ ہر دوسرا شخص ہاتھ میں بندوق تھامے جنگجو تھا اور عوامی سطح پر جنگجووٴں کی آوٴ بھگت کا عالم یہ تھا کہ بیان کیا جائے تو الف لیلوی داستان معلوم ہوگی۔بعدازاں منظر بدل گیا،سرکاری فورسز کی گرفت مظبوط ہوگئی اور جنگجووٴں کی تعداد میں متواتر کمی ہونے لگی۔رواں دہائی کی ابتداء تک حالت یہ تھی کہ مقامی جنگجو یا تو مارے جا چکے تھے یا پھر ہتھیار ڈال چکے تھے یہاں تک کہ جنگجوئیت کی پوری کمان غیر ملکی جنگجووٴں کے ہاتھ آ چکی تھی۔

کشمیر یونیورسٹی کے ایک ماہر کا کہنا ہے”اس صورتحال کا سرکار کو ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ مسلح تحریک کو پاکستان کی ایماء پر جاری دہشت گردی بتانا ممکن ہو گیا“۔مذکورہ ماہر کہتے ہیں”اگر ان حالات میں کشمیریوں کو امن کے راستوں پر مصروف کیا گیا ہوتا تو شائد صورتحال مختلف ہوتی لیکن سرکاری سطح پر ایسی کوئی ٹھوس کوشش ہوتے نہ دکھی جسکے نتیجے میں آج ملی ٹینسی ایک نئی شکل میں سامنے آگئی ہے“۔


گو کہ جنگجووٴں کی تعداد ابھی بھی ایسی نہیں ہے کہ جس سے ڈرا جائے لیکن جیسا کہ خود فوج اور پولس کہتی ہے کہ جنگجووٴں کی بدلی ہوئی حکمتِ عملی اور اُنکا اندازپریشان کُن ہے۔چناچہ حزب المجاہدین کے مذکورہ بُرہان گروپ نے گذشتہ دنوں تب سرینگر سے لیکر دور دُنیا تک سُرخیاں بٹوریں کہ جب اس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر اپنی تصاویر عام کردیں اور پھر ویڈیو بھی۔

یہ پہلی بار تھا کہ کشمیری جنگجو،جو ابھی تک اپنی شناخت کو حتی الامکان چھپانے کی کوشش کرتے رہے ہیں،یوں اپنی تصاویر اور ویڈیو عام کرنے لگے۔سکیورٹی سے وابستہ ماہرین کا ماننا ہے کہ فوجی وردی میں انتہائی جوشیلے انداز میں لی جا چکیں یہ تصاویر در اصل مزید نوجوانوں کو بندوق کی جانب راغب کرنے کے مقصد سے شائع کی گئی ہیں۔ماہرین کا ماننا ہے کہ جنگجووٴں میں بعض لڑکے اطلاعاتی تیکنالوجی کے ماہر ہوسکتے ہیں جسکی وجہ سے وہ انٹرنیٹ کا استعمال بھی کرتے ہیں مگر پکڑے بھی نہیں جاتے۔

کشمیر یونیورسٹی کے مذکورہ بالا ماہر کا کہنا ہے”ان تصاویر سے جنگجووٴں نے مورال بوسٹنگ کا کام تو کیا ہی ہے دوسرا دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جموں کشمیر میں اور نہیں بلکہ خود اپنے بچے آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں۔یہ ایک چالاکی کا کام ہے کہ جس سے ان لڑکوں نے ایک ساتھ کئی نتائج پانے کی کسی حد تک کامیاب کوشش کی ہے“۔وہ کہتے ہیں”اب تو یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ موجودہ جنگجوئیت کے لئے بے روزگاری کوئی وجہ نہیں ہے جیسا کہ ہم نے ایک وزیر کے باڈی گارڈ کو بھاگ کر بُرہان گروپ کے ساتھ شامل ہوتے دیکھا ہے“۔

واضح رہے کہ سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں پر شائع ہوئے جنگجووٴں کے ایک گروپ فوٹو میں نصیر احمد پنڈت نامی اُس پولس اہلکار کو بھی دیکھا گیا کہ جو ریاستی وزیرِ تعمیرات الطاف بکاری کے گھر کی حفاظت پر مامور تھے لیکن وہ دو سرکاری بندوقیں لئے فرار ہوگئے جسکے بعد حزب المجاہدین نے مذکورہ کے تنظیم میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا۔
سکیورٹی سے وابستہ اداروں کو لاحق کئی پریشانیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ پڑھے لکھے یہ تازہ جنگجو اپنا انجام جاننے کے باوجود بھی بڑے سے بڑا خطرہ مول لینے پر آمادہ ہیں۔

یاد رہے کہ سرحدوں پر چوکسی کی وجہ سے جنگجووٴں کو ہتھیاروں کو قلت در پیش بتائی جارہی ہے تاہم جنوبی کشمیر میں گذشتہ سال کے دوران پولس اور دیگر سرکاری فورسز سے ہتھیار چھینے جانے کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں جن سے ان لڑکوں کی جُرأت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔پولس کا کہنا ہے کہ 33نوجوانوں کے تازہ اضافہ سے وادی میں سرگرم کُل جنگجووٴں کی تعداد142تک پہنچ چکی ہے جس میں 54غیر ملکی،بیشتر پاکستانی، جنگجو بھی شامل ہیں پولس کا کہنا ہے کہ اسکے لئے غیر ملکیوں کے مقابلیمیں مقامی88جنگجو فکر مندی کا باعث ہیں ۔

ایس ایس پی رینک کے کئی افسروں سے لیکر ریاستی پولس کے چیف کے راجندرا کمار اور خفیہ ایجنسیوں کے افسروں سے لیکر فوجی چیف تک کئی شخصیات آن ریکارڈ کہہ چکی ہیں کہ وہ مقامی جنگجووٴں کی تعداد بڑھنے سے اسلئے بھی پریشان ہیں کہ وہ ریاست کے حالات و واقعات اور یہاں کے جغرافیہ سے واقف ہیں اور انکے لئے سرگرم رہنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔سرکاری اداروں کا یہ اندازہ حالیہ ایام میں تب درست قرار پایا کہ جب جنوبی کشمیر کے پلوامہ،شوپیاں اور کولگام اضلاع میں کئی بار فائرنگ کرنے کے بعد جنگجووٴں کے لئے بچ نکلنا ممکن ہوگیا۔


دُنیا روز ترقی کر رہی ہے،غریب سے غریب علاقہ میں بھی پیسے کی فراوانی ہے اور اطلاعاتی تیکنالوجی نے نوجوانوں کو نئے خواب دکھائے ہیں جنہیں پانے کے لئے وہ دن رات ایک کئے ہوئے ہیں لیکن اس سب کے باوجود بھی نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ موت کی گھاٹیوں کا راہی کیوں ہوجاتا ہے،یہ بات تشویش اور فکر مندی کا اصل باعث ٹھہرے تو شائد کسی نتیجے پر پہنچنا ممکن ہو جائے۔

لیکن جیسا سرکاری اداروں کے بیانات سے واضح ہوتا ہے وہ تشویش میں تو ہیں لیکن اس بات کے لئے کہ مقامی جنگجو زیادہ موثر طریقے سے سرگرم رہ سکتے ہیں نہ کہ اسلئے کہ یہ لڑکے بندوق اُٹھانے پر آمادہ ہی کیوں ہوتے ہیں؟۔جیسا کہ راجیہ سبھا میں زیرِ تبصرہ اعدادوشمار پیش کرنے کے ساتھ وزیرِ موصوف کے متعارف کردہ ”تدارکی اقدامات“سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ سبھی اقدامات Cosmeticہیں اور پیسے کے اردگرد گھومتے ہیں۔

حالانکہ سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ کا یہ بیان تازہ ہے،جو اُنہوں نے مودی کی جانب سے ریاست کے لئے دئے گئے اقتصادی پیکیج کے ردِ عمل میں دیا تھا،کہ حکومتِ ہند ایک بار پھر کشمیر مسئلہ کو پیسے سے حل کرنے کی غلطی پر ہے۔
چناچہ وزیرِ موصوف کے بتائے گئے اقدامات میں کچھ نیا نہیں ہے بلکہ یہ سب ریاست میں جنگجوئیت شروع ہونے کے ساتھ ہی شروع ہوا تھا لیکن جیسا کہ راجیہ سبھا میں پیش کی گئی تصویر سے واضح ہے کہ ان اقدامات سے جنگجوئیت کو روکنا تو دور اس میں متواتر ہورہے اضافے کو قابو کرنا تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

کیا اربابِ اقتدار اپنی پالیسیوں میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے راجیہ سبھا کے اگلے اجلاس میں یہ دعویٰ کر سکیں گے کہ جموں کشمیر میں جنگجوئیت کا گراف تیزی کے ساتھ پستی کی جانب لڑھکنے لگا ہے اور ریاست کے نوجوان موت کے راستے کی جانب میلان کھو رہے ہیں…یہ ایک دلچسپ اور اہم مشاہدہ ہوگا۔(بشکریہ عالمی سہارا،دلی)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :