زلزلے کیوں آتے ہیں ؟

اتوار 27 دسمبر 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

بیٹے کا نام مدین تھا اور یہ بیٹا 2000قبل مسیح ہجرت کے کر بحیرہ قلزم کے مشرقی کنار ے پر آ کر آباد ہو گیا تھا ، اس جگہ کو رقیم کہا جاتا تھا جو شام اور خلیج عقبہ کے درمیان واقع تھی ۔ اس کے ایک طرف حجاز کا وہ علاقہ تھا جس میں مکہ اور مدینہ جیسے مقدس شہر واقع تھے اور دوسری طرف بحیرہ مردار تھا ۔ حجاز سے شام ، فلسطین اور مصر جانے والے تجارتے قافلے اسی راستے سے گزرتے تھے ۔

یہ بڑا زرخیز علاقہ تھا ، آب و ہوا معتدل تھی ، پانی کی فراوانی تھی ، پھلوں اور پھولوں کے باغات تھے اور زمین سونا اگلتی تھی ، ہر طرح خوشحالی تھی ، یہاں سے گزرنے والے تجارتی قافلے اس علاقے کی شادابی کو دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے ۔ وسائل کی بہتات تھی ، خشک پھلوں اور میووٴں کے باغا ت تھے ، غلے کی فراوانی تھی اور تجارتی شاہراہ پر واقع ہونے کی وجہ سے وسائل خود ان کے پاس چل کر آتے تھے ۔

(جاری ہے)

آب و ہوا کی پاکیزگی اور وسائل کی کثرت نے اس خطے کو رشک گلزار بنایا ہوا تھا ۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ ان کی عادتیں بگڑنے لگیں ، حرص وہوس نے ڈیرے ڈال لیے، کام چوری عادت بن گئی ، دھونس دھاندلی پیشہ بن گیا اور ناپ تول میں کمی ان کی پہچان بن گئی ۔ یہ لوگ یہاں سے گزرنے والے قافلوں کے ساتھ ناپ تول میں کمی کر نے لگے ، اپنا حق پورا لیتے اور جب دینے کی باری آتی تو ڈنڈی ما ر جاتے ، انہوں نے الگ الگ ترازو بنا رکھے تھے ،اب یہ سود اور بٹے کا کاروبار بھی کرنے لگے ، انہوں نے وہاں سے گزرنے والے قافلوں پر ٹیکس بھی نافذ کر نا شروع کر دیا ، جو بھی قافلے ان کے علاقے سے گزرتا یہ اس سے جگہ ٹیکس وصول کرتے اور نہ دینے والے قافلوں کا سامان لوٹ لیتے ، انسانی تاریخ میں سب سے پہلے اسی قوم نے ٹیکس نافذ کیا تھا۔


تقدیر کسی قوم یا فرد کے ساتھ ذیادتی نہیں کرتی ، وہ اسے سمجھانے اور راہ راست پر لانے کے لیے ہر حد تک جاتی ہے اور اس کی ہدایت کا اہتمام کرتی ہے ، اس قوم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ، اللہ کی طرف سے حضرت شعیب  ان کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے ، حضرت شعیب  نے انہیں بتوں کی پوجا سے روکا،ایک اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی اورانہیں ناپ تول میں کمی سے منع کیا ۔

حضرت شعیب  کا لقب ”خطیب الانبیاء “ تھا انہوں نے اہل مدین کو سمجھانے کے لیئے بہترین خطبے دیے اور انہیں راہ راست پر لانے کے لیے پورازور صر ف کیا لیکن سوائے چند مسلمانوں کے کسی نے ان کی دعوت کی طرف توجہ نہیں دی ۔ الٹا یہ لوگ راستوں میں بیٹھ جاتے اور جو شخص حضرت شعیب  سے ملنے کی کوشش کرتا اسے منع کرتے ۔ ایک دن سب اکٹھے ہو کر حضرت شعیب  کے پا س آئے اور کہنے لگے ” آپ کے پاس صرف دو راستے ہیں ، آپ اپنے ساتھیوں کو لے کر یہاں سے نکل جائیں یا ہمارے دین میں داخل ہو جائیں تیسری صورت میں ہم آپ کو سنگسار کر دیں گے “ جب سرکشی حد سے بڑھ گئی تو اللہ کا امر ان کی طرف متوجہ ہوا ، حجت تام ہو چکی تھی ،اہل مدین پر اللہ کا عذاب نازل ہونے والاتھا ۔

ایک دن جب یہ لوگ اپنے گھروں میں آرام کر رہے تھے اللہ کا امر آ پہنچا تھا ، زمین لرزاٹھی تھی اور ہر طرف زلزلہ برپا ہو چکا تھا، ابھی یہ لوگ زلزلے کی وحشت اور ہولناکی سے سنبھل نہیں پائے تھے کہ زور سے بادل کڑکے ، بجلی چمکی اور پوری بستی پر آ گری ،اگلی صبح یہ لوگ اپنے گھروں میں جھلسے ہوئے اوندھے منہ پڑے تھے اور ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا تھا۔


مدین حضرت ابراہیم  کی تیسری بیوی قطورا کے بیٹے کا نام تھا جو دو ہزار قبل مسیح بحیرہ قلزم کے مشرقی کنارے پر آ کر آباد ہو گئے تھے اور انہی کی طرف نسبت کرتے ہوئے انہیں اہل مدین کہا جاتا تھا ۔ اہل مدین کی جس برائی کو قرآن میں بار بار واضح کیا گیا ہے وہ ان کی ناپ تول میں کمی تھی ، صرف ناپ تول میں کمی اور چند دوسری برائیوں کی وجہ سے اللہ کی پکڑ نے انہیں آ لیا تھا ، پہلے جتنی بھی امتوں پر عذاب نازل ہوا ان کی کسی ایک برائی کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج وہ کون سی برائی ہے جو ہم میں نہیں پائی جاتی۔

ہم نے حدود اللہ کو پامال کیا ، ہم نے حدود آرڈیننس پاس کر وائے،ہمارے حکمران وعدہ کر کے کہتے ہیں وعدہ کو ئی قرآن وحدیث تو نہیں ہوتا ، آپ مجھے دکھا دیں بازار میں بکنے والی وہ کون سی چیز ہے جو خالص ہے یا جس میں ہم ملاوٹ نہیں کرتے ، آپ صرف چائے کی پتی اور سرخ مرچ کو دیکھ لیں آپ کو پورے پاکستان میں کہیں بھی یہ چیزیں خالص نہیں ملیں گی ،آپ بازار سے کپڑا خریدیں دو نمبر کپڑا آپ کو اصلی بتا کر دیا جائے گا اور ساتھ آٹھ دس قسمیں بھی کھائی جائیں گی ،آپ کوئی پھل خریدلیں آدھے سے زائد پھل کھانے کے قابل نہیں گے ، آپ بازار سے سرخ مرچ لیں آپ کو پاوٴڈر دے دیا جائے گا ، آپ ایک کلو چاول خریدیں اس میں بھی آپ کو ملاوٹ نظر آئے گی ۔

جہاں دودھ کے نام پر پانی بکتاہو ،ہوٹلوں پر باسی کھانا تازہ کہہ کر کھلا دیا جاتا ہو ، دوائیوں کے نام پر زہر بکتا ہو ، وکیل لفافے کا حجم دیکھ کر کیس پکڑے ، پٹواری چوہدری اور وڈیرے کا نوکر ہو ، ڈاکٹر جعلی دوائیاں دیتے ہوں ، یونیورسٹیاں جعلی ڈگریاں جاری کریں ، علماء کا مذاق اڑایا جائے ، اہل علم کا قتل ہو ، جہاں منشیات سر عام بکتی ہوں ، جہاں انٹر نیٹ کے نام پر فحاشی اور گندگی کا کارو بار کیا جائے ، جہاں میڈیا بے لگا ہو ، جہاں صبح صبح ماننگ شوز کے نام پر ڈانس پارٹیاں منعقد ہوں ، جہاں بیٹیوں کی عزتیں نیلا م ہوں ، جہاں ماں اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کا خون کرے ، جہاں امیروں کے پرو ٹو کول غریبوں کی بیٹیوں کو نگل جائے ، جہاں انصاف بکتا ہو ، جہاں اولاد ڈانٹ کر والدین کو خاموش کر وا دے ، جہاں قصور جیسے سانحے رونما ہوتے ہوں ، جہاں چو ہدریوں اور وڈیروں کے ڈیروں پر عزتیں نیلام ہوتی ہوں اور جہاں بیٹی ماں کو یہ کہے کہ ”اپنا منہ بند کر “ وہاں عذاب نہیں آئے گا تو کیا ہو گا ، وہاں زلزلے نہیں آئیں گے تو اور کیا ہو گا ۔

جہاں یہ سب برائیاں پائی جاتی ہو ں وہاں زمین نہ کانپے ایسا کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ مخبر صادق نے 1437سال پہلے بتا دیا تھا کہ قرب قیامت زلزلے کثرت سے آئیں گے ۔ ایک لمبی حدیث میں مخبر صادق نے قرب قیامت کی نشانیوں کو کچھ اس طرح وا ضح فر مایا تھا ” جب امانت کو مال غنیمت سمجھ لیا جائے ، زکوة ٹیکس سمجھی جائے ، دین کا علم دنیاوی مال و جاہ کے لیئے حاصل کیا جائے ، مرد بیوی کا فرمانبردار اور ماں کا نافرمان بن جائے ، انسان اپنے دوست کے قریب اور والدین سے دور ہو جائے، مسجدوں میں آوازیں بلند ہونے لگیں ،قبیلے کی قیادت فاسق و فاجر آدمی کے ہاتھ میں ہو ، قوم کا سردار ذلیل ترین آدمی ہو ، لوگوں کی عزت ان کے شر سے بچنے کے لیئے کی جائے ، عورتوں کی کثرت ہو ، لہو لعب اور گانا بجانا عام ہو جائے ، شراب عام ہو اور میری امت کے پچھلے لوگ پہلوں کو برا کہیں تو پھر انتظار کرو سرخ آندھیوں اور تباہ کن زلزلوں کے آنے کا ، تو پھر انتظار کرو پتھروں کی بارش اور شکلوں کے مسخ ہو جا نے کا ۔


پہلی قوموں پر جب عذاب نازل ہو تا تھا تو ان کی صرف ایک برائی کی وجہ سے ان پر للہ کی پکڑ آ جاتی تھی ، اہل مدین پر ناپ تول میں کمی کی وجہ سے عذاب نازل ہوا ، قوم لوط پر ہم جنس پرستی کی وجہ سے عذاب نازل ہوا ، قوم عاد اور ثمود پر بت پرستی اور شرک کی وجہ سے عذاب نازل ہوا ، آپ صرف ایک لمحے کے لیئے سوچیں اور غور کریں کہ ان میں سے کو ن سی برائی ہے جو ہم میں نہیں پائی جاتی ؟ایک طرف ہم میں یہ تمام برائیاں پائی جاتی ہیں اور دوسری طرف من حیث القوم ہم میں وہ تمام نشانیاں پائی جاتی ہیں جو مخبر صادق نے قیامت آنے کے لیے بتائی تھیں ، آج ان تمام برائیوں اور نشانیوں کا مجموعہ ہونے کے باوجود ہم پوچھتے ہیں کہ زلزلے کیوں آتے ہیں ؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :