ماحولیات اور اسلامی تعلیمات

منگل 22 دسمبر 2015

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

نسل انسانی کو اپنی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ماحولیاتی آلودگی سے ہے جس کا سبب بھی خود حضرت انسان ہی ہے جس نے اس کرہ ارض کے حسن اوقدرتی ر توازن کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں، درجہ حرارت میں اضافہ، سیلاب، خشک سالی، طوفان،سمندری سطح میں اضافہ، ماحولیاتی آلودگی، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے ہمارا پالا پڑ رہا ہے۔انسانی عوامل کی وجہ سے آلودگی اور درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔

گرین ہاوس گیسوں بطور خاص کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج ، حدت میں اضافہ سے قطبین میں برف پگھلنے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ ۲۰۱۵ء گرم ترین سال ثابت ہوا ہے اور اگر یہی صورت حال رہی تو ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے اس کرہ ارض پر زندہ رہنا محال ہوگا۔ ان تبدیلیوں کے اثرات نسل انسانی کی بقا پر مرتب ہورہے ہیں او ر بیماریوں میں اضافہ ہوہا ہے۔

(جاری ہے)

پیچیدہ جینیاتی بیماروں کے ساتھ بانجھ پن کے مسائل بھی سامنے آرہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کے سبب مردوں کے مادہ منویہ میں نطفہ (Sperms) کی تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے جس سے نسل انسانی کے بقا کو خطرہ درپیش ہے۔ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اقوام عالم مل کر کوئی قابل عمل منصوبہ تیار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔اقوام متحد ہ نے پانچ جون کو ماحولیات کا عالمی دن قرار دیا۔

۲۰۰۹ء میں کوپن ہیگن میں عالمی کانفرنس منعقد ہوئی اور اب اس ماہ (دسمبر۲۰۱۵ء) میں پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں۱۹۵ ممالک کے سربراہان اور سیاسی رہنما اس کانفرنس میں شریک ہوئے جبکہ ہزاروں ماہرین بھی موجود تھے۔ اس اجلاس کے دوران زیادہ تک گفتگو کا محور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو دو سنٹی گریڈ تک محدود کرنا تھا۔ ان سطور کے لکھنے تک کانفرس جاری تھی اور مندوبین کسی معائدے کے مسودہ کے لیے متحرک تھے۔

سویڈن نے پچیس کروڑ سویڈش کرونا ماحولیات کے لیے مختص کیے ہیں۔ اس سے قبل چار ارب سویڈش کرونا دئیے جا چکے ہیں جبکہ دس کروڑ کرونا کی مدد کم ترقی یافتہ ممالک کو دی گئی ہے. ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے سویڈن ایک منصوبہ پر کام کررہا ہے جس کے تحت۲۰۳۰ء تک یہ دنیا پہلا ملک ہوگا جو پٹرول اور اس کی مصنوعات کا استعمال ترک کردے گا۔
ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے نسل انسانی کو اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے ، دین اسلام جو ایک مکمل اور آخری دین ہے اس نے ان مسائل اور معاملات کے بارے میں اہم تعلیمات دی ہیں۔

یہ ہوہی نہیں سکتا کہ انسان جسے خدا نے اس زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجا ہے اوربقولِ اقبال زوالِ آدمِ خاکی تو خود خدا کا زیاں ہے ۔ خدا نے اپنی آخری وحی میں اور ختم المرسلینﷺ نے اپنی ارشادت میں اس بارے میں جو تعلیمات دی ہیں انہیں ہم فراموش کئے بیٹھے ہیں اور نہ اُن پر غور کرتے ہیں۔ منبر و محراب اور ہمارے مذہبی حلقوں نے بھی ماحولیات کے بارے میں کبھی بات نہیں کی۔

جب ہم قرآن حکیم کی روشنی میں اس کائنات پر غور کرتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس کائنات میں ایک ہی خدا کا بنایا ہوا قانون نافذ العمل ہے (۲۲/۲۱)۔ کوئی بھی قوانین ِ فطرت میں تبدیلی نہیں کرسکتا اور خدا کے اس بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی زمین فساد پھیلانے کے مترادف ہے۔ خدا کے قوانین کی اعلانیہ مخالفت اور سرکشی شرک کے مترادف ہے جس کا نتیجہ فساد فی الرض ہے۔

قرآن حکیم نے فساد اور اصلاح دو اصطلاحات بیان کی ہیں جو ایک دوسرے کی متضاد ہیں۔ فساد کا معنی درست حالت میں نہ ہونا، تناسب میں بگاڑ ہونا Distruction ,Disorder, Chaos, ہے۔ قرآن حکیم نے زمین میں فساد پھیلانے سے منع کیا ہے۔ زمین میں فساد پھیلانے سے مراد اس کے قدرتی حسن کو تباہ کرنا اور تناسب کو بگاڑنا بھی ہے۔ یہ انسانی بقا اور ماحولیات کے مسائل پر قابو پانے کے لیے بہترین لائحہ عمل ہے۔

بہت سے لوگ اس بات کا شعور ہی نہیں رکھتے کہ کہ زمین میں فساد پھیلا رہے ہیں(۱۲/۲)۔ رب العزت نے کائنات کی تخلیق کرنے کے بعد اس کی حفاظت کا بھی نظام بھی بنایا جس طرف سورہ الرحمٰن کی ساتویں اور آٹھویں آیت میں اشارہ کیاہے۔ اگر زمین کے گرد کرہ ہوائی نہ ہوتا تو زمین کا درجہ حرارت منفی ۵۱ ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا۔کرہ ہوئی ایک ہزار میل تک اوپر جاتا ہے۔

پہلی تہہ Trofosphere سطح زمین سے سات میل اوپر ہے۔ موسمیات کا خطہ Stratosphere دوسری تہہ اس میں ہوا گردش نہیں کرتی ہے اس لیے یہ گرم ہے۔ Mesophere تیسری تہہ ہے یہ بہت اہم ہے اس میں اوزون گیس ہے۔ جسے قرآن نے میزان سے تعبیر کیا ہے۔ یہ زیادہ توانائی کی لہروں کو آسمان سے زمین تک نہیں پہنچنے دیتی۔انسانی کاروائیوں سے گرین ہاوس گیسوں کے بے انتہا اخراج سے اس تہہ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

جس کی وجہ سے دنیا میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔ چوتھی تہہ Ionoshere اس سے اوپر خلا ہے جہاں درجہ حرارت C 1600 ہے۔دفاعی رکاوٹیں جو زمین تک مہلک قوتوں مثلاََ کا سمک ریز، گاما ریز، ایکس ریز، الٹرا وائیلٹ اور گرمی وغیرہ کی لہروں کو روک لیتی ہیں۔انہیں روکنے کے لیے اللہ تعالٰی نے پیمانے مقرر کیے ہیں جن کا قرآن میں بار بار ذکر آتا ہے۔ مثلاَ ہم نے سمائالدنیا کو روشن چراغوں سے مزین کررکھا ہے اور اسے سرکش قوتوں (Rebellious Forces) کو مار بھگانے والا بنایا ہے(۳۲/۲۱)۔

سورہ فصلت کی آیت ۱۲ میں ہے اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں (یعنی ستاروں) سے مزین کیا اور محفوظ رکھا۔ یہ زبردست (اور) خبردار کے (مقرر کئے ہوئے) اندازے ہیں۔ سورہ ملک کی آیت تین اور چار میں اس کائنات کے نظام اور حفاظت کا کیا سائنسی اور عقلی انداز میں بیان کیا۔ ارشاد ہوتا ہے کہ جس نے سات (یا متعدد) آسمانی کرّے باہمی مطابقت کے ساتھ (طبق دَر طبق) پیدا فرمائے، تم (خدائے) رحمان کے نظامِ تخلیق میں کوئی بے ضابطگی اور عدمِ تناسب نہیں دیکھو گے، سو تم نگاہِ (غور و فکر) پھیر کر دیکھو، کیا تم اس (تخلیق) میں کوئی شگاف یا خلل (یعنی شکستگی یا اِنقطاع) دیکھتے ہو تم پھر نگاہِ (تحقیق) کو بار بار (مختلف زاویوں اور سائنسی طریقوں سے) پھیر کر دیکھو، (ہر بار) نظر تمہاری طرف تھک کر پلٹ آئے گی اور وہ (کوئی بھی نقص تلاش کرنے میں) ناکام ہوگی ۔

سبحان اللہ ۔ اگر زمین پر دباؤ نہ ہوتا تو ہم یہاں عدم توازن کی وجہ سے رہ ہی نہ سکتے۔ صرف ایک منٹ دماغ کو آکسیجن نہ ملے تو اس کے خلیات مرنا شروع ہوجاتے ہیں اور اگر یہ سلسلہ تین منٹ تک جاری رہے تو انتہائی شدید نقصان پہنچتا ہے جو موت تک جا پہنچتا ہے۔ زمین میں ماحولیا ت کے مسائل خود انسان کے اپنے پیدا کردہ ہیں جیسا کہ قرآن حکیم میں نوع انسانی کو آگاہ کیا گیا ہے کہ خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی کارستانیوں سے خشکی و تری ہرجگہ ناہمواریاں اور خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں(۹/۳۰)۔

سورہ حٰم السجدہ میں اسی موضوع کو دہرایا گیا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”اگر کسی نے ایک پودا لگایا اس پودے کو انسان اور جانور جب تک کھاتے رہیں گے یا اس سے انسانوں کو فائدہ (سایہ کی صورت میں) ملتا رہے گا تو اس کا اجر اس شخص کو ملتا رہے گا۔رسول اکرمﷺ کی تعلیمات میں درختوں کو کاٹنے کی واضح ممانعت آئی ہے۔ حتیٰ کہ حالت جنگ میں بھی درخت کاٹنے سے منع کیا گیا ہے مسلمان فوجوں کو اس بات کی ہدایت تھی کہ وہ شہروں اور فصلوں کو برباد نہ کریں۔

نبی آخر الزمان کی تعلیمات ہمیں اعتدال پسندی کی تلقین کرتی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اعتدال اختیار کرو۔ گویا انسانوں سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے تمام اعمال مثلاً کھانے، پینے ، کمانے ، خرچ کرنے، صنعتی پیداوار اور اس کے استعمال، وغیرہ سب میں جس کا تعلق قدرتی وسائل سے آتا ہو اور آخر کار جو ماحول پر اثر انداز ہوتے ہوں، ان سب میں حد درجہ اعتدال سے کام لیں۔

امام ابویوسف کے نزدیک وہ شخص جو قدرتی ماحول کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھتا، اسلامی شریعت کے نفاذ کے مناسب طریقہ کار کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔ قرآن پر ایمان رکھنے والوں کا فرض ہے کہ وہ زمین اور اس کی فضا کو آلودگی سے بچائیں اور اس میں اپنا کردار ادا کریں اور ہر اُس عمل سے اجتناب کریں جس سے زمین کے حسن اور ماحولیات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :