امید!

منگل 22 دسمبر 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

مجھے ڈاکٹر صاحب سے اختلاف تھا اس لیئے میں ان کے پیچھے چلتا ہوا ان کے آفس پہنچ گیا تھا ۔مجلس ختم ہو چکی تھی اور ڈاکٹر صاحب نیچے اپنے آفس میں تشریف لے آئے تھے ۔ یہ ایک سرد رات تھی اور ہم پاکستان اور مسلم ورلڈ کے مستقبل کے حوالے سے گفتگو کر رہے تھے ، ڈاکٹر صاحب کا نقطہ نظر تھا کہ پاکستان سمیت عالم اسلام کا مستقبل بہت بھیانک ہے ، ذلت و رسوائی ہمارا مقدر ہے اور آنے والا کل ہمارے آج سے ذیادہ خوفنا ک ہو گا۔

آج اگر شام، عراق ،لیبیا اور افغانستا ن خانہ جنگی کا شکار ہیں تو کل چار ملک اور اس صف میں شامل ہو جائیں گے اور رہا پاکستان تو یہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونے سے پہلے ہی دم توڑ دے گا کیونکہ نہ ہمیں مخلص قیادت ملے گی اور نہ یہ ملک اپنے پاوٴں پر کھڑا ہو سکے گا اور ایک دن قدرت ہماری بد اعمالیوں کے سبب ہم سے یہ نعمت چھین لے گی۔

(جاری ہے)

میرا نقطہ نظر اس سے مختلف تھا ، میں نے ڈاکٹر صاحب کو ابن خلدون ، اشپنگلر اور ٹائن بی کے حوالے دے کر تہذیبوں کے عروج وزوال کی داستان سنائی لیکن ڈاکٹر صاحب کا اپنا فلسفہ تھااور وہ یہ سب سننے کے لیئے تیار نہیں تھے ۔

ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا ”پاکستان اور عالم اسلام کی صورتحال انتہائی تکلیف دہ ہے ، اکثر اسلامی ممالک دہشت گردی، غربت، فرقہ واریت ، بیماریوں اور صحت کے مسائل سے نبرد آزما ہیں ،موروثی بادشاہتوں اور ڈکٹیٹر شپ نے سیاسی عدم استحکام کی فضا پیدا کر رکھی ہے ۔ دنیا کی پانچ سو نامور یونیورسٹیوں میں مسلمانوں کی ایک بھی یونیورسٹی شامل نہیں ،پوری اسلامی دنیا میں صرف 588یونیورسٹیاں ہیں جبکہ صرف امریکہ میں 5758یونیورسٹیاں ہیں ، یورپ میں 4000اور انڈیا میں 8407یونیورسٹیاں ہیں ۔

دنیا میں 24فیصد مسلمان اور 30فیصد عیسائی ہیں ، عیسائیت میں شرح خواندگی 90فیصد اور مسلمانوں میں صرف40فیصد ہے ، مغرب میں 98فیصد لوگ بنیادی تعلیم حاصل کر تے ہیں جبکہ مسلم ورلڈ میں یہ تناسب صرف پچاس فیصد ہے ۔مسلمانوں میں ہر دس لاکھ میں سے صرف 230افرادسائنسدان ہیں اور صرف امریکہ میں دس لاکھ میں سے پانچ ہزار افراد سائنسدان ہیں ۔مغرب میں چالیس فیصد افراد یونیورسٹی سطح تک جاتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر تے ہیں اور مسلم دنیا میں یہ تناسب صرف دو فیصد ہے۔

مسلمانوں میں ہر دس ہزار افراد کے حصے میں ایک ڈاکٹر آتا ہے جبکہ اسپین جو مغربی ممالک میں نسبتا کم ترقی یافتہ ہے اس میں ہر پانچ سو افراد کے لیئے ایک ڈاکٹر ہے“ ۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کی بات توجہ سے سنی اور عرض کیا ”سر دیکھیں ہمیں حالات کو ان کے اصل تناظر میں دیکھنا چاہیئے ، پاکستان سمیت عالم اسلام کے جتنے بھی مسائل ہیں ان کا ایک خاص پس منظر ہے اور اس کے ساتھ عرو ج و زوال کا بھی ایک الہیٰ نظا م ہے اس لیئے ہمیں پاکستان سمیت عالم اسلام کے تمام مسائل کو اس وسیع تناظر میں دیکھنا چاہیئے ۔

دن سے پہلے ہمیشہ رات آتی ہے اور آج ہم اسی رات میں جی رہے ہیں، رات جتنی بھی طویل ہو بہرحال اسے ختم ہونا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں یہ رات گزارنے اور دن کے استقبال کے لیئے مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ آپ صرف پاکستان کو دیکھ لیں ،پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی سو سالہ جد وجہد کا نتیجہ تھا ، یک ایسا پاکستان جس کے پاس وسائل تھے نہ افراد،مشینری تھی نہ ساز وسامان ،ڈاکٹر تھے، انجینئر تھے نہ سائنسدان ،فیکٹریاں تھیں ،ملیں اور نہ کارخانے ،سڑکیں تھیں نہ ریلوے ،دفاتر تھے نہ سرکاری ملازمین ، جہاز تھے ، ایئر پورٹ اورنہ بندرگاہیں اور حد تو یہ تھی کہ ا س کے پاس اپنا کوئی آئین اور دستور بھی نہیں تھا۔

اس کے باوجود اللہ کا کرم تھا کہ پچاس سال بعد وہی پاکستان ایٹمی طاقتوں کی صف میں کھڑا تھا ۔آج وہی پاکستان جنوبی ایشیا کا اہم ترین ملک ہے جس کی مرضی کے بغیر عالمی طاقتیں کو ئی پالیسی ترتیب دے سکتی ہیں اور نہ اس پر عمل پیرا ہو سکتی ہیں ۔آج اس کا شمار دنیا کے اہم ترین ممالک میں ہوتا ہے اور آج اس پاکستان کو ساتھ لے کے چلنا عالمی طاقتوں کی مجبوری بن چکاہے۔

آج وہ پاکستان دنیا کا بہترین اسلحہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے ،آج اس پاکستان کے پاس دو سو سے زائد ایٹم بم بنانے کی صلاحیت موجود ہے ، آج امریکہ ،روس اور چین جیسی سپر رپاورز اسے اپنے بلاک میں شامل کرنے کے لیئے بے چین ہیں اور ذیادہ سے ذیادہ سرمایہ کارے کر رہی ہیں ۔ 68سال کی عمر میں انتی بڑی کامیابیاں حاصل کر لینا واقعی ایک کمال ہے اور یہ کمال صرف پاکستان جیسا ملک ہی کر سکتا ہے ۔

“میں سانس لینے کے بعد دوبارہ گویا ہوا ”سر آپ کہہ سکتے ہیں کہ ناروے ، ڈنمارک، سوئرزلینڈ،آئر لینڈ ،بیلجئم، سنگا پور، بحرین ، مسقط، عمان، کویت، عرب امارات، اردن اور برونائی سب ایسے ممالک ہیں جنہوں نے بہت کم عرصے میں ترقی کی ہے اور آج یہ ممالک ترقی یافتہ ممالک میں سر فہرست ہیں ۔لیکن سر ان ممالک کی ترقی کی حقیقت جا ننے سے پہلے آپ ان ممالک کا جغرافیہ ، ان کی آبادی ، ان کے ہمسائے ممالک اور ان کی معیشت کا جائزہ لیں ۔

ناروے کی آبادی صرف 51لاکھ ہے ، فن لینڈ 55لاکھ ، سنگا پور 55 لاکھ ، آئر لینڈ 46لاکھ ، سویڈن 98لاکھ ، ڈنمارک 57لاکھ اور اسی طرح عرب ریاستوں کی آبادی بھی لاکھوں کے ہندسے سے تجاوز نہیں کر تی ، اب یہ چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں ، ان کی آبادی ساتویں ہندسے سے آگے نہیں بڑھتی ، ان کی ہمسائے ممالک کے ساتھ کو ئی جنگ نہیں ، انہیں ایٹم بم، فوج اور اسلحے کی پرواہ نہیں ،ان کی جغرافیائی حیثیت نے انہیں ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رکھا ہوا ہے اور شرح خواندگی ان ممالک میں سو فیصد ہے لہٰذا ان ممالک کی ترقی ایک لازمی امر ہے ۔

جبکہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت، ہمسایہ ممالک ، آبادی ، شرح خواندگی اور انرجی کے مسائل یکسر مختلف ہیں ۔پاکستان کی آبادی تقریبا بیس کروڑ کی حدوں کو چھو رہی ہے ،صرف کراچی شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے ، لاہور شہر بھی ڈیڑھ کروڑ افراد کو اپنے دامن میں سمائے بیٹھا ہے لہٰذا 50لاکھ آبادی والے ملک اور ڈیڑھ کروڑ آبادی والے شہر کا موازنہ کیسے کیا جا سکتا ہے ۔

ظاہر ہے جس شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہو گی اس کے مسائل بھی اسی لحاظ سے ہوں گے ، جس ملک پر بیس کروڑ عوام کا بوجھ ہو گا اس کے مسائل بھی اسی لحاظ سے ہو ں گے ، اس ملک میں ٹرانسپورٹ ، سڑکیں ، بازار، ریلوے ، ایئر پورٹس، شاپنگ مالز، گھر، فلیٹ ، سیوریج سسٹم ،صاف پانی، غذائی اجناس اور ضروریات زندگی کے مسائل بھی اسی حساب سے ہوں گے ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا ملک جس کی آبادی بیس کروڑ، جس کی فوج دس لاکھ، جس کے ہمسائے انتہائی ”شریف“، جس کی شرح خواندگی ساٹھ فیصداور جس کو اپنا میزائل سسٹم اور ایٹمی سسٹم اپ گریڈ رکھنا ہو اس ملک کے مسائل اور ایک ایسا ملک جس کی آبادی صرف پچاس لاکھ ، فوج صرف دس ہزار ، ہمسائے بے ضرر اور اس کی شرح خواندگی سو فیصد ہو ان دونوں کے مسائل ایک جیسے ہوں ؟ شاید ایسا نہیں ہو سکتا اور اگر ہم ایسا کر تے اور سوچتے ہیں تو شاید ہم غلط ہیں“میں نے محسوس کیا ڈاکٹر صاحب میرے موٴقف سے متفق ہیں لیکن ان کا علمی وقار انہیں اس بات کی اجازت نہیں دے رہا تھا ۔

ڈاکٹر صاحب نے کپ اٹھایا ،گرم چائے کی چسکی لی اور میری طرف دیکھ کر مسکرا دیئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :