ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی

اتوار 20 دسمبر 2015

Jahid Ahmad

جاہد احمد

16 دسمبر 2014 ، سانحہ آرمی پبلک سکول،144افراد بشمول 132 معصوم بچے دہشت گرد تنظیم کے افکار کا نشانہ بنے۔16 دسمبر 1971 ، سقوطِ ڈھاکا، پاکستان نے اقتدار و وسائل کی داخلی کشاکش میں اپنا مشرقی وجود کھو دیا۔
یہ طے کرنا مشکل ہے کہ ان دونوں قومی سانحات میں سے زیادہ بڑا اور تکلیف دہ واقعہ کون سا ہے۔ان سانحات میں مشترکہ قدر محض یہ ہے کہ یہ دونوں واقعات ریاستی اداروں کی نا اہلی کا منطقی انجام ہیں! غیر مشترک اقدار یہ ہیں کہ سقوطِ ڈھاکا سے ریاست نے کچھ خاص سبق نہیں سیکھا اور جبر و استبداد کی پالیسی پر گامزن رہی جبکہ سانحہ آرمی پبلک سکول دہشت گردی سے متعلق قومی بیانیے میں کچھ تبدیلی اور کسی حد تک تشکیلِ نو پر منتج ہوا۔


قوموں کی زندگی میں بڑے واقعات بڑی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن تبدیلی بھی مشروط ہے مجموعی قومی شعور سے۔قوم مجموعہ ہے افراد کا۔ انفرادی شعور قومی شعور کی بنیاد ہے۔سانحہ پشاور جیسا اندوہناک واقعہ انفرادی سطح پر اکثریت کا شعور جنجھوڑنے میں کامیاب رہا وگرنہ یہ وہی قوم ہے جسے 60 ہزار افراد کا قتال بھی طالبان کی حمایت اور محبت سے دستبردار نہیں کر سکا۔

خون تو ان ہزاروں بے گناہ افراد کا بھی اتنا ہی قیمتی تھا لیکن سچ ہے کہ Smallest Coffins are the Heaviest.
16 دسمبر 2015 کو میں ریاستی اداروں کی دہشت گردوں کے خلاف کامیابیوں اور کامرانیوں کی شہنائی بجانے کی خواہش نہیں رکھتا ہوں کیونکہ پہلی بات یہ کہ جن اعلی ریاستی عناصر نے اس عفریت کی پیدائش و افزائش میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا، انہی کا فرض بھی ہے کہ اس خوفناک باب کا خاتمہ بھی کریں! دوسری بات کہ یہ سب اس وقت بھی قابو کیا جا سکتا تھا جب دہشت گردوں نے مذہب کے نام پر پہلا خودکش حملہ کیا تھا، جب پہلے فوجی جوان کا سر تن سے جدا کیا تھا، جب معصوم شہری پہلی بار اس رجعت پسند سوچ کا نشانہ بنے تھے، جب ریاستی اداروں پر پہلی بار ہلہ بولا گیا تھا۔

درست وقت پر درست فیصلے کئے گئے ہوتے تو ایسا ناقابلِ تلافی نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔
آرمی پبلک سکول کے بچوں کی شہادت کو قربانی سے تشبیہ دے کر Glorify کرنا قوم اور لواحقین خصوصاٌ والدین سے زیادتی کے مترادف ہے۔یہ سمجھنا پڑے گا کہ قربانی اپنی مرضی اور رضا سے دی جاتی ہے۔ وہ بچے زندہ رہنا چاہتے تھے اور اعلی مستقبل کے خواب دیکھتے تھے۔ ان کے والدین نے کبھی بھی اپنے بچوں کو کسی بھی ایسی قربانی کے لئے پیش نہیں کیا۔

ان بچوں سے زندہ رہنے کا حق ان کی مرضی اور منشاء کے بغیر چھینا گیا تھا۔ یہ بچے ، ہزاروں پاکستانی شہری اور سیکیورٹی اہلکار’ سڑیٹجک ڈیپتھ‘ کا شکار بنے ہیں۔ریاست بشمول وہ تمام عناصر جو اس’ سڑیٹجک ڈیپتھ‘ کے خالق اورمقلد تھے اس خونریزی کے ذمہ دار ہیں۔ریاست اداروں کی اجازت سے ریاست کے اندر ایک ریاست تخلیق ہوئی تھی۔حقائق سمجھنے ضروری ہیں کہ انہیں سمجھے اور قبول کئے بغیر کسی بھی قسم کا لائحہ عمل دور رس نتائج فراہم نہیں کر سکتا۔


ان معصوم شہداء کوخراجِ تحسین بھی کیا پیش کیا جائے کہ جن پر ریاستی نا اہلی کے باعث موت مسلط ہوئی ۔خراجِ عقیدت یا خراجِ تحسین پیش کرنے سے بہتر ہے کہ ان تمام معصوم شہدا کے والدین کے دکھ کے اظہار کا ذریعہ بنا جائے۔ ریاست کو احساس دلایا جائے کہ اس کے غلط فیصلے اور پالیسیاں آنے والی نسلوں کو کس کس طرح خون میں لت پت کر سکتی ہیں۔ محترم عباس تابش صاحب کا شعر ان شہید بچوں کی ماؤں کے دکھ کا یوں احاطہ کرتا ہے کہ کلیجہ پھٹتا محسوس ہو:
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
خالد احمد صاحب فرما گئے کہ:
کوئی تو روئے لپٹ کر جوان لاشوں سے
اسی لئے تو وہ بیٹوں کو مائیں دیتا ہے
اس ماں کا حال کیا ہوگا جس کا بچہ کسی ریاستی پالیسی اور سستی کا خمیازہ بھگت کر سکول جیسی جگہ پر ناحق اپنے دوستوں کے ہمراہ جان سے چلا گیا ہو۔

کیا کوئی ایسی توجیہہ یا توضیع بیان کی جا سکتی ہے جو اس ماں کے لئے مستقل تسلی اور راحت کا باعث بن جائے ۔میں نہیں جانتا پر کیا کوئی ایسا کلیہ بھی موجود ہے جو باپ کے کاندھے سے عمر بھر کے لئے اپنے بچے کے جسدِ خاکی کا بوجھ کچھ کم کر سکے۔
آ ج کے دن ریاست کے کرتا دھرتاؤں کو احساس دلایا جانا زیادہ افادیت کا حامل ہے کہ ریاست مذہب کے نام پر کسی بھی قسم کی خونریزی کی قطعی اجازت نہیں دے سکتی۔

ریاست کسی ایسی پالیسی کی متحمل نہیں ہو سکتی جو ریاستی مفادات کے نام پر کسی گروہ کو ریاست کے اندر ریاست کا درجہ دے اور اسے ریاستی معاملات میں فریق گردانے۔ کسی بھی گروہ کو ریاست اور شہریوں پر اسلحہ کے زور پر اپنا نظریہ نافذ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ دہشت گرد دہشت گرد ہے چاہے کسی بھی نظریے کا پر چار کرے۔ ریاست کے لئے ایسے قوانین وضع کئے جائیں یا موجودہ قوانین میں ترامیم کی جائیں جو تمام افراد کو شہریت کی بنیاد پر مساوی حقوق فراہم کریں۔

نہ کوئی اکثریت ہو اور نہ کوئی اقلیت۔ ریاستی معاملات مذہب سے بالاتر ہو کر انجام دیے جائیں۔ کسی بھی سطح کی دہشت گردی ،عدم برداشت، فرقہ واریت اور نفرت کے پرچار کو زیرو ٹالیرنس پالیسی کے تحت قابو کیا جائے۔وگرنہ ایسے سانحات رونما ہوتے رہیں گے۔آج سقوطِ ڈھاکہ پس منظر میں چلا گیا ہے کل شاید کوئی اور واقعہ سانحہ آرمی پبلک سکول کو پس منظر میں پھینک دے گا۔
شکریہ ریاستی نااہلی، بہت بہت شکریہ!!! ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :