جوش نہیں ہوش کی ضرورت

جمعہ 18 دسمبر 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

16 دسمبرکو پوری قوم نے آرمی پبلک سکول پشاورکے شہیدوں کادِن منایا ۔شہیدوں کے سوگ میں سندھ سمیت تمام صوبوں کے تعلیمی ادارے بندرہے ،ایک منٹ کی خاموشی اختیارکی گئی ،پورے ملک میں تقریبات منعقدہوئیں اورسارا دِن ملّی نغمے گونجتے رہے ،شمعیں روشن ہوئیں اورریلیاں نکلیں ۔آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ نغموں”بڑا دشمن بنا پھرتاہے جو بچوں سے ڈرتاہے “ اور ”مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے“ نے سانحہ پشاورکی یادتازہ کردی ،بھولے توہم پہلے بھی نہیں تھے کہ یہ سانحہ بھلایاجا ہی نہیں سکتا لیکن تقریبات اورنغموں نے ایسی فضاء قائم کردی کہ یوں محسوس ہوتاتھا جیسے یہ ابھی کل ہی کی بات ہو۔

وزیرِاعظم صاحب نے وفاق کے زیرِانتظام 122 سکولوں کوشہیدوں کے نام سے منسوب کرنے کاحکم دیااور پنجاب میں میاں شہباز شریف صاحب نے بھی ایساہی حکم صادرفرمایا ۔

(جاری ہے)

اسی سانحہ کی وجہ سے 2014ء میں کپتان صاحب اپنا 126 روزہ دھرنا ختم کرکے قومی دھارے میں شامل ہوئے اوراسی سانحے کی بنا پرآپریشن ضربِ عضب میں تیزی آئی ۔ آئی ایس پی آرکے مطابق 3400 دہشت گردجہنم کاایندھن بنے اور آج یہ عالم کہ طالبان نامی دہشت گردوں کو کہیں جائے پناہ نہیں مِل رہی ۔

16 دسمبرکوہی پاکستان دولخت ہوا ۔نسلِ نَو تو شاید بے خبرلیکن ہمیں 16 دسمبر1971ء کی وہ دوپہر اچھی طرح یادجب ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جنرل نیازی نے بھارتی جنرل اروڑاکے سامنے ہتھیار ڈالے اور 90 ہزار جنگی قیدی بنے ۔کرب کے وہ لمحات اگر ہم بھلانابھی چاہیں تو نہیں بھُلا سکتے جب اُدھر پلٹن میدان میں ہماری فوج ہتھیارڈال رہی تھی اوراِدھر شراب کے ڈرم میں بیٹھا جنرل یحییٰ خاں قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہاتھا کہ کسی ایک محاذ سے وقتی طورپر پیچھے ہٹ جانے کامطلب یہ نہیں کہ شکست ہوگئی ،جنگ جاری ہے اورجاری رہے گی ۔

حالانکہ سبھی جانتے تھے کہ قائدِاعظم کی کاوشوں کا ثمراوراقبال کے خوابوں کی تعبیرگندی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی ۔ یہ سانحہ ایسا جانکاہ تھا کہ اُس روزگھروں کے چولہے نہ جلے اورپوری قوم میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ 16 دسمبر2o14ء کے سانحے پربھی شایدہی کوئی آنکھ ایسی ہوجو اشکبار نہ ہوئی ہو۔ یہ زخم ابھی تازہ ہے اِس لیے ہم اسے بھلانہیں پائے لیکن 1971ء کاسانحہ تووقت کی دھول میں گُم ہوگیا۔


سچ تویہی کہ ہم نے سقوطِ ڈھاکہ سے سبق سیکھا نہ سانحہ پشاورسے۔ اگرایسا ہوتاتویہ عالم ہرگزنہ ہوتاکہ سندھ کی صوبائی حکومت کراچی کوبے یارومددگار چھوڑنے کے درپے جبکہ کراچی کاہر طبقہٴ فکرسڑکوں پریہ احتجاج کرتاہوا کہ رینجرزکو اختیارات دو۔ سبھی جانتے ہیں کہ یہی وہ بہادر فورس ہے جس نے قربانیاں دے کرکراچی میں اِس حدتک امن بحال کردیا کہ اب لوگ بے خوف ہوکر رات گئے تک سڑکوں پر گھومتے رہتے ہیں۔

5 دسمبرکو رینجرزکے اختیارات ختم ہوگئے تووزیرِاعلیٰ سیدقائم علی شاہ نے کہہ دیاکہ وہ رینجرزکے اختیارات بحال کرنے کوتو تیارہیں لیکن اِس کے لیے صوبائی اسمبلی کی منظوری لیناضروری ہے۔ پچھلی صدی کے کہن سالہ سیّدقائم علی شاہ کی یادداشت شایدجواب دے چکی ہے ۔اگرایسا نہ ہوتاتو اُنہیں اتناتو یادہوتا کہ پچھلے اڑھائی سالوں میں اُنہوں نے ایک باربھی اپنے ایگزیکٹو آرڈرزکی صوبائی اسمبلی سے تصدیق نہیں کروائی ۔

شایداُس وقت شاہ صاحب کے ”بِگ باس“ مطمٴن تھے کہ رینجرزصرف ایم کیوایم کوہی ”رگڑا“ دے گی لیکن جونہی رینجرزنے کرپشن میں دھنسے اداروں پر ہاتھ ڈالاتو کرپشن کے شہنشاہ کے کان کھڑے ہوگئے ۔اُس نے پہلے تواینٹ سے اینٹ بجادینے کی دھمکی دی لیکن جب بات نہ بنی توچپکے سے دبئی کھسک لیے ۔قصورقائم علی شاہ کانہ سیّدخورشید شاہ کاکیونکہ وہ تودبئی میں بیٹھے کرپشن کے شہنشاہ کے غلامِ بے دام ۔

شہنشاہ سلامت کوملک کی پرواہ نہ قوم کی ، صرف اپنے اثاثوں کی جودنیاکے انتہائی مہنگے اورترقی یافتہ ممالک میں جابجا بکھرے ہوئے ۔بمبینوسینمامیں ٹکٹیں بلیک کرنے والے شہنشاہِ معظم آج پاکستان کے امیرترین شخص ہیں ۔حیرت ہے کہ اُنہوں نے یہ سفرکیسے طے کیااورایوانِ صدرتک رسائی کے لیے کون سی راہ اختیارکی ۔معاملات توتب بگڑے جب رینجرزنے شہنشاہ سلامت کے دستِ راست اورمحرمِ رازڈاکٹر عاصم حسین پرہاتھ ڈالا۔

تب اُنہیں احساس ہواکہ اُن کے گردتیزی سے شکنجہ کساجا رہاہے ۔اُنہوں نے اپنے غلامان کوحکم صادرفرمایا کہ جتنی جلدی ممکن ہورینجرز سے چھٹکارا حاصل کیاجائے لیکن اب معاملہ اتناآسان نہیں رہا تھاکیونکہ ”شریفین“بہرحال کراچی کی روشنیاں لوٹانے کے لیے یکسو تھے ۔محترم جنرل راحیل شریف نے کراچی میں بیٹھ کریہ اعلان کیاکہ آخری دہشت گردکے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا ،یہی الفاظ میاں نواز شریف صاحب نے بھی اپنے خطاب میں دہرائے۔

اب سندھ حکومت ڈاکٹرعاصم حسین کی رہائی کے بدلے رینجرزکو اختیارات دینے کے لیے تیارلیکن مرکزی حکومت اِس کے لیے آمادہ نہ فوج۔
بیباک وزیرِداخلہ چودھری نثاراحمد نے لگی لپٹی رکھے بغیریہ کہہ دیا ”ایک شخص کوبچانے کے لیے آپریشن کومتنازع بنایاجا رہاہے۔الزامات کاسلسلہ بندنہ ہواتو ڈاکٹرعاصم کی وڈیوسامنے لے آوٴں گا۔ سندھ حکومت کسی غلط فہمی میں نہ رہے ۔

رینجرزکو تنہانہیں چھوڑیں گے ۔وہ کراچی میں وفاق کے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت کام کرتے رہیں گے“۔ درجوابِ آں غزل وزیرِاعلیٰ سندھ کے مشیرمولا بخش چانڈیونے کہا”چودھری نثاردھمکیاں نہ دیں ،وڈیوسامنے لے آئیں۔جو آپشنزہیں استعمال کریں ،نتائج سے ڈرنے والے نہیں،اگرسندھ کے خلاف کارروائی کی گئی توبات دورتک جائے گی“۔ مولابخش چانڈیوکے بیان کے اگلے ہی روزقائدِحزبِ اختلاف بھی بول اُٹھے ”سندھ میں گورنرراج لگاناہے تولگائیں یا ایمرجنسی لگادیں مگردھمکیاں نہ دی جائیں لیکن ایک بات سُن لیں کہ اب جنگ دورتک جائے گی“۔

یہ لفظی بڑھک بازی تاحال جاری لیکن ہمیں یقین کہ بالآخر رینجرزکو اختیارات دینے ہی پڑیں گے کیونکہ سامنے صرف میاں نواز شریف ہی نہیں ،جنرل راحیل شریف بھی ہیں۔ نوازلیگ کامقابلہ توشاید پیپلزپارٹی سیاسی چالبازیوں سے کرلے لیکن قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرنے والی افواجِ پاکستان کامقابلہ کون کرے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :