پھر بھی ہم انتہا پسند ہیں

اتوار 13 دسمبر 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

خبر ہے کہ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے علاقہ کوچیلا کی مسجد میں بم پھینکا گیا جس کے مسجد کاایک حصہ شہید ہوگیا ۔ یہ بم اس وقت پھینکا گیا جب نماز جمعہ کی تیاریاں جاری تھیں۔ قرآئن کے مطابق یہ حملہ امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈٹرمپ کے مسلمانوں سے متعلق اشتعال انگیز بیانات کا نتیجہ ہے انہوں نے چند دن قبل ہی کہاتھا مسلمانوں کو امریکہ سے باہر نکالناہوگا ۔

یوں تو ان کا یہ شرانگیز بیان سارے کاسارا ہی متنازعہ ہے مگر امریکہ سمیت پوری دنیا میں ایک نئی نظریاتی اور مذہبی جنگ چھیڑنے کے متراادف ہے، امریکی صدر بارک اوبامہ سمیت دیگر امریکی لیڈران نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کی مذمت کی مگر حقیقت کچھ اورکہانی سناتی نظرآتی ہے ۔امریکی صدارتی امیدوار کے بیان کے ثمرات تو خیر ابھی سے ظاہر ہونے لگے ہیں اورپتہ نہیں یہ کہانی کونسا رخ اختیارکرتی ہے تاہم ایک نئی طرح کی بین المذاہب جنگ کے خطرات بڑھنے لگے ۔

(جاری ہے)


عالمی دنیا میں ایک خاص سازش کے تحت مسلمانوں اوراسلام کے حوالے سے یہ تاثر عام کردیاگیا ہے کہ یہ مذہب اوراس کے ماننے والے انتہا پسند ہیں،گو کہ یہ سازش عرصہ سے جاری ہے مگر نائن الیون واقعہ کے بعد اس پرپوری شد ومد سے یوں عمل درآمد کیاگیا کہ اب چھوٹا سا غیرمسلم بچہ بھی یہی سمجھتاہے کہ مسلمان دہشتگرد، انتہاپسند ہوتے ہیں۔ بلکہ اب مسلمان ممالک کی نئی نسل کے اذہان میں بھی مسلمانوں کے حوالے سے یہی نظریات بٹھادئیے گئے۔

دور کیوں جائیں پاکستان جسے نظریاتی طورپراسلامی ملک کہاجاتا ہے جس کاقیام بھی اسلامی ریاست کے طورپر عمل میں آیا ، اس ریاست میں جہاد کانا م لینا بھی محال کردیاگیا ہے کہ امریکی سازشوں کی منڈھ چڑھی بیل اب ہماری ہی جڑوں کو کاٹ رہی ہے ۔
غیر مسلم دنیا کہتی ہے کہ مسلمان انتہا پسند، دہشتگرد ہے جبکہ حقائق کو کھلی آنکھوں سے دیکھا جا ئے تو دنیابھر میں ظلم کاشکار مسلمان ہی نظرآتے ہیں۔

مان لیا کہ مسلمان انتہا پسند ہیں لیکن ذرا تھوڑا ہی عرصہ قبل ایک امریکی پادری کی طرف سے قرآن مجید کو جلانے کی ناپاک جسارت کی گئی تو اسے کسی بھی غیرمسلم نے انتہا پسندی دہشتگردی قرار دیا نہیں، مسلمان سراپا احتجاج رہے،مسلمان ممالک میں ہرچھوٹا بڑا احتجاج کرتا ،چیختا چلاتارہ گیا مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی کیونکہ ہم انتہا پسند، دہشتگرد ٹھہرائے گئے اورہمیں احتجاج چیخ وپکارکاکوئی حق نہیں ۔

اس طویل احتجاج کے اثرات کیا سامنے آئے، عالم اسلام میں مغرب خاص طورپر امریکہ کیخلاف نفرت کے جذبات میں شدت آتی چلی گئی۔ اس واقعہ کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر ڈنمارک کے ایک تیسرے درجہ حیثیت کے حامل میگزین کی بات کرلیں ۔ اس میگزین نے ایک بار نہیں کئی بار نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کیئے اورپھر ان کی تشہیرسماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی کی جاتی رہی ، یہ سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا، مسلمان سراپا احتجاج تھے، اپنے ہی گلی محلوں ، سڑکوں پراحتجاج کرنیوالوں کوانتہا پسند اورکارٹون چھاپنے والوں کو یہ کہہ کرچھوٹ دیدی گئی کہ یہ انہیں رائے کی آزاد ی حاصل ہے کہ وہ جیسے چاہیں کرتے پھریں ،یہ صرف دو واقعات نہیں بلکہ تسلیمہ نورین، سلیمان رشدی جیسے گستاخان کاذکر کیاجائے تو بھی عالم مغرب اورامریکہ سمیت دیگرغیرمسلموں کے چہرے کھل کرسامنے آجاتے ہیں۔

دونوں گستاخان نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سمیت شعار اسلام کی توہین کی مگر اسے آزاد ی اظہار رائے کہہ کر کھلی چھوٹ دیدی گئی۔ آج بھی دونوں گستاخان مسلمان دشمنی میں آگے رہنے والے ممالک میں پوری آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
ان واقعات کو لکھنے کامقصد ہی یہی ہے کہ ایک طرف مسلمانوں کودہشتگرد قرار دیاجارہاہے دوسری جانب مسلمان ہی ستم کاشکار ہیں۔

مسلمانوں پرجاری ستم کو نائن الیون سے جوڑا جائے تو یہ کہانی بھی سامنے آتی ہے کہ کئی غیرمسلم امریکی دانشور،ٹیکنیکل مہارت رکھنے والوں نے ثابت کیا کہ نائن الیون امریکہ کی ہی تیارکردہ سازش تھی جس کامقصد ہی مسلمانوں کے خلاف نئی جنگ چھیڑنا تھا۔ اس ضمن میں سابق امریکی صدر بش جونیئر کے ایک بیان مثال دی جاسکتی ہے جس میں انہوں نے نئی صلیبی جنگوں کاذکر کیا ۔

گو کہ بعد میں ان کے بیان کے مندراجات غلط قرا ردیکر تردید یا وضاحت کردی گئی مگر 1999سے لیکر آج کے حالات یہی ظاہرکرتے ہیں کہ واقعی ایک سازش کے تحت مسلمانوں کو نشانہ ستم بنایاجارہا ہے ،ایک افغانستان ہی کیوں ، عراق کی مثال بھی سامنے ہے کہ دونوں کوکھنڈرات میں بدلنے کے بعد بھی امریکی خواہشات پوری نہ ہوئیں توکبھی شام کی طرف اور کبھی پاکستان کی طرف ہوس بھری نظروں سے دیکھ رہاہے ۔
امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو ان امریکیوں کے اذہان کاعکاس قرار دیاگیا ہے جن کی گھٹی میں اسلام، مسلمان دشمنی پڑی ہے۔ 1999 میں جنم لینے والی نسل آج نوجوانوں کی سٹیج پر چڑھنے والی ہے اورظاہر ہے کہ اس نے وہی نظریات ذہن میں رکھنا ہے جس کی عکاسی ڈونلڈ ٹرمپ کررہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :