ایام مشقت(چونی سیٹھ)

پیر 7 دسمبر 2015

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

چند روزہوئے مدتوں بعد پریس کلب میں قدم رکھا کچھ پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ”ایام مشقت“کوجاری رکھنے کا مشورہ دیا میرے لیے یہ بات کسی اعزازسے کم نہیں کہ راجہ اورنگ زیب صاحب اور شاہدملک صاحب جیسے سنیئرزنے میری اس کاوش کو پسند کیا اور اسے جاری رکھنے کا حکم بھی صادر فرمایا ”ایام مشقت“بنیادی طور پر ایک کارکن صحافی کی زندگی کے ان نشیب وفرازسے پردہ اٹھاتا ہے جو کبھی عام لوگوں کے سامنے نہیں آتے ‘میری اس کاوش کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ کارکن صحافی بھی انسان ہیں ان کی زندگیوں میں بھی عام لوگوں کی طرح مشکلات اور مسائل ہوتے ہیں ‘ہمارے ایک انتہائی قابل احترام سنیئردوست نے کئی دہائیاں پہلے ایک اخبار نکالنے کی ”غلطی“کی جس کی سزاوہ آج تک بھگت رہے ہیں کہ وہ بھی ہماری طرح سادہ تھے ‘چونی‘اٹھنی کا بزنس کرنے والے کے پاس چاہے اربوں روپے آجائیں مگر اس کے اندر کی کمینگی نہیں جاتی وہ ذہنی طور پر پرچون فروش ہی رہتا ہے ہمارے دوست سے یہی غلطی ہوئی کہ وہ ایک ”چونی سیٹھ“پر اعتبار کربیٹھے نتیجہ اخبار بند ہوگیا اور سارے واجبات اس شریف آدمی کو اپنا گھر بیچ کراداکرنا پڑے‘اپنی بیس سال سے زیادہ صحافتی زندگی میں زیادہ تر خدمات خبررساں اداروں میں انجام دیں ‘اخبار یا ٹیلی ویژن کے مقابلے میں خبررساں ادارے میں خدمات انجام دینے والے صحافیوں کو اخباری صنعت کے اندرونی حالات کا زیادہ پتہ ہوتا ہے دومختلف قومی خبررساں اداروں میں لمبا عرصہ پنجاب کے بیوروچیف کی حیثیت سے گزارنے کی وجہ سے بڑے ‘چھوٹے تمام میڈیا ہاؤسسزکے اندرونی حالات کا پتہ چلتا رہتا تھا اسی طرح بہت سارے ”چونی سیٹھ“بھی آئے اور پھرچند ہی مہینوں میں بھاگ گئے ‘کئی اخبار شروع ہوتے اور بند ہوتے دیکھے ‘اخبار بند ہونے کا سب سے بڑا نقصان کارکن کو ہوتا ہے کہ ہربند ہونے والا اخبار کارکن صحافیوں کی دو‘تین کی تنخواہیں مار جاتا ہے ‘بہت سارے تیس مارخان قسم کے ”چونی سیٹھوں“کو جب لینے کے دینے پڑتے ہیں تو قدموں آگرتے ہیں مگر زیادہ تر معاملات میں بدقسمتی سے اپنی ہی برادری کے کچھ ”گندے انڈوں“کی وجہ سے ان ”چونی سیٹھوں“کو شہ ملتی ہے جو چند ٹکوں کی خاطر اپنا ضمیربیچ دیتے ہیں وہ ایسے سیٹھوں کی حمایتی بن کر آجاتے ہیں ‘جہاں تک صحافیوں کی یونین کی تعلق ہے تو اس کسی قسم کی بھلائی کی توقع رکھنا عبث ہے مجھے یاد ہے جب پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے ایک صدر کو نوکری سے نکالا گیا تو وہ اپنے لیے بھی کچھ نہیں کرپایا تو ایسے کمزورلیڈروں نے کارکنوں کے حقوق کا تحفظ کیا کرنا ہے‘صحافتی تنظیموں کی سیاست ہماری قومی سیاست سے مختلف نہیں جو گند ہماری قومی سیاست میں ہے اس سے زیادہ گند صحافتی تنظیموں کی سیاست میں بھرا ہوا ہے بیشترالیکشن لڑنے والے مخصوص مقاصد لیکر میدان میں اترتے ہیں کسی کی قیمت اچھی نوکری تو کسی کی پلاٹ‘اب تو خیرسے پیمرا کی چیئرمین شپ اور آزاد کشمیرکی وزارت عظمی بھی صحافتی ”قائدین“کے پاس ہی سمجھو ایک صاحب عہدہ سنبھال چکے دوسرے تیاری میں ہیں ‘کہا جاتا ہے کہ صحافی غیرجانبدار ہوتا ہے مگر سوشل میڈیا پر ہی دیکھ لیں بہت سارے نامور صحافی دوست اپنی اپنی ”پارٹیوں“کی لابنگ اور کھلے عام وکلالت کرتے نظرآتے ہیں تو غیرجانبداری کہاں گئی؟صحافتی دنیا میں بڑی تعداد قلم مزدوروں کی ہے جو دن رات محنت مشقت کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں کچھ کالی بھڑیں ہیں جنہوں نے لفظ”صحافی“کو بدنام کرکے رکھ دیا ہے‘ ایک صحافتی اشرافیہ وجود میں آئی ہے دس ‘پندرہ سالوں کے درمیان جس کے آف شوراکاؤنٹس بھی ہیں ‘جن کی جائیدادیں بھی ہمارے سیاسی قائدین کی طرح بیرون ممالک ہیں ‘کسی نے اپنی بیوی‘کسی نے بھائی اور کسی نے قریبی عزیزکے نام پر کمپنیاں بنائی ہوئی ہیں ان کمپنیوں کو مرضی ریٹس پر مختلف وزارتوں سے ٹھیکے اور کام دلائے جاتے ہیں ‘آج کل ایک معروف صحافی کی کمپنی نون لیگ کی لابنگ اور سوشل میڈیا پر امیج بلڈنگ کا کام کررہی ہے اور ماہانہ کروڑوں روپے پنجاب اور وفاقی حکومت سے وصول کررہی ہے اگر آپ ان سے سوال کریں تو صاحب فرماتے ہیں میری بیوی کی کمپنی ہے میرا اس سے کچھ لینا دینا نہیں مگر وزیراعلی پنجاب ہوں یا وزیراعظم دونوں کے جہازکی پکی ”سواری“ہیں مشرف کے دور میں ان کے بیشترپروگرام اور کالم اس وقت کے حکمرانوں کی شان میں قصیدے ہوتے تھے ‘ناول پڑھنے کا شوق زمانہ طالب علمی سے ہے سو پروگرام ہو یا کالم ہمیشہ ”ناولانہ“قسم کا ہوتا ہے یہ لوگ کروڑوں کے ہیر‘پھیر کرکے کے بھی نیک نام اوربدنام ہوتا ہے چند سو یا ہزارتنخواہ لینے والا کارکن صحافی کروڑوں اربوں کے ڈاکے مارنے والے یہ ڈاکو ”شرفاء“کہلاتے ہیں بیشتر صحافتی تنظیموں کے عہدیدار ہی اس مقصد کے لیے بنتے ہیں کہ حکومتوں سے کام کروا کر ”دیہاڑیاں“لگائی جائیں کئی صحافی لیڈروں کو ”پارٹیوں“کی فائلوں کے ساتھ کارکن صحافیوں کے”حقوق“کی جنگ لڑنے کے لیے حکمرانوں کے پاس جاتے دیکھا ہے کارکن صحافیوں کو تو ان کے حقوق آج تک نہیں ملے البتہ یہ لوگ کروڑپتی ہوگئے‘ایک صاحب کسی زمانہ میں چوہدری پرویزالہی کی گاڑی کا دروازہ کھولتے تھے آج کل یہی خدمت شہبازشریف کے لیے انجام دیتے ہیں کہ ”اہل ہنر“ہیں یہ لوگ ہماری طرح ”نالائق“نہیں کہ ”چونی سیٹھوں“سے چونا لگوا بیٹھیں ‘ایک اور صحافی لیڈر فنکار ایسے کہ شریف بردران جدہ میں ”اختیاری جلاوطنی“پر تھے اور چوہدری بردران کی پارٹی مرکزاور پنجاب میں حکمران صاحب بیک وقت دونوں ”پارٹیوں“سے نذرانے وصول کرتے تھے جبکہ مشرف کے ”کار خاص“کو نون لیگ کی مخبریاں کرکے ”دال روٹی“کمالیتے تھے یہی وجہ بنی کہ شریف بردران جب وطن واپس آئے تو ان صاحب سے ملنے سے انکار کردیا کہ کسی ظالم نے ان کے کانوں میں مشرف کے کار خاص کو مخبریاں کرنے والی بات ڈال دی اللہ غریق رحمت کرئے مجید نظامی صاحب نے بیچ میں پڑکرمعاملہ ختم کروایا اور کچھ” معززین“ کی موجودگی میں ”صاحب“نے باضابط معافی مانگی جسے مجیدنظامی صاحب کی سفارش پر میاں بردران نے قبول کرلیامگر وہ عزت نہ رہی مگر ایسے لوگوں کو عزت کا کیا ان کے نزدیک عزت آنی جانی چیزہے ‘پریس کلب کی رونقیں اب ویسی نہیں رہیں جیسی پندرہ ‘بیس سال قبل ہوا کرتی تھیں ‘اب تو ایک عجیب سے مخلوق دھندناتی پھرتی نظرآتی ہے جنہیں کسی نے سینئرزکا احترام سکھایا ہی نہیں ‘میرے ایک عزیزدوست بشیرہمدردکراچی کے ہوکررہ گئے ہیں دس ‘بارہ سالوں سے ایک دن کہا کہ اب لاہور آجائیں تو کہنے لگے دل تو چاہتا ہے مگر کراچی میں ابھی جونیئرزمیں حیاء باقی ہے اور سنیئرزکی عزت محفوظ سو یہی چیزہے جو مجھے کراچی میں روکے ہوئے ہے ‘نیوزایڈیٹرتو دور کی بات سب ایڈیٹرکا ایسا دبدبہ ہوتا تھا کہ رپورٹرکی جان پر بنی ہوتی تھی ایک خبرکو کئی کئی بار دوبارہ لکھوایا جاتا جب تک نیوزروم کی تسلی نہ ہوجاتی رپورٹر کو ایک ہی خبرکو بار بار لکھنا پڑتا یہی وجہ ہے کہ نیوزروم کے ان”مظالم“کے شکار رپورٹرزکی خبروں میں املاء اورگرائمروغیرہ کی غلطیاں نہیں نظرآتیں جبکہ نئی نسل کے بچوں کو نہ املاء کا پتہ ہے اور نہ ہی گرائمرسے کوئی واسط خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا نے تو زبان کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے بڑے بڑے چینلزکے ٹیکرز جنہیں عرف عام میں ”پٹیاں“کہا جاتا ہے پڑھ کر سرپیٹے کو دل کرتا ہے کہ املا ء اور گرائمرکی ایسی ایسی سنگین غلطیاں کہ بندہ سرپیٹ کررہ جاتا ہے یہی حال نیوزکاسٹرزاور رپورٹرزکا ہے اردو زبان جو پہلے ہی زوال کا شکار تھی رہی سہی کسر الیکٹرونک میڈیا نے نکال دی ہے بلکہ اب اخبارو ں میں بھی املاء اور گرائمرکی سنگین قسم کی غلطیاں معمول بنتا جارہا ہے کہ وہ لوگ ہی نہیں رہے جو زبان کو سمجھتے اور اس پر عبور رکھتے تھے‘اب آدھے تیتر آدھے بٹیر آرہے ہیں کہ اردو جنہیں آتی نہیں اور انگریزی ان کی weakہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :