ہمارا حال بھی اُسی بادشاہ کی رعایا کی طرح ہے

پیر 7 دسمبر 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

بادشاہ سلامت کا در بار لگا تھا، فر یادی اپنی اپنی درخواستیں پیش کر رہے تھے کہ اس دوران کچھ لوگ بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نہایت ادب سے عرض کی:بادشاہ سلامت!”ہماری دو بستیاں ہیں جن کے درمیان ایک در یا حا ئل ہے جس سے ہمیں دو طر فہ آمد ورفت میں بہت پریشانی کا سامنا کر نا پڑتا ہے ، اگر نظر کرم فر ماتے ہوئے اگر ہمیں در یا کے اوپر پل تعمیر کر دیا جائے تو ہمیں اس پر یشانی سے نجات مل سکتی ہے“۔

بادشاہ نے وفد کی بات سُنی اور فوری متعلقہ محکمے کو مذکور ہ مقام پر پل تعمیر کر نے کے احکامات جاری کر دئیے۔بادشاہ کے حکم اورعملے کی دن رات محنت کی بدولت جب کچھ ہی دنوں میں پل تعمیر ہو گیا تو مشیروں کے ایک ٹولے نے بادشاہ کو رائے دی کہ وہ پُل کو استعمال کر نے والوں پر کچھ ٹیکس لگا دے اور اس سے وصول ہونی والی رقم کو مزید ایسے کاموں میں خرچ کر دیا جائے ۔

(جاری ہے)

باد شاہ نے پہلے تو اس فضول سی تجویز کو نظر انداز کیا لیکن پھر اہل در بار کی با ر بار تکرار سے تنگ آکر اس شرط کے ساتھ کہ جب لوگ میرے پاس شکایت لے کر آئیں گے اسے ختم کر دوں گا ،معمولی سا ٹیکس لگانے کے احکامات صادر کردئیے ۔
کئی عرصہ گذر نے کے بعد جب کوئی بھی شخص ٹیکس کے خلاف شکایت لے کر نہ آیا تو تو در باری ٹولے نے پل کے دونوں اطراف ٹیکس لگانے کی تجویز دی جو بادشاہ نے اس نیت کے ساتھ قبول کی کہ اس دفعہ تو لوگ ضرور میرے پاس شکایت لے کر آئیں گے۔

اس دفعہ بھی کئی روز گذرنے کے بعد بھی کوئی شکایت نہ آئی تو بادشاہ نے پل کے دونوں اطراف تعینات عملے کو احکامات جاری کئے کہ ہر آنے جانے والے شخص کو دو جوتے بھی مارے جائیں ۔ بادشاہ کا خیال تھا کہ اس دفعہ تو ضرور کوئی شکایت آئے گی لیکن ماضی کی طرح اس دفعہ بھی اُس کو مایوسی کا سامنا کر نا پڑا ۔ لہذا ا س بارشاہی حکمنامے میں ٹیکس کی رقم دوگنا اور ساتھ جوتوں کی تعداد بڑھانے کے احکامات جاری ہوئے ۔

ابھی کچھ روز ہی گذرے تھے کہ بادشاہ سلامت کو اطلاع ملی کے پُل والے علاقے سے کچھ افراد آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔بادشاہ سلامت خوش ہو ئے اور دل ہی دل میں یہ فیصلہ کیا کہ مین ان لوگوں کی شکایت پر ٹیکس اور جوتوں کی سزا ختم کردوں گا۔وفد در بار میں حاضر ہوا اور بولا:”با دشاہ سلامت ! ہم آپ کے پاس یہ درخواست لے کر حاضر ہوئیں ہیں کہ پل پر تعینات جوتے مار نے والے عملے کی تعداد میں اضا فہ کر دیا جائے تا کہ جوتوں کے انتظار میں جو وقت ضائع ہوتا ہے وہ نہ ہو“
تیسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں جب کراچی کے نتائج سامنے آئے تو کئی سالوں پہلے پڑھا یہ واقعہ نظروں کے سامنے آگیا ۔

وہ لوگ جنہوں نے کئی عشروں سے روشنیوں کے شہر کو خاک و خون کے آسیب زدہ اور جنازوں کے شہر میں تبدیل اوریہاں کے سکون اور امن کو گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اور بارود کی بو ُکی نظر کر دیا ہے ،آج ہم لوگوں نے ایک دفعہ پھر اِنہیں کامیاب کرا کے اُس بادشاہ کی رعا یا ہو نے کا ثبوت دیا ہے ۔
قارئین کرام !صرف یہ ہی نہیں بلکہ ہمارے وزیر خزانہ جو اپنے کارناموں کی وجہ سے ماضی کے شوکت عزیز و ترین اور حال کے اسحق ڈار کے نام سے پہچا نے جاتے ہیں نے حال ہی میں 400ایسی اشیا ء پر ٹیکس لگا یا ہے جو ان کے بقول عام آدمی کے استعمال میں نہیں ۔

ڈار صاحب اگر کچھ روز اور اس عہدے پر براجمان رہے توکچھ بعید نہیں کہ وہ قدرتی آکسیجن پر بھی لیوی لگا کر یہ نعرہ مستانہ نہ لگائیں کہ یہ عام آدمی کے استعمال میں نہیں اس لئے عام آدمی کی زندگی پر اس کے بد اثرات نہیں پڑیں گے۔ نا معلوم ان کی ڈکشنری میں عام آدمی کا مطلب کیا ہے ؟ لیکن مجھے یقین ہے کہ جیسے کچھ روز قبل ان کے زیر سایہ عملے نے غیر عقلی منطق کو ملحو ظ خاطر رکھتے ہوئے بجلی پر سبسڈی ختم کرتے ہوئے 300یونٹ استعمال کر نے والوں کو خوشحال اور500یونٹ استعمال کر نے والوں کو امیر گھرانے کی صف میں لاکھڑا کیا ہے بالکل ایسے ہی عام آدمی کے حوالے سے انہوں نے یہ بیان بھی کسی خاص قسم کی کیفیت میں دیا ہو گا ۔

با وثو ق ذرائع کے مطابق حکومت نے ملک کے چند صنعتکاروں ،جنہوں نے اپنے اپنے مفادات کے لئے مہنگائی کے جن کو بے قابو کر رکھا ہے اور طا قتور آٹو ز مافیا کے دباؤ پر درآمد کئے جانے والی استعمال شدہ گاڑیوں پر 10 فیصد اضافی ڈیوٹی عائد کر کے سستی گاڑیوں کو حصول نا ممکن بنا دیا ہے ۔
قارئین کرام !عام آدمی کے استعمال کی ضروری اشیا ء جن کی قیمتیں پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ، حالیہ ٹیکسوں کے کی وجہ سے یہ اس کی پہنچ سے بھی دور ہوتی جا رہی ہیں۔

لیکن اس کے باوجود عام آدمی ٹس سے مس ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور ٹیکسوں کے پے در پے احکامات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کو انجوائے کرتے لوگوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہم سب بھی اُس بادشاہ کی رعا یا کی مانند ہو چکے ہیں جنہیں ٹیکسوں اور جوتوں سے کوئی غرض نہیں ۔اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :