لبرل پاکستان

منگل 1 دسمبر 2015

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے بعض حلقوں میں حکومت کی وقعت ایک ایسے لاچار بچے سے زیادہ نہیں کہ جس کا کوئی والی وارث نہ ہو۔ حکومت وقت یا حکمران کوئی اچھا کا م کر بھی دیں تو اس کاذکر لازم نہیں بس کسی بھی پہلو سے حکمرانوں پر تنقید کا موقع ملنا چاہیے۔ حکومت میں اگر کچھ اوصاف موجود بھی ہیں ،کوئی اچھا کام وہ کر بھی لے تو اس کی توصیف کرنے یا اسے سراہنے کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ آزادی صحافت کا گلا خود کسی صحافی نے ہی گھونٹ دیا ہو۔

کچھ عجب نہیں کہ حکومت یا سربراہ حکومت کے کسی اچھے کام کی تحسین کرنے پر صاحب الرائے افراد کی ایک بڑی تعداد بھی آپ پر حکومتی پٹھو ہونے کا الزام دھر دے ۔ہم اگر یہ سوچنے کی بجائے کہ” کیا کہا جارہا ہے“ یہ سوچنے لگ جائیں کہ” کون کہہ رہا ہے“ تو معاشرتی بگاڑ میں سدھار نہیں آسکتا ۔

(جاری ہے)


جب سے وزیراعظم محمد نوازشریف نے پاکستان کی ترقی کے لئے لبرل ازم کے فروغ کی ضرورت و اہمیت سے متعلق بیان دیا ہے سماج کے بعض حلقوں کی شائد دم پر پاوٴں آگیا ہے اور وہ دامے درمے قدمے سخنے وزیراعظم کے اس بیان کے خلاف واویلا کر رہے ہیں ۔

سچی بات تو یہ ہے کہ سماج کے جن عناصر سے توقع تھی کہ وہ اس موقع پر وزیراعظم کی تائید کے لئے آگے بڑھیں گے ان کے طرز عمل سے مجھے مایوسی ہوئی ہے ۔ میری ناقص رائے میں وزیراعظم کے اس بیان کا پرجوش خیر مقدم کیا جانا چاہئے اورعالمی حالات کے تناظر میں اس کی پاکستان کی ریاست اور سماج کو ضرورت بھی تھی۔
خاص طور پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب کے بیان سے جو نفرت ٹپک رہی ہے وہ چھپائے نہیں چھپتی ، حالانکہ ان کا عام تاثر ایک دھیمے مزاج کے شخص کا ہے ۔

شخصی احترام اپنی جگہ لیکن سراج الحق صاحب کے بیان اور بھارت کی انتہا پسند تنظیموں کے بیانات کے پیچھے کارفرما سوچ میں کوئی خاص فرق مجھے ڈھونڈنے کے باوجود نہیں ملا۔اخبارات میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق امیر جماعت نے فرمایا ہے کہ ”لبرل پاکستان کے حامی بھارت چلے جائیں ،وزیراعظم نے یہ بیان دے کر عوام او ر دینی قوتوں کو مایوس کیا ہے“۔

ا س کا ایک مطلب تو یہ بھی ہے جماعت اسلامی کے کاغذوں میں بھارت ایک لبرل ریاست ہے اور اگر امیر جماعت یہ ہی سمجھتے ہیں تو پھر مزید مجھے کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں ۔ مجھے سراج الحق صاحب کی تعلیمی قابلیت پر کوئی شک نہیں بلکہ ڈگریاں عقل اور بصیرت کی علامت نہیں ہوا کرتیں ۔ تاریخ ایسے ناموں سے بھری پڑی ہے جنہیں نکمے قرار دے کر تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا لیکن ان شخصیات نے انسانیت کی خدمت کے لئے ایسے کارنامے سرانجام دیئے کہ دنیا آج بھی ان کی بصیرت کی معترف ہے ۔

مجھے نہیں معلوم کہ وزیراعظم کے اس بیان کے بعد لٹھ لے کر ان پر چڑھ دوڑنے والے مولیوں ( علماء کی بات نہیں ہورہی)اور سراج الحق صاحب کو لبرل کا مطلب بھی معلوم ہے کہ نہیں لیکن قارئین کی آسانی کے لئے میں یہاں تحریر کئے دیتا ہوں کہ لغت میں ”لبرل“ کے معنی ” دریا دل،سخی،فیاض، کریم،کشادہ دل،وسیع،کثیر،وافر،آزادمنش،صاف دل،کھرا،بے تعصب،حوصلہ مند،آزاد خیال اور حریت پسند “ درج ہیں ۔

اب مجھے نہیں معلوم کی سراج الحق صاحب کو پاکستانی ریاست کے اندران اوصاف میں سے کون سا پسند نہیں جو انہوں نے دل کھول کر اس بیان کی نہ صرف مخالفت فرمائی بلکہ یہ بھی فرمایا کہ اس سے عوام اور دینی حلقوں کو مایوسی ہوئی ۔ اللہ کی شان ہے کہ ”پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ ہونے والوں “ کی نظریاتی اولاد آج پاکستان کا مائی باپ بننے کی کوشش کر رہی ہے ۔

اورعوام!کس عوام کی بات کرتے ہیں یہ؟جس نے ستر برس میں ایک بار بھی ان کو اپنے اعتماد کے قابل نہیں سمجھا؟اقتدار نامی دلہن کے حصول کے لئے ہمیشہ انہوں نے کبھی آمر وقت اور کبھی سیاسی دھڑوں سے بے جوڑ اتحاد کئے لیکن آج تک اس ملک کو یا ملک کے عوام کو ایک مرلہ زمین پر بھی اپنا ”اسلامی نظام“ نافذ کر کے نہیں دکھا سکے ۔بلکہ نوجوانوں کی تربیت کے نام پر پاکستان کے تاریخی اداروں کی جڑوں میں جوپتھر جماعت اسلامی نے پھینکے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔

پنجاب یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی اس کی واضح مثالیں ہیں ۔
اللہ بخشے !قادری صاحب یاد آگئے ،برسوں پہلے کی بات ہے فیصل آباد کے چوک گھنٹہ گھر میں وہ منہاج القرآن کے ایک جلسے سے خطاب فرما رہے تھے۔ناچیز بھی وہیں موجود تھا! ایک نوجوان نے جوشیلے خطاب سے متاثر ہو کر نعرہ بلند کیا”انقلاب انقلاب“، اس سے پہلے کہ مجمع اس کا جواب دیتا قادری صاحب نے ہنستے ہوئے یہ مصرعہ کہا
یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا
ساتھ ہی کہا کہ مصطفوی انقلاب کے نعرے لگانے کی بجائے خود پر اگر آپ نظام مصطفےٰ ﷺنافذ کرلیں تو انقلاب خود بخود آجائے۔

خیر یہ توجملہ معترضہ تھا ،کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایم ایم اے کی پانچ سالہ حکومت کے دوران ( جس کا وزیراعلیٰ بننے کیلئے بیچارے اکرم درانی صاحب کو داڑھی رکھنی پڑی تھی کہ ملاں کا اسلام شائد اسی سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم)یا گزشتہ اڑھائی برس کے دوران جماعت اسلامی یا دوسری دینی جماعتوں نے کونسا تیر مارا ہے باوجود اس کے کہ ہر دور حکومت میں ذاتی طور پر ان جماعتوں کے کرتا دھرتا بہت مزے میں ہوتے ہیں ۔


باقی رہی بات دین کی تو سراج الحق صاحب تسلی رکھیں ،دینی حلقے وہ نہیں جنہیں آپ کی سند کی ضرورت ہو ۔ دینی حلقے وہ ہیں جو ہر انسان کے لئے بلاتخصیص مذہب و ملت رحم و کرم اور اچھے اخلاق کا مظاہر ہ کرتے ہیں ۔ کیونکہ حقیقی دینی حلقوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ شاہ ِمدینہ ﷺکی حیات طیبہ میں آپ ﷺ کی اجازت سے دنیا کی دوسری مقدس ترین مسجد ،مسجد نبوی میں ہی عبادت کرنے کا موقع ملاتھا۔

آج کے نام نہاد دینی حلقے اگر اس جیسی نہ سہی کوئی ملتی جلتی ہی مثال پیش کردیں تومیں مانوں۔کچھ ہی دن پہلے سینیٹ میں راجہ ظفرالحق نے رسول رحمت ﷺ کی سیرت سے ایک واقعہ کا ذکر کیا جب کسی غیر مسلم نے مسجد نبوی میں پیشاب کردیا ،صحابہ  اسے مارنے کو دوڑے تو رسول اللہ ﷺنے روکا!فرمایا اس کو کچھ نہ کہو بلکہ پیشاب والی جگہ پانی سے دھو ڈالو۔آجد دین فروش مولیوں نے ( ایک بار پھر وضاحت کردوں علما ء کی بات نہیں کررہا،دین اسلام کے علماء حق میرے لئے لائق تعظیم ہیں )مساجد کو ایسے تقسیم کیا ہے کہ سنی ،وہابی،دیوبندی ،شیعہ اور اہلحدیث کے چکر میں اللہ کا گھر کہیں کھو سا گیا ہے ۔

اللہ کے دین اور اس کے نام پر بننے والی اس مملکت خداد اد کو دریا دلی،سخاوت،فیاضی،کرم،کشادہ دلی ،وسعت قلبی،صاف دلی ،بے تعصبی ،حوصلہ مندی اورآزاد خیالی (شتر بے مہاری نہیں )سے کوئی خطرہ نہیں ۔ اور اگر یہ اوصاف ایک لبرل ریاست کے ہیں تو اسلام سے بڑالبرل دین دنیا میں نہ آیا ہے اور نہ آ سکے گا۔ واللہ عالم باالصواب
پس تحریر!
کالم ختم کر چکا تو مریم مختیار کا خیال آیا،پاکستان کی تاریخ میں جس نے وہ مقام پایا ہے کہ جسے قوم کی کوئی اور بیٹی نہ پاسکے گی۔

پاک فضائیہ کی پہلی شہید خاتون پائلٹ کا اعزاز اس نے اپنے نام کیا ہے۔دنیا بھر میں فضائی افواج کو حادثات پیش آتے رہتے ہیں لیکن پاک فضائیہ اس حوالے سے معتبرہے کہ پاکستان میں ایسے حادثات کی شرح بہت کم ہے اور ہمارے شاہین ایسی کسی بھی ممکنہ صورتحال میں سب سے پہلے عام شہریوں اور املاک کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں ۔ میانوالی حادثے میں بھی ایسا ہی ہوا مریم مختیار اور ان کے ساتھ موجود پائلٹ اگر چاہتے تو طیارے کو آبادی سے نکالنے کی کوشش کرنے کی بجائے خود طیارے سے کود جاتے ۔

لیکن انہوں نے جان کی پرواہ نہ کی اور مریم مختیار نے اپنی وردی کی لاج رکھی ۔میراخیال ہے کہ پاک فضائیہ کے سربراہ کو مریم مختیار کی اس بہادری کے اعتراف میں اس کے لئے بہادری کے تمغہ کی سفارش کرنی چاہیے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :