اکنامک کاریڈور اور پنجاب دشمنی

منگل 1 دسمبر 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

یقین سے یہ بتانا مشکل ہے کہ پاکستان میں پنجاب دشمنی کا فیشن کب شروع ہوا، تاہم یہ بیماری کافی قدیم ہے۔ سیاستدانوں اور دانشوروں کے ایک طبقے کو پنجاب میں کئے جانے والے ہر ترقیاتی کام اور ہر ایسے منصوبے سے جسکا فائدہ عوام اور پاکستان کو پہنچتا ہو خدا واسطے کا بیر ہے۔ اگر ملک میں کوئی ترقیاتی کام نہ ہو سب مل بانٹ کر کھاتے رہیں تو سیاستدانوں اور دانشوروں کے اس طبقے کو کوئی اعتراض نہیں، تاہم جہاں عوامی بھلائی اور ملکی ترقی کا کوئی منصوبہ سامنے آئے ، اس طبقے کے تن بدن میں آگ بھڑک اٹھتی ہے۔

کالا باغ ڈیم کوتو بھول ہی جائیں، اس رویے کی حالیہ مثال پاک چائنا اکنامک کاریڈور ہے۔ سیاستدانوں اور دانشورو ں کے ایک گروہ کی کوشش ہے کہ ساٹھ فیصد آبادی اور تقریباً ستر فیصدمہارت یافتہ افرادی قوت مہیا کرنے والے صوبہ پنجاب کو اس منصوبے سے مکمل طور پر نکال دیا جائے یا اس کے گنجان آبادی والے علاقوں کو اس منصوبے سے دور رکھا جائے۔

(جاری ہے)

پختون علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک معروف صحافی اس موضوع پر اکثر قلم اٹھاتے رہتے ہیں۔

آپ نے حال ہی میں دوبارہ اس موضوع پر اظہار خیا ل کیا ہے اور ایک ” قابل عمل فارمولہ“ بھی تجویز فرمایا ہے۔ آپ کے تجویز کردہ ”قابل عمل فارمولے“ کا ایک بنیادی نقطہ یہ ہے کہ پاک چائنا اکنامک کاریڈور منصوبے سے منسلک پچاس فیصد اکنامک زون ساڑھے تین فیصد آبادی رکھنے والے بلوچستان کو دیئے جائیں اور باقی ماندہ اکنامک زون بارہ فیصد آبادی رکھنے والے خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان میں تقسیم کر دیئے جائیں ، ہاں البتہ انرجی پراجیکٹس کے معاملے میں جناب کو جنوبی پنجاب پر ترس آگیا ، فرماتے ہیں اس معاملے میں سندھ اور جنوبی پنجاب کو ترجیح دی جائے۔

غرض پنجاب کے شمالی اور وسطی علاقوں جہاں پاکستان کی چالیس فیصد سے زائد آبادی رہتی ہے کو ہر صورت میں اس اکنامک کاریڈور سے باہر رکھا جائے۔ فرماتے ہیں کہ اگر وسطی پنجاب ، قوم کے ” وسیع تر مفاد“ میں اس ایک منصوبے کی قربانی دے دے تو کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ حضرت صحافی صاحب کا فرمانا بالکل صحیح ہے قیامت نہیں آئے گی، کیونکہ قیامت تو اُس وقت بھی نہیں آئی تھی جب پاکستان کی خاطر پنجاب اپنے سینے پر آرے چلوا کر دو ٹکڑے ہوگیا تھا، قیامت تو اُ س وقت بھی نہیں آئی تھی جب پنجاب کی لاکھوں بیٹیاں اور بیٹے ہجرت کا دکھ سہتے کٹ مرے تھے، قیامت تو اُ س وقت بھی نہیں آئی تھی جب پنجاب کے تقریباً سارے اہم دریا بھارت کو بیچ دئے گئے تھے، قیامت تو اُس وقت بھی نہیں آتی جب پنجاب کے سینے پر بیٹھ کر کالا باغ ڈیم کو بموں سے اُڑانے کے دھمکیاں دی جاتی ہیں، قیامت تو اُس وقت بھی نہیں آئی جب پنجاب میں کوئی بھی میگا پراجیکٹ لگانے کے بجائے دوسرے صوبوں کا انتخاب کیا گیا۔

قیامت تو اُ س وقت بھی نہیں آئی تھی جب پنجاب کے سیکڑوں مربع میل علاقے پروفاقی حکومت نے دارالحکومت بنانے کے لئے قبضہ جمالیا۔ قیامت تو اُس وقت بھی نہیں آئی جب تمام ڈیم دوسرے صوبوں میں بنائے جارہے تھے، قیامت تو اُس وقت بھی نہیں آئی جب سارے سرکاری بینکوں کے ہیڈ کوارٹر دوسرے صوبوں میں بنائے گئے، قیامت تو اُس وقت بھی نہیں آئی جب قومی ائر لائن کا ہیڈ کوارٹر اور ھب دوسرے صوبے کو بنایا گیا، قیامت تو اُس وقت بھی نہیں آئی جب سرکاری شعبے میں اسٹیل کاسب سے بڑا پیداواری یونٹ دوسرے صوبے میں لگایا گیا، قیامت تو اُس وقت بھی نہیں آئی جب تیل اور گیس کی تلاش کے اداروں سمیت سارے اہم سرکاری ملکیتی اداروں کے ہیڈ کوارٹر دوسرے صوبے میں بنائے جارہے تھے۔

قیامت کا قِصہ سُنا کر ہمارے صحافی بھائی اپنے دیگر بھائی بندوں کی طرح ایسا جھوٹا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے پاکستان کی وفاقی حکومتوں نے وسطی پنجاب میں میگا پراجیکٹس کے ڈھیر لگادئے ہیں۔در حقیقت یہ قِصہ طوطا مینا کی وہی کہانی ہے جو اکثر صحافی اور سیاسی حضرات جانتے بوجھتے دھرائے چلے جاتے ہیں، حقیقت اسکے برعکس ہے۔ لاہور۔اسلام آباد موٹر وے انکو بری طرح کھٹکتا ہے اور یہ جان بوجھ کر اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ پشاور۔

اسلام آباد موٹر وے بھی موجود ہے اور ملک کے دیگر حِصوں بشمول کراچی۔حیدرآباد موٹر وے پر بھی کام جاری ہے۔ حضرت صحافی یہ بھی فرماتے ہیں کہ مغربی روٹ کو اپنانے کی صورت میں راضی بلوچ بھی ناراض ہو جائیں گے اور پاکستان کے شیدائی پختون بھی بگڑ جائیں گے۔ چلیں اگر صحافی صاحب کی لاجک پر بات کی جائے تو جب ساڑھے تین فیصد آبادی کے صوبے میں پچاس فیصد اکنامک زون بنیں گے تو ان اکنامک زون میں کام کرنے کے لئے ورکروں کی اکثریت کہاں سے آئے گی؟ جب پنجاب اور کراچی سے مہارت یافتہ صنعتی کارکن بلوچستان جائیں گے تو ”راضی “ بلوچ بھائی دوبارہ ” ریڈ انڈین“ بننے کے اندیشے سے دوچار ہوجائیں گے اور انکو دوبارہ اُسی طرح پنجابیوں کا شِکار کرنا پڑے گا جیسے اِن دِنوں جاری ہے۔

صحافی بھائی کو اس کا بھی کوئی ”قابل عمل“ حل تجویز کرنا پڑے گا۔ چین کے اعتراضات کی بات تو بالکل من گھڑت ہوگی کیونکہ مسلم لیگ ن کی حکومت پر تو ظاہر ہے صحافی بھائی کو کوئی اعتبار نہیں۔ مان لیتے ہیں کہ چینی حکومت چاہتی ہے کہ آبادی سے بھرپور، بڑی مارکیٹوں اور افرادی قوت کے حامل علاقوں کو چھوڑ چھاڑ کر ویرانوں میں سرمایہ کاری کی جائے۔

مگر صحافی بھائی سے یہ پوچھنے میں کیا حرج ہے کہ چینی سرمایہ کار جب ایسے ویران علاقوں میں جہاں سو سو کلومیٹروں کے بعد دس بیس گھروں کے گاوٴں نظر آتے ہیں، کروڑوں ، اربوں کی سرمایہ کاری کریں گے تو ورکرز کہاں سے لائیں گے۔
جہاں تک پاکستان کے شیدائی پختونوں کے بگڑنے کی بات ہے تو ہمارے صحافی بھائی اطمینان رکھیں ، افغانستان کے پڑوس میں رہنے والے ہمارے پختون بھائی نہیں بگڑیں گے۔

پختون بھائی اپنی آبادی کے تناسب کے مقابلے میں وفاقی سرکاری ملازمتوں میں دگنے سے بھی زیادہ حِصہ رکھتے ہیں۔ پختون بھائیوں کے کاروبار بلا مبالغہ خیبر سے کراچی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ سندھ کے دارالحکومت کراچی کو پختون آبادی کا سب سے بڑا شہر کہا جاتا ہے۔ پنجاب اور سندھ کے ہر چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں پختون بھائیوں کے کاروبار جاری و ساری ہیں۔

بھاری ٹرانسپورٹ کے شعبے میں پختون بھائیوں کا حِصہ ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ پنجاب اور سندھ کے تمام بڑے شہروں میں پرائیویٹ انٹر سٹی ٹرانسپورٹ، ریستورانوں، چائے خانوں، ایندھن،،پشاوری چپلوں، غیر ملکی کپڑوں، خشک پھلوں کے کاروبار اورپرائیویٹ سیکیورٹی کے شعبوں میں پختون بھائیوں کا بہت بڑا حِصہّ ہے۔ کارخانوں میں غیر مہارتی شعبوں میں بھی پختون بھائیوں کی ایک بڑی تعدا د بر سر روزگار ہے۔

پورا صوبہ خیبر پختونخواہ اپنے تمام تر وسائل اور اٹھارہویں ترمیم کے ساتھ پختون بھائیوں کے مکمل کنٹرول میں ہے۔ آدھا صوبہ بلوچستان حکمرانی کے اختیارات کے ساتھ پختون بھائیوں کے کنٹرول میں ہے۔ فاٹا کی تمام سات ایجنسیاں پختون بھائیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ پاکستان کے ایوانِ بالا سینیٹ میں پختون بھائیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ سینیٹ کے کل ایک سو ارکان میں سے پختون بھائیوں کی تعداد بیالیس ہے۔

پختون ، پاکستان کی وہ واحد قومیت ہے جِسے پاکستان کے چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی حاصل ہے۔ ہر صوبے کی صوبائی اسمبلی میں پشتو زبان بولنے والے پختون بھائی موجود ہیں۔پاک چائنا اکنامک کاریڈور سے بھی سب سے زیادہ فائدہ پختون بھائیوں کو ہی ہوگا ۔
پاکستان کی وفاقی حکومت کی کوشش ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کے حق میں بہتر ثابت ہو اور اس منصوبے سے پاکستان کے ہر علاقے کے عوام کو فائدہ حاصل ہو۔ مگر تعصب زدہ لوگ ، لسانیت اور علاقائیت کی عینک لگا کر اِس منصوبے کو بھی کالا باغ ڈیم کی طرح متنازعہ بنانا چاہتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :