پانچ ہزار کا چیک !

منگل 1 دسمبر 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

کوئی آپ کے گھر میں ڈاکہ ڈالے ،پھر لوٹی ہوئی رقم میں سے پانچ دس ہزار روپے آپ کو واپس لوٹا دے اور ساتھ احسان بھی جتلائے آپ کو کیسا لگے گا ؟؟؟
آپ کو اچھا گے نا لگے لوٹنے والے کو بہت اچھا لگے گا ، مال بھی ہاتھ آ گیا ، عزت سادات بھی بچ گئی اور الٹا احسان بھی جتلا دیا کہ دیکھو لوٹنے والا کتنا سخی اور نرم دل ہے ،ساتھ میں کچھ پیسے میڈیا کو لگا دیئے کہ تم اس ”تاریخی پیکج“کو بڑھا چڑھا کر پیش کرو ۔

باقی اللہ اللہ خیر سلا۔
جی ہاں میں وہی بات کر رہا ہوں جو آپ سوچ رہے ہیں ”تاریخی کسان پیکج“۔ پہلے بیچارے کسانوں کو لوٹا گیا ، انہیں کنگھال کیا اب وہی لوٹی ہوئی رقم انہیں واپس لوٹا کر احسان جتلایا جا رہا ہے کہ ہم نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا پیکج دیا ہے ۔

(جاری ہے)

جھوٹ ،دھوکے اور ڈرامے بازی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ،یہ سمجھتے ہیں سب الو بیٹھے ہیں ، ہم کوے کو سفید کہیں یا سیاہ کون سا کسی نے پوچھ لینا ہے ، بس اپنا منجن بیچو، پانچ سال پورے کرو ، جیبیں بھرو اور شوکت عزیز اور زرداری کی طرح باہر جا کر موجیں کرو ، رہا یہ ملک تو یہ جائے بھاڑ میں ہم نے کون سا یہاں رہنا ہے ۔


چاول کی فصل کے حوالے سے پاکستان دنیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جہاں دنیا کا بہترین چاول پیدا ہوتا ہے ۔قصور ، شیخوپورہ، گوجرانوالہ، حافظ آباد اور نارووال وہ علاقے ہیں جہاں دنیا کا بہترین چاول کاشت کیا جاتا ہے ۔ مشرف دور میں چاول کی فصل پچیس سو روپے سے تین ہزارروپے فی من کے حساب سے بکی تھی اس بار وہی فصل ہزار سے پندرہ سوروپے من کے حساب سے فروخت ہو رہی ہے ۔

اگر اوسط فصل پینتیس من فی ایکڑ کے حساب سے نکلے تو یہ چالیس سے پچاس ہزا ر روپے مالیت کی بنتی ہے جبکہ ایک ایکڑ چاول کی فصل کی کاشت پر تقریبا بیس سے پچیس ہزار روپے خرچ آتا ہے ،ساری گرمیاں دھوپ میں جلسنے کا یہ صلہ ملا ہے کسان کو ۔ اب اگر کسان کو چھ ماہ کی محنت کے بعد صرف پندرہ سے بیس ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے بچیں گے تو کسان روئے گا نہیں تو اور کیا کرے گا۔

ساری گرمیاں دھوپ اور گرم لو میں جلنے کے بعد انہیں کیا مل رہا ہے ،صرف چند ہزا رروپے ؟داد دیجئے وزیر اعظم صاحب، ان کی پوری کابینہ اور ان کے پالیسی میکرز کو ،اور ان تمام زگوٹا جنوں کو جو گرمیوں میں سردیوں کے مزے لیتے ہوئے ایسی ادھوری اور نامکمل پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں ۔ مشرف دور میں یہی فصل ستر سے اسی ہزا ر روپے فی ایکڑ کے حساب سے بکتی تھی ،دونوں قیمتوں میں کتنا فرق ہے اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں ۔


اب آپ دیکھیں جس بندے کی فصل ستر سے اسی ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے بکنی تھی وہی فصل اب چالیس ہزار میں بک رہی ہے ، گویا ہمارے یہ بادشا ہ سلامت تیس ،چالیس ہزار روپے کا خسارہ پانچ ہزارروپے کا چیک دے کر پورا کرنا چاہتے ہیں اور پھر ساتھ احسان بھی جتلا رہے ہیں ، ہے نا کمال کی بات ؟؟کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں کہ یہ مذاق بند کر و ، بیس کروڑ عوام کو پاگل بنایا ہوا ہے ۔

کرنے کا جواصل کام ہے وہ یہ لوگ نہیں کریں گے ،منڈی کی حالت ٹھیک نہیں کریں گے بلکہ ”کسان پیکج “ کی ڈگڈگی بجا کر عوام کو پاگل بناتے رہیں گے ۔
عوام اور ملازمت پیشہ طبقے کو تو انہوں نے پہلے ہی لائنوں میں کھڑا کیا ہوا تھا اب بیچارہ کسان بھی ان کے ہتھے چڑھ گیا ہے ۔ اچھے بھلے شریف اور وضع دار کسانوں کو بھی انہوں نے کھیتوں سے اٹھا کر قطاروں میں کھڑا کر دیا ہے۔

آپ شہر میں نکل جائیں آپ کو اکثر بینکوں کے سامنے ایسے کسانوں کی لمبی قطاریں نظر آئیں گی جوپانچ ہزار کا چیک تھامے صبح سے شام تک اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں اور شام کو باری نہ آنے پر خالی ہاتھ واپس لوٹ جاتے ہیں ،جو تھوڑی بہت عزت نفس باقی تھی انہوں نے وہ بھی نہیں رہنے دی ۔ کوئی ان سے کہے کہ بھولے بادشاہو آپ عوام کو اور کچھ نہیں دے سکتے تو کم از کم ان کی عزت نفس تو باقی رہنے دو ،انہیں قطاروں میں کھڑا کر کے رسوا تو نہ کرو۔

جب کوئی ستر سالہ کسان سر پر بڑی سی پگڑی باندھے پانچ ہزار کا چیک تھامے ایک لمبی قطار میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کرتا ہوا نظر آئے گا تو آپ کو کیسا لگے گا ؟؟؟کہتے ہیں پچھلے زمانے میں شر م نام کی کوئی چیز ہوتی تھی کسی کو ملے تو اسے اسلام آباد یا جاتی عمرہ کا راستہ دکھا دے ۔
ویسے ”یہ لوگ “ڈرامے بازی کے بڑے ماہر ہیں ، ایسی فلم چلاتے ہیں کہ کسی کو شک تک نہیں ہوتا ۔

آپ کو یاد ہو گاجب روٹی دوروپے کا اعلان کیا گیا تھا تو ہمارے وزیر اعلیٰ صاحب ہر وقت روٹی روٹی کرتے نظر آتے تھے اور کئی بار تو ان کی تقریر روٹی سے شروع ہوتی اور روٹی پے ختم ہو جاتی تھی ۔جب آٹے کی ترسیل کی باری آئی تو اپنی ہی جماعت کے کچھ لوگوں نے سستے آٹے کے تھیلے مارکیٹ میں بیچنا شروع کر دیئے ، موصوف کو پتا چلا تو آٹے کے تھیلے ٹی سی ایس کے ذریعے روانہ کیئے جانے لگے ، وہی جنگل کے شیر والی بات انڈے دے یا بچے کسی کی کیا جرات کہ سوال کرے ،عوام کو روٹی تو دو روپے کی نہ مل سکی لیکن ملکی خزانے کو تیس ارب روپے کا ٹیکہ ضرور لگ گیا ، اب آڈیٹر جنرل کی کیا جرات کہ وہ حساب کرے ، کہا گیا ترسیل کا سارا ریکارڈ غائب ہو چکا ہے ،کرلو جو کرنا ہے یہ بیٹھے ہیں۔

کچھ عرصے بعد انہی لوگوں نے پنجاب میں فوڈپروگرام شروع کیا تھا جس کے تحت چھ لاکھ غریب شہریوں کو ایک ہزا ر روپے نقد دیئے جانے تھے ،چودہ ارب روپے خزانے سے تو نکل گئے لیکن ابھی تک یہ پیسے بیچارے غریبوں تک نہیں پہنچے شاید راستہ بھول کر جاتی عمرہ کی طرف چلے گئے ہوں ۔
اسی طرح کا ایک ڈرامہ اس سال کے شروع میں بھی کیا گیا تھا جب وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے قوم کو چنیوٹ میں زیر زمیں سونے چاندی، تانبے اور لوہے کے ذخائر کا سندیسہ سنایا تھا ،میڈیا پر وہ شور مچایا گیا تھا کہ خدا کی پناہ، لگتا تھا اگلے آنے والے سالوں میں ساری دنیا کشکول پکڑ کے پاکستان کے در پر کھڑی ہو گی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔

ان ذخائر اور ان کی دریافت کی کہانی کیا ہے یہ بھی سن لیں ۔ یہ ذخائر آج سے 26سال قبل 1989میں دریافت ہوئے تھے اور اس وقت میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے ،1989سے1999تک میاں برادران اقتدار میں رہے لیکن تب یہ ذخائر انہیں نظر نہیں آئے اور اب بھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ مسلسل آٹھ سال سے اقتدار میں ہیں لیکن یہ سونے چاندی، تانبے اور لوہے کے ذخائر انہیں آج کیوں یاد آ رہے ہیں ؟؟یہی اصل کہانی ہے ۔

ان مبینہ ذخائر کو نکالنے کے لیئے اپنی کمپنی بنانے اور اس کے لیئے ضروری اقدامات کرنے تک انہیں موٴخر رکھا گیا ، اب ایک گمنام کمپنی ای آر پی ایل کو بغیر ٹینڈر یہ ٹھیکہ دے دیا گیا ہے اور یہ کمپنی بیرون ملک مقیم کسی ”نامعلوم“پاکستانی کے نام ہے اور اس کمپنی کو 1200ملین کی ادائیگی بھی کر دی گئی ہے ۔
کیا سمجھے ،یہ ہوتی ہے سیاست اور ایسے مال بنایا جاتا ہے ۔میرے خیال میں اب تو آپ کوتاخیر کی وجہ سمجھ میں آ جانی چاہیئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :