فتنہ کا زمانہ

اتوار 29 نومبر 2015

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

اسلام سے پہلے بھی ہر امت کو فتنہ کے زمانے سے خبردارکیا جاتا رہا نبی کریمﷺ کی بے شمار احادیث ہیں جن میں آپ ﷺ نے اپنی امت کو اس زمانے کے بارے میں خبردار کیا ہے مسندامام احمد بن حنبل میں روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا”عنقریب لوگوں پر ایسا وقت آئے گا جب ہر طرف دھوکہ ہی دھوکہ ہوگا‘جھوٹے کو سچا ‘سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا‘خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا اور ”روبیضہ“خوب بولے گا عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ روبیضہ کون ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا عوام الناس کے معاملات میں بولنے والے نااہل ترین لوگ“فتنہ کے زمانے سے متعلق ایک اور حدیث میں آپ ﷺفرمایا”لوگ دن کو کافراور رات کو مسلمان ہونگے اور رات کو کافرتو دن کو مسلمان ہونگے“اب کفر کیا ہے ؟انکار کسی بھی حکم یا چیزسے انکار کفر کہلائے گا ہمارے ‘آپ کے گرد کتنے لوگ ہیں جو دن بھر جھوٹ بولتے ‘دوسروں کا حق کھاتے‘رشوت خوری کرتے‘گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں مگر راتوں کو یہ عبادتیں کرتے ہیں ‘اسی طرح کتنے لوگ ہم دیکھتے ہیں متقی اور پرہیزگاروں کا روپ دھارے پھرتے ہیں دن بھر مگر رات ہوتے ہی ان کے اندر کا شیطان باہر آجاتا ہے‘کتنے ”علماء کرام“ہیں جن کی شراب نوشی کی داستانیں مشہور ہیں ‘کتنے لوگ ہیں جو ہرسال حج اور عمرے کرتے ہیں رشوت اور حرام کے پیسے سے‘ہرطرف ایک افراتفری ہے ‘نفسا نفسی ہے ہرکوئی اللہ اور اس کے رسولﷺکے حکام میں ”گنجائش“نکال رہا ہے اپنی مرضی کی تشریحات کی جارہی ہیں ”روبیضہ“بھی خوب بول رہا ہے کیا آج کا میڈیا ”روبیضہ“کا کردارادانہیں کررہا؟چند ٹکوں کی خاطر وہ کون سا گناہ اور جرم ہے جس کا مرتکب نام نہاد روشن خیال میڈیا نہیں ہورہا؟آج کا انسان فطرت کو”بائی پاس“کرنے کے لیے تمام ترتوانائیاں لگا رہا ہے مگرہم بھول جاتے ہیں کہ انسان نے جب بھی فطرت کو ”بائی پاس“کرنے کی کوشش کی اس پر عذاب کا کوڑا برسا اور تاریخ انسانی میں جتنی تہذیبوں کو نیست ونابود کیا گیا اس کی بنیادی وجہ انسان کا فطرت کو کھلا چیلنج تھا8000قبل مسیح میں قوم ادریس علیہ السلام‘6000قبل مسیح میں قوم نوح علیہ السلام‘3500قبل مسیح قوم(قوم عاد) ھود علیہ السلام‘2700قبل مسیح قوم ثمود‘1800قبل مسیح قوم لوط علیہ السلام‘2100قبل مسیح قوم شعیب علیہ السلام اگر سب تہذیبوں اور قوموں کی تباہی کا اجماعی جائزہ لیا جائے تو قرآن کے بیان کے مطابق ان سب کی بربادی قانون فطرت کے عین مطابق اللہ کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی وجہ سے عمل میں لائی گئی اور پھر قرآن نے واضح فرمایا ہے کہ ”ہم دیں گے تمہیں چھوٹا عذاب بڑے عذاب سے پہلے کہ شاید تم رجوع کرلو“توقدرتی آفات جو دنیا کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں اور قتل وغارت گری اللہ کی سنت کے مطابق اتمام حجت ہے‘مگرہمارے لبرل دوست ‘ہمارے لبرل اہل قلم اور لیڈرحضرات قدرتی آفات کی سائنسی توجیحات پیش کرتے ہیں اور جنگ وجدل کی سیاسی احمد فرازنے جو”نوحہ گری “کی تھی اس پر غور کریں تو ہمیں یہ تمام کردار اپنے گردوپیش نظرآتے ہیں -
مرے اہل حرف وسخن سرا‘ جو گداگروں میں بدل گئے
مرے ہمعصر تھے حیلہ جو‘ کسی اور سمت نکل گئے
مری عدل گاہوں کی مصلحت‘ مرے قاتلوں کی وکیل ہے
مری جانقاہوں کی منزلت‘ مری بزدلی کی دلیل ہے
میرے وطن کی عدل گاہوں میں جو کچھ ہورہا ہے اب وہ ڈھکا چھپا تو کچھ ہے نہیں کہ ایک ماں ملک کی سب سے بڑی عدالت کے روبروکہتی ہے کہ اس کے بیٹے کے قاتل طاقتور ہیں وہ اپنی بیٹیوں کی عفت اوراپنی جانوں کو بچانے کے لیے چاہتے ہوئے بھی کوئی کاروائی نہیں چاہتے‘طاقتور ملزمان کے خوف اور پیسے کی چمک سے عدالتوں میں آکرگواہ منحرف ہوجاتے ہیں ‘ایان علی جس پر غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے تھا ہمارا انصاف کا نظام ان مگرمچھوں کے سامنے بے بس ہے جن کے بقول ”بوٹوں والے اس کی ایک مکھی(ایان علی)کا کچھ نہیں بگاڑ پائے تو میرے مگرمچھوں کو کیا پکڑیں گے“یہ لمحہ فکریہ ہے تمام متعلقہ اداروں کے لیے ‘یہ کیسا انصاف ہے کہ دس روپے کی چوری والے کو تو لٹکا دیا جاتا ہے مگر جب دس ارب کی چوری والے کی باری آتی ہے تو ہماری عدالتیں بے بس کیوں ہوجاتی ہیں ؟منصفوں کے قلم کیوں لرزنے لگتے ہیں؟سب کو علم ہے کہ اربوں ‘کھربوں کی چوریوں کے کوئی ثبوت نہیں ہوتے کہ حکومتوں میں میں بیٹھ کے یہ لٹیرے ثبوتوں کو ساتھ ساتھ دفن کرتے چلے جاتے ہیں ‘آصف علی زرداری کے خلاف کیس کو نیب کے ایک بیان پر فارغ کردیا جاتا ہے کہ اصل دستاویزات نہیں مل سکیں ‘کسی عدالت نے نیب کے افسران کو پکڑکر پوچھا کہ اگر اصل دستاویزات نہیں تھیں تو کیس پر قوم کا وقت اور پیسہ کیوں برباد کیا گیا ہے؟طاقتور لوگوں کے خلاف ہی ثبوت کیوں غائب ہوتے ہیں ؟کوئی منوں کے حساب سے سونا اسمگل کروا رہا ہے تو کسی کے لانچ کے ذریعے کروڑوں ڈالرپکڑے جاتے ہیں ‘بندے گرفتار ہوتے ہیں مال پکڑا جاتا ہے مگر جب معاملہ عدالتوں میں آتا ہے تو سب کچھ خاک ہوجاتا ہے‘آصف علی زرداری کی ”مکھی“کو تو اڑانے کی تیاریاں ہورہی ہے مگر اس کو پکڑنے والا افسر قتل کردیا جاتا ہے تو کچھ نہیں ہوتا ‘سب خاموش ‘مٹی کے مادھو‘بیس کروڑ”ڈنگر“زرداری بے گناہ‘شریف بردران معصوم‘سب کو کلین چٹیں ایک ہی بار میں کیوں جاری نہیں کردیتے بندکرو یہ احتساب کی ڈرامہ بازی 20کروڑڈھورڈنگربڑے خوش تھے کہ جنرل صاحب نے کہہ دیا ہے اب کوئی نہیں بچے گا ‘اب ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ رہے ہیں کہ ایک ایک کرکے سب کو کلین چٹیں مل رہی ہیں تو گنہگار اور مجرم پھر یہ20کروڑ ہوئے ناں ‘مارو ایک اٹیم بم ان پر ختم کرو اس قصہ کو -کتنی نوحہ گری کروں کہ اب تو آنسو بھی خشک ہوچکے‘آنکھیں پتھرا چکیں ‘حق کے ساتھ چلنے اور جینے والوں کو یہی انجام ہوتا ہے‘بہرحال بات ہورہی تھی صدرممنون کی تو کیا ملک کے آئینی سربراہ کو علم ہی نہیں کہ سود حدود اللہ میں آتا ہے لہذا اس میں ”گنجائش“نکالنا کسی مفتی‘شیخ القرآن‘شیخ الحدیث یا مفتی اعظم کے اختیار میں نہیں کہ یہ اللہ کی قائم کردہ حد ہے جس میں نعوذبااللہ قرآن کو بدلے بغیر”گنجائش“نہیں نکالی جاسکتی صدرممنون کا یہ بیان لاشعوری ”بونگی“نہیں ہے جسے نظراندازکردیا جائے کیونکہ وہ لکھی ہوئی تقریرپڑھتے ہیں اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے یہ تقریرکو پہلے سے نہ دیکھا ہو ‘پھر انہیں تقریرکی کئی ”گھروں“سے منظوری لینا ہوتی ہے تو اسے ہومیوپیتھک قسم کی ”بونگی“تصور نہیں کیا جانا چاہیے جیسا کہ میڈیا کے کچھ حضرات کوشش میں لگے ہیں کہ یہ تاثردیا جائے کہ صدر صاحب نے محض ایک ”بونگی“ماری ہے لہذا اسے نظراندازکیا جائے ‘یہ ایک "tester"تھا چیک کرنا مقصود تھا کہ ابھی اس قوم میں کتنا”کرنٹ“باقی ہے منشی اسحاق ڈار بہت عرصے سے اس کوشش میں مصروف ہیں کہ ”گنجائش“نکالی جائے کیونکہ بین القوامی ساہوکاروں کا دباؤ بہت زیادہ ہے لبرل پاکستان کا نعرہ بھی کوئی ”بونگی“نہیں تھی جو وزیراعظم صاحب نے ماری تھی بلکہ وہ بھی "tester"ہی تھا ‘محکمہ ایکسائزکے ایک صوبائی وزیرنجی محفل میں گفتگو فرمارہے تھے موضوع ایک اقلیتی رکن پنجاب اسمبلی کی جانب سے شراب کے پرمٹ ختم کرنے کے حوالے سے جمع کروائی جانے والی ایک قرارداد تھا وزیرموصوف نے واشگاف الفاظ میں فرمایا اس قراردادپر سب سے زیادہ مخالفت کابینہ کی طرف سے ہے‘یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کے ”مقدس“ایوانوں کا ہر رکن حلف اٹھاتا ہے کہ وہ آئین کی پاسداری کرئے گا وہ آئین جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں کوئی بھی قانون قرآن اور سنت کے منافی نہیں بنایا جائے گامگر اسی آئین کی کتاب میں ہزاروں کی تعداد میں قوانین ایسے ہیں جو قرآن اور سنت کی کھلی خلاف ورزی ہیں ‘سود اور شراب کی فروخت کے پرمٹس کا معاملہ ہی لے لیں کیا یہ تکنیکی طور پر آئین کی خلاف ورزی نہیں؟صدرصاحب کے بیان کو "tester"اس لیے بھی کہا ہے کہ ذرا ذہن پر زوردیں میاں نوازشریف کے پہلے دور حکومت میں جب شریعت کورٹ نے سود کے خلاف فیصلہ دیا تو وفاقی حکومت خود فریق بن کر چلی گئی تھی اس فیصلے کے خلاف مگر اسی دوران ان کی حکومت چلی گئی ‘بے نظیربھٹوکی حکومت آئی تو شریعت کورٹ اپلیٹ بنچ کے کچھ جج حضرات ریٹائرڈہوگئے تو ان کی حکومت نے شعوری طور پر بنچ مکمل نہیں ہونے دیا ‘میاں نوازشریف کی حکومت دوبارہ آئی تو وہ بے نظیربھٹو کی اس ”پالیسی “پرقائم رہے کہ کسی بھی صورت شریعت کورٹ کے بنچ کے مکمل نہ ہونے دیا جائے تو یہ ہے اس "tester"کا پس منظر‘افتخارمحمد چوہدری کے جوڈیشل ایکٹوازم کے زمانے میں ایک ایسا اقدام کیا گیا جوکہ انتہائی شرمناک تھا یہ وہی زمانہ تھا جب دنیا بھر میں ہم جنس پرستوں کے ”حقوق “کو دنیا کا سب سے بڑا”مسلہ“بناکرپیش کیا جارہا تھا اور ابلیسی لشکرکا ہراول دستہ میڈیادن رات اس پر واویلا مچا رہا تھا روئے زمین کی اس غلیظ ترین مخلوق کو مظلوم بناکر پیش کیا جارہا تھا یہ ایک بین القوامی ایجنڈا تھا جس کے تحت اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان نے ازخود نوٹس کے ذریعے ایک انتہائی شرمناک بحث کا آغازکیا ‘وراثت کے حوالے سے ملک میں قانون بھی موجود ہے اور عدالتیں بھی اگر کسی خاندان میں کسی قانونی وارث کو اس کا جائزحق نہیں دیا جاتا تو فریق سول کورٹ میں دعوی دائرکرتا ہے مگر کوئی ایسی مثال پیش نہیں کی گئی اس کیس میں‘دوسرا جوازاختیار کیا گیا کہ ہیجڑوں کو شناختی کارڈ جاری نہیں کیئے جاتے تو کیس کے دوران ہی یہ جھوٹ اس طرح کھل گیا جب نادرا نے جواب داخل کروایا کہ ہیجڑے باپ کی جگہ اپنے گروکا نام لکھواتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے شناختی کارڈ نہیں بن پاتے‘کیا قانون اجازت دیتا کہ کوئی شہری والد کے نام کے خانے میں کسی اور نام لکھواسکے؟مشرف دور میں آج کے ایک بڑے”سچے“ اور ”کھرے“صحافی ‘ایک پروگرام کے میزبان اور ایک انگریزی اخبار کے صحافی نے مل کر اسی عالمی ایجنڈے کے تحت" Pakistan Gays and Lesbians Association"رجسٹرڈکروانے کی کوشش کی مگر کچھ ”اداروں“نے بروقت مداخلت کرکے اس کو روک دیا ورنہ آج پاکستان میں ہم جنس پرستوں کی باہمی شادیاں سب سے بڑا ”قومی مسلہ“ہوتا جس طرح امریکہ اور یورپ میں ہے رواں سال مئی اور جون میں جب امریکی سپریم کورٹ میں ہم جنس پرستوں کی باہمی شادیوں کے حوالے سے کیس زیرسماعت تھا تو میڈیا اور سیاستدانوں نے پورے ملک میں ایک ہیجان برپا کررکھا تھا ایسا تاثردیا جارہا تھا کہ ہم جنس پرستوں کوباہمی شادیوں کی اجازت مل جائے تو عام امریکیوں کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے حتی کہ جب حسب توقع سپریم کورٹ کا فیصلہ ہم جنس پرستوں کے حق میں آیا اور سپریم کورٹ نے ان کے ”حق“کو تسلیم کرلیا تو صدر اوبامہ نے ذاتی طور پر امریکہ کی Gays and Lesbiansتنظیم کے عہدیدارکو فون کرکے مبارکباد پیش کی جسے پورے امریکہ کے میڈیا نے نشرکیا مگر عام امریکی کی زندگی اسی طرح ہے وہ دووقت کی روٹی کے لیے جس کرب سے گزرتا ہے اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جس نے عام امریکیوں کی زندگی کو قریب سے دیکھا ہو‘امریکہ کی کئی ریاستوں میں گیا ہوں عام امریکیوں سے ملا ہوں ان کے درمیان میں رہ کر ان کے معمولات اور زندگی کو بہت قریب دیکھا ہے پاکستان کی طرح امریکہ میں بھی ایک اشرافیہ مسلط ہے جو جونکوں کی طرح چمٹی ان کا خون چوس رہی ہے ‘یورپ سمیت پوری دنیا میں نظریں دوڑالیں ایک ابلیسی نظام ہے جو کہ پوری دنیا کو جکڑے ہوئے ہے رقص ابلیس جاری ہے ہرسو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :