پاکستان میں خواتین پر تشدد کا عالمی دن

اتوار 29 نومبر 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

لاہور کی مختلف شاہراوں پر بڑئے خوبصورت بینر آویزاں ہیں جن پر وزیر اعلی پنجاب کی مسکراتی ہوئی تصویر یہ کہہ رہی ہے کے کہ خواتین پر تشدد ، حراسمنٹ، چھیڑ خوانی، کم عمری کی شادی کے خلاف قانون بن چکے ہیں جس نے ان کی خلاف ورزی کی اس کی خیر نہیں۔ اس اقدام کو اچھا قرار دیا جانا چاہیے کہ عوام میں اس بات کا شعور اجاگر ہونے کے ساتھ خواتین اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی طرح کے ظلم وزیادتی کے خلاف درج شدہ نمبروں اور اداروں میں شکایت کر سکیں۔

ہم انہیں صفحات میں بار ہا اس بات کاتذکرہ کر چکے ہیں کہ ایک اکیلا وزیر اعلیٰ صوبہ پنجاب کی دس کروڑ سے زائد آبادی کی دسترس میں کیسے آسکتا ہے اور ہر خواتین کے ساتھ ہونے والے ”کسی“ بھی طرح کے واقعے کے بعد وہ اس کے سر پر” شفقت“ کا ہاتھ کیسے پھیر سکتا ہے ظلم و جبر کا شکار اور لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والی معصوم بچیوں اور بچوں پر مالکان کی جانب سے جھوٹے چوری کے الزام کے بعد ہونے والے بہیمانہ تشدد فرداً فرداً سے کیسے بچا سکتا؟ اس کے لئیے ایک بہتر صاف اور شفاف نظام کی ضرورت ہے جس کی پہلی اینٹ تھانہ ہے جہاں سے انصاف کی شروعات ہوتی ہے اگر صرف تھانے کوانسان دوست اور انصاف فراہم کرنے والا بنا دیا جائے تو اس سے جرائم میں اور ظلم و زیادتی کے واقعات میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکتی ہے۔

(جاری ہے)

۔
اس کے ساتھ انسانی اذہان کو بدلنے والی جدید تعلیم کونصاب کا حصہ بنائے بغیر کسی بھی اچھے خواب کو تعبیر نہیں مل سکتی اور نہ ہی بینر آویزاں کرنے سے خاطر خواہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں خواتیں اور بچے اس معاشرے کا آسان شکار ہیں جنہیں جب جہاں چاہا ظلم و زیادتی کا شکار بنا ڈالا، فروخت کردیا ،مذموم خواہش پوری نہ ہوئی تو تیزاب پھینک کر انسانی شرف کی مٹی پلید کر دی اور نہ ان رپورٹوں کی اشاعت کوروکاجا سکتا ہے جن میں خواتیں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی کے حقائق پیش کر کے حکومت کو زچ کیا جاتا ہے۔


پچیس نومبر خواتین پر تشدد کے خلاف پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی دن منایا جا تا ہے۔ پاکستانی سول سوسائٹی کی جانب سے اس برس بھی موٴثر قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔25 نومبر سے اگلے 16 روز تک اس دن کو منانے کا مقصد، عورتوں پر ہر طرح کے تشدد کے خاتمے اور صنفی بنیادوں پر نشانہ بنائی جانے والی خواتین کو تحفظ فراہم کرنے اور اْنہیں اْن کے حقوق دلانے کی کوششوں میں تیزی لانے پر زور دینا ہے۔

پاکستان میں صورتحال کو دیکھا جائے تو سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار اس جانب واضح اشارہ کرتے ہیں کہ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
پارلیمنٹ میں وزارت قانون اور انسانی حقوق کی جانب سے پیش کی گئی ایک رپورٹ، پاکستان میں خواتین پر تشدد کے واقعات کی صرف ایک جھلک پیش کرتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2009 ء تا 2014ء یعنی صرف پانچ سال کے عرصے میں خواتین سے صرف زیادتی کے ہی 14,583 کیسز درج ہوئے ( پولیس اور معاشرے میں بدنامی کے خوف سے جو درج نہیں ہوتے ان کی تعداد بھی کم نہیں ) ۔

دوسری جانب خواتین سے متعلق مسائل پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم، عورت فاوٴنڈیشن کے مطابق اصل واقعات کی تعداد حکومتی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔عورت فاوٴنڈیشن کی جانب سے اخبارات اور میڈیا پر آنے والی خبروں پر مبنی جو رپورٹ مرتب کی گئی ہے، اس کے مطابق 2014 ء کے دوران صرف صوبہ پنجاب میں, جہاں خواتین پر تشدد کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے، خواتین پر تشدد کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد سات ہزار سے زائد ہے۔


عورت فائنڈیشن کی ریجنل ڈائریکٹر مہناز رحمان کے مطابق 2014 ء میں خواتین کو اغوا کرنے کے ایک ہزار سات سو سات کیسز جبکہ ریپ اور گینگ ریپ کے ایک ہزار چار سو آٹھ کیسز رپورٹ ہوئے، ”صرف یہ ہی نہیں بلکہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں عزت کے نام پر قتل کے سب سے زیادہ کیسسز رپورٹ ہوئے ہیں جن کی تعداد 340 ہے۔ جبکہ پاکستان میں ہر روز چھ خواتین کو اغوا اور چھ کو قتل، چار خواتین کے ساتھ زیادتی اور خواتین کی خود کشی کے واقعات اکثر سامنے آتے ہیں۔


مہناز رحمان کے مطابق سندھ کی بات کی جائے تو یہاں عزت کے نام پر قتل یعنی کاروکاری کے واقعات سب سے زیادہ ہوتے ہیں، ”2014 ء میں سندھ میں عزت کے نام پر258 قتل کیے گئے۔ ان میں خواتین کی تعداد 197 رہی جبکہ 2015 ء کے ابتدائی مہینوں میں 25 خواتین کو قتل کیا گیا۔“
پاکستان میں سول سوسائٹی اور تحفظ نسواں کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں کی جانب سے خواتین پر تشدد کے روک تھام کے لیے مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔

اس کوشش میں قانون ساز ادارے بھی شامل ہوتے ہیں جو ان کے ساتھ مل کر قانون تو بنا لیتے ہیں، تاہم ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔
مہناز رحمان کے مطابق اس کی وجہ حکومتوں کی عدم دلچسپی ہے، ”خواتین پر تشدد کے خلاف قانون تو بہت بنائے گئے ہیں، لیکن اس قانون پر عمل درآمد کا مرحلہ نہیں آتا۔ اس لیے کہ اسمبلی میں پاس ہونے کے بعد جو لازمی شرائط ہیں جن پر حکومت کو عمل کرنا چاہئے، حکومتیں ان کو پورا نہیں کرتی۔

مثلاً گھریلو تشدد کے خلاف بل سب سے پہلے سندھ میں بنا لیکن آج تک اس کے business of rulesنہیں بنے۔ ان کے تحت جو کمیٹیاں بننا تھیں وہ نہیں بنیں۔ یہ سب حکومتوں کی اور ان کے قانون ساز ادارے کی ذمہ داری ہے جسے پورا نہیں کیا جاتا۔“
حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق خواتین پر تشدد کے خاتمے اور ان کے تحفظ کے لیے صرف حکومت ہی نہیں بلکہ معاشرے پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جسے ادا کرنے سے معاشرہ بھی اسی طرح قاصر ہے جس طرح حکومت۔ خواتین کے ساتھ ہوئے ظلم و جبر کے مندرجہ بالا اعداد و شمار پڑھنے سننے اور میڈیا میں آنے کے بعد لگتا نہیں کہ ہم کوئی مہذب اور اسلامی معاشرہ ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :