بچوں کا اشتیاق

بدھ 25 نومبر 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

مقبول احمد کا مُنہ کھلا کا کھلا اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ یہ ہے ناول ”گمشدہ جسم“ کی پہلی سطر جو چھبیس ستائیس سال گذرنے کے باوجود آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے۔ اسطرح کی بے شمار سطور کے خالق اشتیاق احمد خالقِ حقیقی سے جا ملے۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور آخرت میں درجات بلند کرے، آمین۔ بچوں کے لئے لکھے گئے آٹھ سو سے زائد ناولوں اور کتابوں کے مصنف اشتیاق احمد جیسے ادیب کا پاکستان میں کوئی ہمسر نہیں۔

میں بھی اُس دور کے بچوں کی طرح پاکٹ سائز کہانیوں کی کتابوں، ٹارزن کے سلسہ وار کارناموں، داستانِ امیر حمزہ اور عمرو عیار کی زنبیلوں سے ہوتا ہوا شاید پانچویں یا چھٹی جماعت میں اشتیاق احمد کے جاسوسی ناولوں سے متعارف ہُوا ، اور پھر اگلے سات آٹھ سال انسپکٹر جمشید ، انسپکٹر کامران مرزا اور شوکی سیریز کے سحر انگیز حِصار میں رہا۔

(جاری ہے)

ہرماہ بے چینی سے ان ناولوں کا انتظار اور پھر سال میں ایک آدھ بار ضخیم خاص نمبر کا لطف اٹھانا اُس دور کی سنہری یادوں کا حِصہ ہے۔

بلا شبہ اشتیاق احمد کے ناولوں نے اس وقت کی نسل کو کتاب سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کِیا۔ سیدھے سادھے کردا ر ، مضبوط کہانی اور آسان زبان میں لکھے گئے ناول قاری کو آخر تک اپنے حِصار میں جکڑے رکھتے تھے۔ اسّی کی دہائی کا پاکستان اتنا متشدد بھی نہیں تھا۔ سادہ انداز میں لکھی گئی کہانیاں پسند کی جاتی تھیں۔ اندازہ کیجئے کہ ان دِنوں انسپکٹر جمشید کی اہلیہ گھر کے دروازے پر موجود مجرموں کو چھت سے کیتلی کا گرم پانی گِرا کر بھی بھگا دیتی تھیں اور محمود ، فاروق اور فرزانہ مجرموں کی آنکھوں میں مرچیں چھڑک کر بھی ان کی گرفت سے بچ جاتے تھے۔

تاہم اشتیاق احمد کے تخلیق کئے ہوئے ولن جیمز بانڈ کی طرح مختلف صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔چاہے یہ جیرال ہو یا سلاٹر یا سنگ ہی یا پھر بریگیڈئر بواناتا کا جاندار کردار ہو۔ اشتیاق احمد نے اصلاحی کتابیں اور دیگر موضوعات پر ناول بھی لکھے تاہم انکی شہرت کا باعث انکے جاسوسی ناول ہی رہے۔ اشتیاق احمد پاپولر میڈیا سے دور رہے ، نہ جانے اس کی وجہ وہ خود تھے یا ہمارے میڈیا کا رویہ تھا۔

نہ کبھی انکے ناولوں کی ڈرامائی تشکیل ہوئی، نہ کِسی معروف اخبار یا جریدے نے انکا انٹرویو کیا نہ کبھی وہ کِسی ٹی وی چینل پر نظر آئے۔کِسی بھی طرح کی پبلک ریلیشننگ اور میڈیا مینیجمنٹ سے دور آپ اپنے کام میں مگن رہے اور اپنے کام کے باعث لاکھوں لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے۔ اشتیاق احمد جھنگ شہر میں مقیم تھے اور جھنگ ایک دور میں فرقہ وارانہ لہر اور تشدد کا شکار ہوا، ملک میں بھی انتہا ء پسندی کے عجیب دور کا آغاز ہُوچکا تھا۔ اشتیاق احمد کے ناولوں میں بھی اس صورتحال کی جھلک ملتی ہے۔ تاہم فرزانہ اور فرحت کے پردہ شروع کرنے سے پہلے ہی میں رنگ برنگی دنیا کی سیر پر نکل چُکا تھا۔
آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :