چھوٹے قد کا بڑاادیب

بدھ 25 نومبر 2015

Qari Abdur Rehman

قاری عبدالرحمن

منگل 17نومبر 215 دن پونے دو بجے کے لگ بھگ کراچی کے بین الاقوامی قائد اعظم ہوائی اڈے پر پاکستان میں بچوں کے اردو جاسوسی ادب کے سب سے بڑے ادیب اور مصنف جناب اشتیاق احمداللہ کو پیارے ہو گئے۔اشتیاق احمد 5جون 1942کو پانی پت کے محلے لاڈلا کنواں میں پیدا ہوئے ۔ 1947میں جب ان کے خاندان نے ہجرت کی تو آنے والے قافلے کا پڑاؤ جھنگ میں ہوا، لہذا جھنگ آپ کا مسکن بنا، اسلامیہ ہائی اسکول جھنگ صدر سے سائنس میں ہائی فرسٹ ڈویژن میں میٹرک کیا، دل دماغ ، ذہانت اور فطانت ، صلاحیت اور قابلیت پڑھنے پر مجبور کر رہے تھے ،لیکن عملا ایسا ممکن نہ ہو سکا ، اور روٹی روزی کمانے کے لیے نکلنا پڑا، چھٹی جماعت سے ہی گرمیوں کی دو ماہی چھٹیوں میں آلو چھولے بیچنے کی عادت والدہ نے لگا دی تھی۔


1958میں جب نویں جماعت کے طالب علم تھے پہلی کہانی ”بڑا قد لکھی “ ہفت روزہ قندیل لاہور میں شائع ہوئی ، پھر تو کہانیاں لکھنے کا جیسے چسکا لگ گیا ہو ، ایک کے بعد ایک کہانی لکھنے لگے ، کہانیاں لکھتے لکھتے افسانے لکھنے کا موڈ ہوا، تو افسانے تخلیق ہونے لگے ،پہلا افسانہ ” فریم“ ماہ نامہ شمع کراچی میں شائع ہوا۔

(جاری ہے)

اس کے بعد نمبر آیا ناول کا ، پہلے تو ایک رومانوی ناول لکھا:”منزل انہیں ملی “لیکن پھر ایک پبلشر کے کہنے پربچوں کے لیے جاسوسی ناول لکھنا شروع کیا، ایک ناول کیا لکھا ، گویا جاسوسی ناولوں کے نے اشتیاق احمد کا راستہ دیکھ لیا، 1972سے لے کر 2015تک آٹھ سو ناول لکھے ، جن میں کئی ضخیم ناول بھی ہیں، سب سے بڑا ناول دو ہزار صفحات کا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔

دوسرے موضوعات پر لگ بھگ دو سو کتابیں ہوں گی ، چھوٹی کہانیاں تو بے شمار ہیں ، ان کا کسی کے پاس ریکارڈ محفوظ نہ تعداد کا کوئی پتا ۔
چوں کہ جناب اشتیاق احمدپچھلے بارہ سال میں کراچی کے دورے پر جب بھی آئے ، ہمیشہ قیام میرے گھر رہا، اس بار بھی میرے پاس ہی قیام تھا، دو پہر تین بجے سے رات نو بجے تک ایکسپو کتب میلے میں اپنے پبلشر کے اسٹال پر بیٹھنے کے علاوہ ان کے تمام اوقات میں ان کے ساتھ رہا۔


17نومبر دوپہر کو ایر پورٹ پر چھوڑ کر آیا ، اس کے بعد موبائل پر ان سے دو مرتبہ بات ہوئی ، پرواز کا وقت ایک بج کر تیس منٹ پر تھا، عین اس وقت مجھے شدید بے چینی ہونے لگی ، میں نے اشتیاق صاحب کے نمبر پر کال کی ، کال ریسیو ہوئی اور اشتیاق صاحب کے شدید کراہنے کی آواز آئی ، میں گھبرا گیا اور زور زور سے انہیں آواز دینے لگا، لیکن جب کراہنے کی ہی آواز آتی رہی تو فوری طور پر فلائٹ انکوائری کا نمبر ملایا ، ان کو اپنا اور اشتیاق احمد صاحب کا تعارف کروار صورت حال بتائی ،پتا چلا ان کے پاس کوئی اطلاع نہیں ، اس کے بعد شاہین ایر لائن کا نمبر ملایا ، وہاں بھی ایسا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہو اتھا۔


میں نے فوری طور پر گاڑی لی اور ایک ساتھی کے ہم راہ ایر پورٹ چل پڑا، اتنے میں اشتیاق احمد صاحب کے نمبر سے کال آگئی ، بات کرنے والے صاحب نے میرا نام پوچھا اور پھر فورا مجھے ایر پورٹ پہنچنے کی ہدایت کی ، ،میں تو پہلے ہی راستے میں تھا، پھر میں ہوائی اڈے والوں کے نمبر پر کال کرتا اور صورت حال پوچھتا رہا ، ایر پورٹ پہنچنے سے کچھ پہلے مجھے اطلاع ملی کہ اشتیاق احمد راہی عدم ہو گئے ہیں انا للہ و انا الیہ راجعون
ایرپورٹ پہنچ کر ضابطے کی کارروائی مکمل کر کے میں نے جناب اشتیاق احمد کے جسد خاکی کو جھنگ منتقل کرنے کی تیاری شروع کردی،احباب کو جوں جوں اطلاع ملتی گئی سہراب گوٹھ ایدھی کے سرد خانے پہنچتے گئے ، غسل اور کفن کے بعد تابوت میں محفوظ کیا گیا اور ہم جامعة الرشید پہنچے ،یہاں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی ، اس کے بعد ایر پورٹ روانہ ہوئے ۔

رات 12:45پر لاہور کے لیے شاہین ایر کی پرواز تھی۔ لاہور میں میرے ساتھی ایمبولینس کے ساتھ موجود تھے، صبح سات بجے ہم جھنگ پہنچے ، ظہر کی نماز بلال مسجد جھنگ میں ایک بجے ہے ، نماز کے فورا بعد جنازے کی نماز ادا کی گئی ۔ اور پھر چھوٹے قد کے اس بڑے ادیب کو سپرد خاک کیا گیا۔
انتہائی افسوس کے ساتھ یہ لکھ رہا ہوں کہ اتنے بڑے ادیب کی موت کے وقت اپنا کوئی عزیز رشتے دار اور دوست ساتھی تو خیر موجود نہ تھا، لیکن اس وقت ڈیوٹی پر موجود عملے نے بھی اپنی ذمے داری پوری نہیں کی ،بعد کی تحقیق سے پتا چلا ہوائی اڈے پر ہنگامی صورت حال میں ڈاکٹر کا کوئی انتظام نہیں ہے، نہ ہی کسی کو جناب اشتیاق احمد کی تکلیف اور بیماری کا پتا چلا، میرا اندازہ ہے ،میرے فون کرنے اور چیخنے چلانے پر جب عملہ وہاں پہنچا تو اشتیاق حمد چل بسے تھے ۔

میں فون نہ کرتا تو پتا چلنے میں نہ جانے کتنی ہی دیرلگتی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :