ایک نئی تفریق۔ مسلمان اور حقیقی مسلمان

بدھ 25 نومبر 2015

Jahid Ahmad

جاہد احمد

روئے زمیں پر موجود تمام تر حیات میں اشرف المخلوقات کے درجے پر فائزبنی نوع انسان کے درمیاں ایسے قبیل بھی موجود ہیں جو علم و دانش کوپیروں تلے روند کر رجعت پسندی میں لتھڑے محض مخصوص مفروضات کی بنیاد پر نوع انسانی میں مزید تفریق پیدا کر تے ہوئے انسانوں میں بھی افضل و برتر اور اعلی و ارفع ترین درجے پر فائز ہونے کے دعویدار ہیں۔ آج کے جدید دور میں ایسے رجعت پسند عناصر، جو دلیل کی نفی کرتے اصولوں کی بنیاد پر پروان چڑھے ہوں، اپنا وجود برقرار کھنے کا ایک ہی طریقہ جانتے ہیں جو بندوق کی نالی سے گزر کر تسلط قائم کرنے پر زور دیتا ہے۔


فرانسیسی عوام نے گزشتہ جمعہ پیرس میں داعش کی جانب سے برپا ہونے والی بدترین دہشت گردی کی کاروائی میں ہلاک ہوئے 129 افراد کی یاد میں موم بتیاں روشن کیں۔

(جاری ہے)

تمام ملک میں یوں موم بتیاں روشن کرنے کا علامتی عمل ایسی انسانیت سوز مکروہ کاروائیوں کے مرتکب گروہوں کے خلاف نہ صرف قومی اتحاد اور بے خوفی کا پیغام دیتا ہے بلکہ بہادری سے اس عفریت کا مقابلہ کرنے کا اعادہ بھی کرتا ہے۔


یہ تو بات ہے ایک ایسی کافر فرانسیسی قوم کی جسے داعش کی ایک ہولناک کاروائی اور 129 افراد کے نقصان نے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کے ایک نقطے پر لمحہ بھر میں متحد و متفق کر دیاجبکہ دوسری طرف بات ہے ایسی مومن پاکستانی قوم کی جس نے کم و بیش ساٹھ ہزار افراد مذہب کے نام پر دہشت گردی میں کھونے کے باوجود کچھ بھی نہ سیکھنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔

اگر پاکستانی قوم آج بھی شدت پسند اور بنیاد پرست عناصر کی جانب سے مذہب کی بنیاد پر دہشت گرد کاروائیوں کی وجوہات اور محرکات کو سمجھنے سے قاصر ہے تو افسوس سے نتیجہ اخذ کرنا پڑتا ہے کہ ہزاروں افراد کی قربانی بھی منجمد ذہنوں میں ارتعاش پیدا نہ کر سکی۔اس موقع پر پاکستانی قوم کا رویہ اور ردِ عمل تو شاید باقی دنیا سے کہیں زیادہ متناسب اور فکر انگیز ہونا چاہیے تھا لیکن معاملات اس کے بالکل برعکس ہیں جو یقینا پاکستانی جتھے کی غیر سنجیدہ اور سیکھ سے عاری کمتر اجتماعی سوچ کی غمازی کرتے ہیں۔

درست وجوہات کو صرفِ نظر کرتے ہوئے بس محدود حد تک دہشت گردی کی مذمت کر دینا ایسا بچگانہ رویہ ہے جو دور رس نتائج پیدا کرنے میں ناکامی کا سبب بنتا ہے اسی طرح اصل وجوہات کو خود ساختہ اور من بہلاتی توجیہا ت کا لبادہ اوڑھا دینا کسی بھی مسئلے کے حل تلاش کرنے میں ناکامی پر منتج ہوتا ہے ۔ پاکستانی جتھا ایسی توجیہات تخلیق کرنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتا۔

زیادہ دور کی کوڑی لانے کی ضرورت نہیں۔ گزرے دس بارہ برسوں میں پاکستان میں مذہبی انتہا پسند جماعت طالبان کے ہاتھوں روز کٹنے والی قوم اپنے قاتلوں کے حق میں ایسے ایسے دلائل پیش کرتی تھی اور اس اس سطح کی تفاریق پیدا کرتی تھی کہ طالبان بھی سوچتے ہوں گے ! اچھا، کیا واقعی!!!
اصلی مسلمان طالبان اور نقلی امریکی و یہود و ہنود ایجنٹ طالبان، کیونکہ کوئی مسلمان تو کسی مسلمان کو یوں مار ہی نہیں سکتا۔

جب طے ہو گیا کہ دہشت گردی کرنے والے طالبان وطنِ عزیز کے ہی اصل سپوت ہیں تو ایک عدد نئی تفریق تخلیق کی گئی جس کے مطابق اصلی طالبان میں بھی دو گروہ تشریح کئے گئے اچھے طالبان اور برے طالبان۔ جب یہ معلوم ہو ا کہ اچھے طالبان کی گولیوں اور خود کش حملوں میں اتنا ہی نقصان ہوتا ہے جتنا برے طالبان کی کاروائیوں سے تو گھڑا گیا کہ ہمارے بگڑے بھائی ہیں بس ذرا امریکی ڈرون حملوں سے ناراض ہیں۔

جب اسی ناراضگی اور ردِ عمل میں سیکیورٹی اہلکاروں کے گلے ولے بھی کاٹنے لگے توپاکستانی قوم نے سمجھ لیا کہ اب شاید ان کے باقاعدہ دفاتر کھلوانے اور شریعت کے نفاذ کے حوالے سے مذاکرات کا وقت آن پہنچا ہے جبکہ ریاست کے اندر ریاست کا درجہ دینے میں بھی کوئی مذائقہ نہیں۔تب یہ ریاست میں فریق قرار پائے۔ آرمی پبلک سکول تک بات پہنچی تو معلوم پڑا کہ دراصل سب ہی دہشت گرد ہیں اور یہ طالبان تو مسلمان ہو ہی نہیں سکتے۔

اور اب حالات یہ ہیں کہ دہشت گردوں پر پاکستانی بمباری سے کسی قسم کا کوئی کولیٹرل ڈیم ایج نہیں ہوتا۔‘
مذہبی نظریات کی بنیاد پر دہشت گردی کے واقعات کا تسلسل اب بھی پاکستانی سوچ کو ذہنی الجھاؤ کا شکار کرتا ہے حالانکہ پاکستان نے اس تمام عمل کو شروعات سے باقائدہ تجربہ کیا ہے، نتائج دیکھے ہیں، بھاری قیمت بھی ادا کی ہے لیکن صد افسوس کہ سیکھا اور سمجھا انتہائی محدود انداز میں۔

پاکستانی سوچ اب بھی ایسے تمام معاملات میں حقائق قبول کرنے سے انکار کا رویہ اختیار کرتی ہے۔ پیرس واقعہ کے بعد بھی محرکات کو سمجھنے کے بجائے اور اس عفریت کے فوری سد باب پر اپنے تجربات کی بنیاد پر پر مغز بات چیت کے بجائے مذہب کی عالمگیریت اور حقانیت پر بحث کی جا رہی ہے۔ خالد احمد کے اشعار دریا کو کوزے میں بند کر دیتے ہیں کہ:
دیکھنا یہ ہے کہ ہم سرِ کہسار کیوں آئے
قد بڑھانے اگر آئے ہیں تو بیکار آئے
جگہ جگہ قد بڑھا کر دکھانے کی ضرورت اسے ہوتی ہے جو پست قد ہو۔

سرو قد کو قد ثابت کرنے کی کیا فکر۔
لیکن وہ پاکستانی ہی کیا جو الباکستانی لاجک پیش نہ کرے تو اس ایک ہفتے کی تمام تر حشر انگیزیوں کا لبِ لباب یہ نکلا کہ دہشت گرد تنظیم داعش’ مسلمان‘ تو ہے لیکن’ حقیقی مسلمان‘ نہیں ہے۔ لہذا اب اصلی طالبان اور نقلی طالبان،اچھے طالبان اور برے طالبان، بگڑے طالبان اور ناراض طالبان کے بعد داعش کے لئے پیش خدمت ہے’ مسلمان‘ اور’ حقیقی مسلمان‘۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ نئی الباکستانی تفریق کب تک کام آتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :