پاکستانی خواتین
جمعرات 19 نومبر 2015
(جاری ہے)
اس رپورٹ میں اعدادوشمار کہاں سے لئے گئے اور کس فارمولے کے تحت یہ رپورٹ تیاری کی گئی یہ ایک بڑا سوال ہے لیکن رپورٹ کو ایک نظر پڑھتے ہی ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے ساتھ بدترین غیر انسانی سلوک روا رکھاجاتا ہے اور پاکستانی خواتین پتھر کے دور میں زندگی بسر کر رہی ہیں یا وہ اپنے حالات زندگی سے انتہائی مایوس ہیں ۔میری رائے میں لیکن حقیقتاََ ایسا نہیں ہے ،یہ بات درست ہے کہ بعض معاملات یا مقامات پر خواتین کو وہ مقام نہیں دیا جاتاجس کی وہ مستحق ہیں ۔ لیکن حالات اس سے بہت زیادہ اچھے ہیں جیسا کہ اس رپورٹ سے تاثر ملتا ہے ۔ بہت سے معاملات اور مقامات پر خواتین کو مردوں سے بہتر سہولیات یا مراعات حاصل ہیں جواس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ مجموعی طور پر پاکستانی خواتین اپنے حالات زندگی سے پوری طرح مطمئن نہیں تو صورتحال کو اس قدرمایوس کن قرارنہیں دیا جاسکتا۔ میری رائے میں مجموعی طور پر پاکستانی خواتین اپنے حالات زندگی سے بہت زیادہ خوش نہیں تو قدرے مطمئن ضرور ہیں اور بعض حالات میں تو خواتین کے مقابلے میں مردوں کو صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کیسے؟؟؟
آپ مزدور ہیں ،نجی یاسرکاری ادارے کے ملازم،بیوروکریٹ ،تاجر ہیں یا سرمایہ کار !فرض کیجئے کہ آپ کوئی بل جمع کرانے کسی بنک میں جاتے ہیں جہاں سخت گرمی یا شدید سردی میں دس،بیس یا تیس مرد پہلے سے قطارمیں لگے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں ۔موسم کی شدت سے محفوظ رہنے کا کوئی انتظام نہیں ۔اسی اثنا میں اگر کوئی خاتون بل جمع کرانے بنک پہنچے تو کیا وہ قطار میں کھڑی ہوگی ؟آپ سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگابلکہ وہ خاتون سیدھا کیشیئر کے پاس جائے گی اور کیشئر اس خاتون کا بل ترجیحی بنیادوں پر جمع کرے گا اور قطار میں کھڑے مرد اپنی باری کا انتظار کریں گے ۔ قطارمیں موجود کوئی مرد اس بات پر اعتراض کرے گا نہ کسی کو حیرت ہو گی کہ یہ امتیازی سلوک کیوں ؟لاہور،کراچی ،حیدرآباد،فیصل آباد،ملتان ،سرگودھا،گوجرانوالایا پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں چلے جائیں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کریں !ایسے شہر جہاں گاڑیوں میں خواتین کے لئے نشستیں مخصوص ہیں اگر مزید خواتین گاڑی میں سوار ہوں تو وہ کھڑے ہوکرمسافت طے کرنے کی بجائے مردوں کی نشستوں پر بیٹھ جاتی ہیں ۔ میں نے اپنی زندگی میں کوئی مرد اس بات پر ناراض نہیں دیکھا۔ آپ مختلف شہروں کے درمیان چلنے والی بڑی کمپنیوں کی آرام دہ بسوں میں سفر کرتے ہیں تو انتظار گاہ میں جاتے ہی آپ کو اندازہ ہوگا کہ اگر نشستیں کم پڑ جائیں تو انتظار گاہ میں موجود مرد خواتین کیلئے نشستیں خالی کر دیتے ہیں ۔گاڑی میں نشستیں مخصوص کرتے ہوئے بھی انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ خواتین کو نسبتاََ بہتر اور آرام دہ نشستیں فراہم کی جائیں ۔ کسی بھی کام سے کسی سرکاری یا نجی دفتر میں جائیں تو بھی صورتحال کم وبیش یہ ہی ہوتی ہے ۔صرف یہ ہی نہیں اپنے ارد گرڈ نظر دوڑائیں گھر،گلی ،محلے ،شہر یا ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں کسی بھی تقریب کے موقع پر خواتین کو عام طور پر یہی مقام دیا جاتاہے ۔ اپنے دوستوں اور شتہ داروں کے خاندان پر ایک نظر دوڑائیے !کم از کم مجھے تو یہ ہی نظر آتا ہے کہ بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ انتہائی عزت اور شفقت سے پیش آیا جاتا ہے ۔ عملی زندگی میں بھی جائیں تو بتدریج پاکستانی خواتین کی شمولیت کے تناسب دن بدن اضافہ ہورہا ہے ۔ سرکاری اورنجی دفاتر،سکولوں ،ہسپتالوں ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایک سرسری جائزہ بتا دیتا ہے کہ خواتین عملی زندگی کے تمام شعبوں میں موجود ہیں حتی کہ بعض اداروں کے مخصوص شعبے تو صرف خواتین کے لئے مخصوص ہیں یا پھر مردوں کے مقابلے میں خواتین کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ یہ درست ہے کہ عملی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی تعداد مردوں کے برابر یا زیادہ نہیں لیکن ضروری نہیں کہ اس کی وجہ خواتین پر پابندیاں ہوں ۔ اگر ایک خاتون اپنی آزاد مرضی کے ساتھ کسی بھی شعبہ زندگی میں کام کر نا چاہتی ہے اور کررہی ہے تو ایک خاتون سے ہم یہ حق کیسے چھین سکتے ہیں کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اپنے لئے گھریلوخاتون کا منصب منتخب کرے ؟ اس طرح کے سروے اور رپورٹس مرتب کرتے وقت جو نقطہ ہم نظر انداز کردیتے ہیں وہ یہ ہے کہ مغربی ملکوں کے حالات ہم سے بہت مختلف ہیں ۔ہمارے معاشرے میں تو گھر کی مالی ذمہ داری خالصتاََ مر د پر عائد ہوتی ہے اور درست طور پر عائد ہوتی ہے ۔ گزشتہ برس جنوبی کوریا میں جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ مردوزن بغیر کسی امتیاز کے کام میں مصروف رہتے ہیں ۔خواتین دن بھر مشین کی طرح کام میں جتی رہتی ہیں اور کوئی یہ نہیں کہتا کہ گھر کے لئے کمانا صرف مرد کا کام ہے بلکہ اپنے حالات کے مطابق دونوں میاں بیوی مل جل کر گھر چلاتے ہیں ۔
جیسے ہی شام ہوتی ہے سڑکوں اور بازاروں میں موجود بے شمار ریستوران کچھا کچھ بھرے ہوتے ہیں ۔ یوں لگتاہے جیسے کوریا میں چند ہی گھر ایسے ہوں جہاں کھانا پکتا ہوں کیونکہ اگر خاتون دن بھر دفتر یا تجارت میں مصروف ہوگی تو گھر کے کام کون سنبھالے گا؟ایسا نہیں کہ ان ممالک کی تمام خواتین ہی کام کرنے کی پابند ہیں بلکہ اکثریت کمزورمعاشی حالات کی وجہ سے کام کرنے پر مجبور ہے ۔تاہم ان معاشروں میں بھی مالی طور پر آسودہ گھرانوں کی خواتین بلاوجہ اپنی جان بکھیڑے میں ڈالنے کی بجائے بچوں کی دیکھ بھال اور گھریلو کاموں میں مصروف رہناپسند کرتی ہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خواجہ محمد کلیم کے کالمز
-
صحت کے دشمن تعلیمی ادارے
جمعرات 10 جنوری 2019
-
سو دن، کرتار پورہ اور سشمادیدی کا ندیدہ پن
منگل 4 دسمبر 2018
-
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ دو دن
منگل 20 نومبر 2018
-
بابائے قوم محمد علی جناح کے نام ایک مکتوب
جمعرات 16 اگست 2018
-
لبیک ، لبیک ، لبیک یار سول اللہ ﷺ
پیر 30 جولائی 2018
-
دہشتگردی، سیاست اور قوم کا مستقبل
پیر 16 جولائی 2018
-
سیاسی کارکنوں کا احتجاج،اِشاریہ مثبت یا منفی ؟
ہفتہ 16 جون 2018
-
ماں جائی
بدھ 6 جون 2018
خواجہ محمد کلیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.