پاکستانی خواتین

جمعرات 19 نومبر 2015

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

ورلڈ اکنامک فورم نے جنسی مساوات کے بارے میں ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس میں پاکستان کو آخری نمبر سے ایک نمبر پہلے یعنی صرف یمن سے بہتر قرار دیا گیا ہے ۔رپورٹ کا مقصد خواتین کے ساتھ جنسی عدم مساوات کے بارے میں اعداد شمار اکھٹے کئے گئے ہیں جس کے مطابق یمن میں خواتین کے ساتھ دنیا بھر میں سب سے زیادہ جنسی عدم مساوات روارکھی جاتی ہے ۔

سعدیہ زاہدی کی مرتب کی گئی رپورٹ کے مطابق خواتین کی معیشت میں حصہ داری اور مواقع کے اعتبار سے پاکستان 142 ممالک میں سے 141 ویں نمبر ہے۔تعلیم حاصل کرنے کے شعبے میں پاکستان 132 ویں نمبر پر جبکہ صحت کے شعبے میں 119 ویں نمبر پر ہے۔سیاست کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 85 واں ہے جبکہ بھارت عالمی سطح پر 15 ویں نمبر پر ہے ،امریکہ 54 ویں اور برطانیہ 33 ویں نمبر ہے۔

(جاری ہے)

جہاں تک سیاست کا تعلق ہے تو دنیا بھر میں اس وقت 26 فیصد زیادہ خواتین پارلیمان میں ہیں اور 50 فیصد سے زیادہ خواتین وزرا کے عہدوں پر فائز ہیں۔
اس رپورٹ میں اعدادوشمار کہاں سے لئے گئے اور کس فارمولے کے تحت یہ رپورٹ تیاری کی گئی یہ ایک بڑا سوال ہے لیکن رپورٹ کو ایک نظر پڑھتے ہی ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے ساتھ بدترین غیر انسانی سلوک روا رکھاجاتا ہے اور پاکستانی خواتین پتھر کے دور میں زندگی بسر کر رہی ہیں یا وہ اپنے حالات زندگی سے انتہائی مایوس ہیں ۔

میری رائے میں لیکن حقیقتاََ ایسا نہیں ہے ،یہ بات درست ہے کہ بعض معاملات یا مقامات پر خواتین کو وہ مقام نہیں دیا جاتاجس کی وہ مستحق ہیں ۔ لیکن حالات اس سے بہت زیادہ اچھے ہیں جیسا کہ اس رپورٹ سے تاثر ملتا ہے ۔ بہت سے معاملات اور مقامات پر خواتین کو مردوں سے بہتر سہولیات یا مراعات حاصل ہیں جواس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ مجموعی طور پر پاکستانی خواتین اپنے حالات زندگی سے پوری طرح مطمئن نہیں تو صورتحال کو اس قدرمایوس کن قرارنہیں دیا جاسکتا۔

میری رائے میں مجموعی طور پر پاکستانی خواتین اپنے حالات زندگی سے بہت زیادہ خوش نہیں تو قدرے مطمئن ضرور ہیں اور بعض حالات میں تو خواتین کے مقابلے میں مردوں کو صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کیسے؟؟؟
آپ مزدور ہیں ،نجی یاسرکاری ادارے کے ملازم،بیوروکریٹ ،تاجر ہیں یا سرمایہ کار !فرض کیجئے کہ آپ کوئی بل جمع کرانے کسی بنک میں جاتے ہیں جہاں سخت گرمی یا شدید سردی میں دس،بیس یا تیس مرد پہلے سے قطارمیں لگے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں ۔

موسم کی شدت سے محفوظ رہنے کا کوئی انتظام نہیں ۔اسی اثنا میں اگر کوئی خاتون بل جمع کرانے بنک پہنچے تو کیا وہ قطار میں کھڑی ہوگی ؟آپ سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگابلکہ وہ خاتون سیدھا کیشیئر کے پاس جائے گی اور کیشئر اس خاتون کا بل ترجیحی بنیادوں پر جمع کرے گا اور قطار میں کھڑے مرد اپنی باری کا انتظار کریں گے ۔ قطارمیں موجود کوئی مرد اس بات پر اعتراض کرے گا نہ کسی کو حیرت ہو گی کہ یہ امتیازی سلوک کیوں ؟لاہور،کراچی ،حیدرآباد،فیصل آباد،ملتان ،سرگودھا،گوجرانوالایا پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں چلے جائیں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کریں !ایسے شہر جہاں گاڑیوں میں خواتین کے لئے نشستیں مخصوص ہیں اگر مزید خواتین گاڑی میں سوار ہوں تو وہ کھڑے ہوکرمسافت طے کرنے کی بجائے مردوں کی نشستوں پر بیٹھ جاتی ہیں ۔

میں نے اپنی زندگی میں کوئی مرد اس بات پر ناراض نہیں دیکھا۔ آپ مختلف شہروں کے درمیان چلنے والی بڑی کمپنیوں کی آرام دہ بسوں میں سفر کرتے ہیں تو انتظار گاہ میں جاتے ہی آپ کو اندازہ ہوگا کہ اگر نشستیں کم پڑ جائیں تو انتظار گاہ میں موجود مرد خواتین کیلئے نشستیں خالی کر دیتے ہیں ۔گاڑی میں نشستیں مخصوص کرتے ہوئے بھی انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ خواتین کو نسبتاََ بہتر اور آرام دہ نشستیں فراہم کی جائیں ۔

کسی بھی کام سے کسی سرکاری یا نجی دفتر میں جائیں تو بھی صورتحال کم وبیش یہ ہی ہوتی ہے ۔صرف یہ ہی نہیں اپنے ارد گرڈ نظر دوڑائیں گھر،گلی ،محلے ،شہر یا ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں کسی بھی تقریب کے موقع پر خواتین کو عام طور پر یہی مقام دیا جاتاہے ۔ اپنے دوستوں اور شتہ داروں کے خاندان پر ایک نظر دوڑائیے !کم از کم مجھے تو یہ ہی نظر آتا ہے کہ بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ انتہائی عزت اور شفقت سے پیش آیا جاتا ہے ۔

عملی زندگی میں بھی جائیں تو بتدریج پاکستانی خواتین کی شمولیت کے تناسب دن بدن اضافہ ہورہا ہے ۔ سرکاری اورنجی دفاتر،سکولوں ،ہسپتالوں ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایک سرسری جائزہ بتا دیتا ہے کہ خواتین عملی زندگی کے تمام شعبوں میں موجود ہیں حتی کہ بعض اداروں کے مخصوص شعبے تو صرف خواتین کے لئے مخصوص ہیں یا پھر مردوں کے مقابلے میں خواتین کو ترجیح دی جاتی ہے ۔

یہ درست ہے کہ عملی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی تعداد مردوں کے برابر یا زیادہ نہیں لیکن ضروری نہیں کہ اس کی وجہ خواتین پر پابندیاں ہوں ۔ اگر ایک خاتون اپنی آزاد مرضی کے ساتھ کسی بھی شعبہ زندگی میں کام کر نا چاہتی ہے اور کررہی ہے تو ایک خاتون سے ہم یہ حق کیسے چھین سکتے ہیں کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اپنے لئے گھریلوخاتون کا منصب منتخب کرے ؟ اس طرح کے سروے اور رپورٹس مرتب کرتے وقت جو نقطہ ہم نظر انداز کردیتے ہیں وہ یہ ہے کہ مغربی ملکوں کے حالات ہم سے بہت مختلف ہیں ۔

ہمارے معاشرے میں تو گھر کی مالی ذمہ داری خالصتاََ مر د پر عائد ہوتی ہے اور درست طور پر عائد ہوتی ہے ۔ گزشتہ برس جنوبی کوریا میں جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ مردوزن بغیر کسی امتیاز کے کام میں مصروف رہتے ہیں ۔خواتین دن بھر مشین کی طرح کام میں جتی رہتی ہیں اور کوئی یہ نہیں کہتا کہ گھر کے لئے کمانا صرف مرد کا کام ہے بلکہ اپنے حالات کے مطابق دونوں میاں بیوی مل جل کر گھر چلاتے ہیں ۔


جیسے ہی شام ہوتی ہے سڑکوں اور بازاروں میں موجود بے شمار ریستوران کچھا کچھ بھرے ہوتے ہیں ۔ یوں لگتاہے جیسے کوریا میں چند ہی گھر ایسے ہوں جہاں کھانا پکتا ہوں کیونکہ اگر خاتون دن بھر دفتر یا تجارت میں مصروف ہوگی تو گھر کے کام کون سنبھالے گا؟ایسا نہیں کہ ان ممالک کی تمام خواتین ہی کام کرنے کی پابند ہیں بلکہ اکثریت کمزورمعاشی حالات کی وجہ سے کام کرنے پر مجبور ہے ۔تاہم ان معاشروں میں بھی مالی طور پر آسودہ گھرانوں کی خواتین بلاوجہ اپنی جان بکھیڑے میں ڈالنے کی بجائے بچوں کی دیکھ بھال اور گھریلو کاموں میں مصروف رہناپسند کرتی ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :