”سیاسی ڈی این اے“

منگل 17 نومبر 2015

Mumtaz Amir Ranjha

ممتاز امیر رانجھا

جہاں تک ہمارے ملک کی سیاست کی بات کی جائے تو اس میں بے شمار شرمناک پہلو ہیں۔ہماری عوام نے اگرچہ سیاست میں دلچسپی لینا شروع کر دی ہے لیکن عوام تاحال اصل مرد بحران لیڈر،جعلی سیاستدان اور اداکار سیاستدانوں کی پہچان سے عاری ہے۔پاکستان میں موجودہ حکومت اور موجودہ وزیراعظم اگرچہ پاکستان کی اکثریت کی رائے دہی سے سب سے کامیاب ٹھہرے اور زمینی حقائق کیمطابق میاں نواز شریف ہی مرد بحرا ن ہیں۔

ن لیگ ایک حقیقت ہے اور تاریخی اعتبار سے اس جماعت کا زیادہ کریڈٹ حاصل ہیں۔
پاکستان کے قیام کے بعد سے لیکر اب تک ہمارے ملک نے موٹرویز،اوور ہیڈ بریجز،،سڑکوں کے جال،میٹرو بس سروس سے لیکر انڈسٹریل ایریا میں بھی پاکستان نے نواز شریف حکومت میں ہی ترقی کی اور مزید کی امید باقی ہے،یہ ساری ترقی ن لیگ کے ادوار میں ہی سامنے آئی۔

(جاری ہے)

اس بات سے اگرچہ سب کو متفق ہونا پڑے گا کہ اس حکومت میں تمام وفاقی وزیران ہی دراصل ن لیگ کے حقیقی ترجمان ہیں۔

باقی تمام ملک میں موجود سیاسی طور پر (ن) لیگ میں کئی جگہ گندی مچھلیاں بھی موجود ہیں جن کوپارٹی لیڈران وقتاً فوقتاً پتہ لگنے پر فارغ کرتے رہتے ہیں۔چند کرپٹ افراد کی وجہ سے ن لیگ کے زیادہ ووٹ پی پی پی،تحریک انصاف، جماعت اسلامی اورآزاد امیدوران کی طرف چلے جاتے ہیں۔
ابھی بلدیاتی الیکشنوں کی مثال لیں ، گھر سے باہر نکل کے کئی جگہ دیکھیں، پنجاب میں کچھ پینا فلیکس دیکھ کر آپ کو ن لیگ کی شہر ت کا اندازہ ہو گا۔

ن لیگ کے اصل نمائندے کا انتخابی نشان شیر ہو گا،جس کو ووٹ نہیں مل سکا اس نے بھی دائیں طرف نواز شریف اور بائیں طرف اپنے ن لیگ کے علاقائی منتخب ایم این اے کی تصویر چھاپی ہوگی اور بعض نے ن لیگ کی شہرت کی وجہ سے خواہ مخواہ ووٹ لینے کے لئے ن لیگ کے لیڈران کی تصاویر والا پینا فلیکس بنوایا ہوگا۔پھر ہوتا یوں ہے کہ عوام کی بیوقوفی کی وجہ سے ن لیگ کااصل نمائندہ یا تو مشکل سے جیت پائے گا یا پھر کسی عام سے بندے سے ہار جائے گا۔

ن لیگ کے علاقائی حقیقی نمائندوں کی نشاندہی کرنا پارٹی کا فرض بنتا ہے تاکہ عوام اصل اور نقل کی پہچان تو کر سکیں۔میاں نواز شریف کے سابقہ ادوار میں پاک فوج کے ساتھ حکومت اور فوج کا اختلاف پیدا کیا جاتا رہا او ر اس بار بھی کوشش کی گئی لیکن حکومت اور فوج نے احسن طریقہ سے ہر ساز ش کو بے نقاب کیا۔
دوسری طرف پی پی پی جس نے صرف سندھ میں نظریاتی ووٹ سنبھال رکھا ہے،وہاں کا ووٹر بھٹو اور محترمہ بے نظیر کے نام پر زرداری اور بلاول کا بول بالا کر دیتا ہے۔

سندھ میں پی پی پی کے حریف عبرتناک شکست سے دوچار ہوتے ہیں جیسے پنجاب میں ن لیگ کے حریف ہار کے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔سندھ کے علاوہ ملک کے باقی تمام علاقوں میں پی پی پی اپنی ساکھ کھو چکی ہے یا ان کے نمائندے سابقہ دور میں اتنی کرپشن کر چکے ہیں کہ اب عوام میں ان کی عزت یا تو باقی نہیں یا عزت بچتی نظر نہیں آتی۔بلاول زرداری کا ساؤنڈ سسٹم قدرتی طور پر رعب دار نہیں،اس کے لئے ان کی پارٹی اس فیملی سے کسی خاتون کو بھی منظر عام پر لے آئے تو شاید پارٹی میں جان پڑ جائے۔


عمران خان کی جذباتیت نے پی ٹی آئی کو عروج سے زوال کی طرف گامزن کر دیا ہے۔احقر نے آج سے ساڑھے تین سال پہلے کالم میں پی ٹی آئی کو پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی کہا تھا لیکن اب حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔عمران خان کے دھرنے نے پوری پارٹی کو دھر لیا ہے،نیشنل جوڑ توڑ کے لئے نکلنے والے خان صاحب کو اسی لئے اب بدلدیاتی امیدواران کے لئے نکلنا پڑتا ہے۔

جو کسر باقی تھی وہ عمران خان نے ریحام خان سے شادی کر کے پوری کرلی اور پھر ریحام خان کو طلاق دیکر گویا اپنی پارٹی میں خود کش حملہ کردیا۔اس کے بعد خان صاحب نے طلاق کے معاملہ پر ایک صحافی کو کہا کہ ”آپ کو شرم آنی چاہیئے“
خان صاحب بالکل ٹھیک فرماتے ہیں لیکن ان کو اس بات کا توبخوبی علم ہونا چاہیئے کہ ہر ملک میں ہر سیاستدان باالخصوص پارٹی لیڈر یا چیئرمین کی زندگی عوام کے لئے پرائیویٹ نہیں رہتی۔

قومی سیاستدانوں یا لیڈران کی زندگی کا ہر پہلو عوام کے لئے کھلی کتاب کی طرح ہوتا ہے۔عوام و خواص ایسے افراد کی زندگی کو نہ صرف فالو کرتے ہیں بلکہ ان کی زندگی کے ہر پہلو سے باخبر بھی رہتے ہیں۔خان صاحب تو ن لیگ،پی پی پی کے بعد تیسری بڑی پارٹی کے لیڈر ہیں۔طلاق کے بعد تو زیادہ لوگ ریحام خان کو ٹوئٹر او ر فیس بک پر نہ صرف فالو کرتے ہیں بلکہ ان کے ہرمیسیج کا فالو اپ کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ریحام خان نے عمران خان سے شادی کر کے غلطی کی یا چالاکی کی، دونوں صورتوں میں الگ ہونے کے بعد بھی عمران خان کی جذباتی شخصیت کا منفی پہلو ہائی لائٹ ہوتا نظر آتا ہے۔
لیڈر وہ ہوتا ہے جس کا دل بڑا ہوتا ہے،لیڈر وہ ہوتا ہے جس میں برداشت زیادہ ہوتی ہے،لیڈر وہ ہوتا ہے جو جذباتی نہیں ہوتا۔آپ کو وقت ملے تو چیک کر لینا کہ آپ کیا ہیں؟اب مسئلہ یہ ہے کہ آپ بلاول کو لیڈر نہ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں اور وہ آپ کو کہتا ہے کہ سیاست و عقل عمر کی قید سے آزاد ہیں۔


اس کے بعد ہمارے ملک میں شیخ رشید جیسے انسان ہیں جو کسی دور میں میاں نواز شریف کے گرویدہ تھے۔انہیں شریفیریا کا مرض ہے۔حالانکہ انہوں نے شریف برادران کی در بدری کے بعد ہونے والے الیکشن میں بھی نواز شریف کا نام استعمال کرکے ایم این اے ہونے کے مزے لوٹے تھے۔خود کو معصوم ثابت کرنے والے شیخ صاحب نے ن لیگ کے اس سے پہلے دور حکومت میں پی آئی اے کی بھرتیوں میں خوبصورت اور من مانی ائر ہوسٹس بھرتی کرنے پر بھی نہ صرف پیسے کھائے بلکہ عیاشی بھی کی۔

اس کا ثبوت اس دور کے اخبارات سے زیادہ کسی اور چیز سے ملنا کم ہے۔مشرف دور میں شیخ صاحب نے خواتین کے سکول تو بنوائے لیکن خواتین اساتذہ کی تقرر و تبادلے میں اثر انداز ہوتے رہے۔حنیف عباسی کو میڈیسن سکینڈل میں پھنسانے اور بدنام کرانے والا کنوارہ شیخ پی ٹی آئی کے مقامی نمائندوں پر اثر انداز ہونے پر پی ٹی آئی کا مقامی نمائندہ ان کے خلاف پریس کانفرنس بھی کر چکا ہے۔


ایم کیو ایم نے کراچی کے حالات بارہا خراب کئے،علاوہ ازیں انڈین ایجنٹ ہونے کاٹھپہ بھی اسی پارٹی پر ہے ۔جس کا ثبوت پاکستان رینجرز اور پاک فوج دے چکی ہے لیکن ایم کیو ایم نے چالاکی اور سیاسی دباؤ سے حکومت ، فوج دونوں کو نہ صرف بدنام کیا بلکہ اپنے آپکو معصوم ثابت کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی۔دیکھا جائے تو عوام کو شیخ رشید جیسے منافق لوگ ہوں یا ایم کیو ایم جیسے جارحانہ سیاستدان دونوں کو ری جیکٹ کرنا ہی کامیابی ہے ورنہ ایسے دوغلے افراد ملک کو تنزلی کی طرف لیجانے میں مزید طاقتور ہونگے۔


ن لیگ ہو،پی ٹی آئی،جماعت اسلامی ،ای این پی یا پی پی پی ہو ان سب کے لئے ایک اور نیک کام یہ ضروری ہے کہ ایسے تمام افراد یا نمائندے جن میں کچھ ن لیگ کے سپوکس مین جیسے”زبیر “ اور کچھ پی ٹی آئی کے سپوکس مین جیسے”اسدعمر“ دونوں بھائی ہیں،ایسے تمام افراد یا خانداندانوں کو بھانجوں،بھائیوں اور بھتیجوں کے چکر میں ایک ہی پارٹی کی سپورٹ دینے مجبور کریں۔

ایسے تمام افراد خاندان یا سیاسی نمائندے جو بیک وقت کئی پارٹیوں کی نمائندگی کرتے ہوں عوام کے بیوقوف بنانے کے علاوہ پارٹی اور ملک کے لئے بہت بڑی منافقت اور نقصان کا باعث ہیں جو وقتی اور ذاتی فوائد کے لئے برائے نام پارٹی بازی کر لیتے ہیں،انہیں نکال باہر کرنا چاہیئے۔اب دنیا کے حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کو بھی قوم و ملک کے حق میں بہترین ایس او پی اور ڈسپلن بُک بنانے کی ضرورت ہے۔


اس کالم میں فرانس میں ہونے والے اندوہناک حادثے کا ذکر ضروری ہے۔پیرس میں دہشت گردی کا ہونے والا تازہ واقعہ بہت ہی افسوسناک ہے۔خوشبوؤں کے ملک فرانس میں دہشت گردوں کا یوں گھس جانا اور وہاں کے سات علاقوں میں بیک وقت دہشت گردی کرنا دہشت گردوں کی طرف سے ایک بہت ہی خوفناک پیغام ہے۔تقریباً 200افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ابتدائی خبروں کے مطابق دہشت گردی کی اس سفاکانہ سازش میں داعش کا ہاتھ ہے۔


امن ہر ملک،ہر شہر اور ہر طبقے کی اہم ضرورت اور خواہش ہے۔دنیا کے ہر کونے میں ہر قوم اور فرقے میں انتہا پسندی یا دہشت گردی کسی کو پسند نہیں۔ساری دنیا کے سارے لوگ نہ صرف امن کے متلاشی ہیں بلکہ ہر فرد مل جل کر رہنا اور چین سے جینا چاہتا ہے۔داعش ایک ایسی افسوسناک حقیقیت ہے جس کی بنیاد کی غلطی خود برطانیہ بھی تسلیم کرتا ہے۔امریکہ نے عراق کی تباہی کو اپنی غلطی تسلیم کیا۔

اب دیکھیں اگر دنیا کی دو بڑی طاقتوں نے اتنی بڑی دو غلطیاں کیں تو اس کی سزا پوری دنیا کے تمام انسانوں کو محض اس لئے کہ ہر سارے انسان بے خبر اور بے حس ہیں۔عراق کی تباہی کے خلاف اگر ساری دنیا آواز بلند کرتی یا برطانیہ داعش کو بنانے کی تاریخی غلطی نہ کرتا تو آج پوری دنیا میں سو فیصد امن ہوتا۔اب بھی وقت ہے برطانیہ ،امریکہ اور ساری دنیا کے تمام ممالک مسلم اور غیر مسلم ملکر دنیا میں موجود تمام دہشت گرد تنظیموں کے مل کر کوئی منظم فارمولا وضع کریں تو یقینا پوری دنیا میں یکسر حالات تبدیل ہو جائیں گے۔
ٌنوٹ:احقر خرابی طبیعت (بلڈ پریشر)کی وجہ سے ادارتی صفحات سے دور رہا،آپکی نیک خواہشات اور دعاؤں کی اشد ضرورت رہتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :