اپنا اپنا نقطہ نظر

منگل 17 نومبر 2015

Hussain Jan

حُسین جان

صدر اُبامہ نے کہا ہے کہ پیرس پر حملہ دراصل تہذیب یافتہ اور مہذب اقوام پر حملہ ہے، اس حملے کو لے کر تمام لوگوں کی اپنی اپنی رائے ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یورپ اور امریکہ نے پوری دُنیا کے اسلامی ممالک میں وہاں کے سازشیوں کے ساتھ مل کر خون خرابہ کروایا ہے جس کے ردعمل میں ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ کچھ لوگوں کی رائے میں مسلمانوں کے خمیر میں دہشت گردی شامل ہے اس لیے وہ اپنے جذبات کو تسکین پہنچانے کے لیے ایسی قتل و غارت کرتے رہتے ہیں۔

تہذیب یافتہ لوگ کسی بھی عمل پر فورا ردعمل نہیں دیتے ۔ اُن کے تمام اقدامات سوچ سمجھ کے بعد منظر عام پر آتے ہیں ۔ جب کہ فرانس کے صد ر نے حملے کے فورا بعد ہی سخت ردعمل دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پڑوسی کے لان میں سانپ چھوڑنے کے بعد مطمن نہیں ہوا جاسکتا کہ وہ صرف پڑوسیوں کو ہی ڈسے گا۔

(جاری ہے)

بلکہ وہ آپ کی طرف بھی آسکتا ہے۔ ٹونی بلئیر کے حالیہ اقبالی بیان کو عالمی میڈیا نے کچھ خاص گھاس نہیں ڈالی کہ اس سے امریکہ اور یورپ کی اصلیت دُنیا کے سامنے آگئی ہے۔

کیا مہذب لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بلا سوچے سمجھے پورئے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں اور بعد میں اعتراف کر لیں کہ وہ حملہ غلطی تھا۔
مسلم دُنیا اس وقت تکون میں پھنسی ہوئی ہے، روس،امریکہ اور یورپ نے اسلامی ممالک کو اپنا کھلونا بنا لیا ہے، جب دل کرتا ہے وہاں کے کچھ شر پسند عناصر کے ساتھ مل کر حکومتوں کا تختہ اُلٹ دیتے ہیں، لیبا،عراق،ایران، کویت،یمن، ترکی ،افغانستان ،پاکستان، شام، مصر، فلسطین اور دوسرئے اسلامی ممالک میں روز خون کی حولی کھیلی جا رہی ہے۔

شام میں ایک طرف روس حملے کر رہا ہے تو دوسری طرف داعش نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ عراق سے امریکی افواج نکلنے کے بعد بھی امن قائم نہیں ہوسکا، سعودی عرب اور کویت میں امریکی فوج بیٹھ کر پورئے وسطی اشیاء کو ہنڈل کر رہی ہے۔ القاعدہ کا پاسپوڑٹ ایکسپائرہونے کے بعد امریکہ نے داعش نامی نیا پاسپوڑت بنوا لیا ہے کہ جسے دیکھا کر کسی بھی مسلم ملک پر چڑھائی کر دیگا۔


اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ پیرس میں نہتے لوگوں کا قتل عام ایک وحشیانہ اقدام ہے ، لیکن کیا دوسرئے ممالک کے لوگ انسان نہیں کیا وہ کسی کے بیٹے بیٹیاں نہیں، کیا اس زمین پر اُن کورہنے کا حق نہیں۔ مغرب کی ایک خوش قسمتی یہ ہے کہ جب بھی اُن پر کوئی آفت آتی ہے تو سب اکٹھے ہو جاتے ہیں جبکہ مشرقی ملکوں کے آپس کے اختلافات ہی ختم ہونے میں نہیں آتے۔

کچھ لوگ اب دبی زبانوں میں یہی بھی کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ پیرس حملے کے بعد یورپ میں بسے کروڑوں مسلمانوں پر ایک نہ ختم ہونے والا عذاب شروع ہو جائے گا، وہاں پہلے ہی مسلمانوں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ۔سوشل میڈیا پر ابھی سے کمپین شروع کر دی گئی ہے کہ یورپ میں بسے تمام مسلمانوں کو ختم کر دینا چاہیے، جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ جن لوگوں نے اس خور خرابے میں حصہ لیا ہے اُن کا قلع قمع کیا جائے نہ کے عام مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔


حیرت کی بات ہے جب کوئی شخص شام،عراق یا دوسرئے اسلامی ممالک کے عوام کی حمایت میں کچھ بولتا ہے تو اُسے دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ہر وقت اپنے یورپ کے دوروں کی رواداد سنانتے نہیں دھکتے ،لیکن جب بات انصاف کی کرنی ہو تو یہ اس پر کبھی نہیں آتے ۔ ان کے نزدیک دُنیا میں فساد کی جڑ صرف اورصرف مسلمان ہیں۔

یہ تو اللہ بھلا کرئے ہماری افواج کا جس نے ملک سے دہشت گردوں کو مار بھگایا ہے اور طالبان ،اور القاعدہ نامی تنظیم کو ختم کردیا ہے، ورنہ اس حملے کی زمہ داری بھی پاکستان پر ڈال دی جاتی۔ اور کہا جاتا ہے اس کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی ہے۔ جو لوگ ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر سارا سارا دن افواج پاکستان پر تنقید کرتے ہیں اُن کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ آج اسی فوج کی وجہ سے دُنیا میں پاکستان کا نام روشن ہو رہا ہے۔

کچھ حکومتی اور نام نہاد اپوزیشن کے ارکان جمہوریت کے الاپ راگتے رہتے ہیں ،کیا انہوں نے کبھی عوام کی بھلائی کے لیے کچھ کیا، جمہوری ادارئے ایسے نکمے ہیں کہ چھوٹا سا حادثہ بھی ہوجائے تو لوگوں کی مدد کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ جمہوریت پسند لیڈرز نے سوائے اپنے گھر بھرنے کے اور کیا ہی کیا ہے۔
جس طرح نائن الیون کے بعد دُنیا کا نقشہ بدل گیا تھا اسی طرح اب پیرس حملوں کے بعد بھی دُنیا میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوں گی اور اس کا سارا نزلہ مسلمانوں پر ہی گرایا جائے گا۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تمام دُنیا کے مسلمانوں نے پیرس حملوں پر شدید تنقید کی ہے مگر اس کے باوجود مغربی دُنیا مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلنے سے باز نہیں آتی۔ کون چاہتا ہے کہ اُس کے گھر میں خون کی حولی کھیلی جائے، وہ لوگ جو اپنا گھر بار چھوڑ کر پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں کیا کبھی کسی نے اُن کے دُکھ کا مداوہ کرنے کی کوشش کی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو طاقت وروں کے درمیان ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

پوری دُنیا دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے ، اور کرتی رہے گی، لیکن مغربی ممالک کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ بھی دوسروں کے گھروں میں آگ لگانا چھوڑ دیں ، نہیں تو اس کا انجام ایسے واقعات پر ہی ختم ہوگا، جس کی سزا صرف اور صرف معصوم لوگوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ پوری دُنیا میں داعش کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے، لیکن اس کے بنانے والوں کے مطلق بھی ہمیں سوچنا چاہیے کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے اس کی بنیاد رکھی اور اس کو اپنی مرضی سے استعمال کر رہے ہیں۔


کسی کے کندھے پر بندوق رکھ چلانابہت آسان ہیں لیکن اس کے نتیجے میں ہونے والی بربادی کی زمہ داری قبول کرنا بہت مشکل ہے۔ مغربی طاقتوں کو اب توازن کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے طاقت کے نشے میں اتنا بھی اندھا نہیں ہوچا چاہیے کہ انسانوں کی قدر ہی نہ رہے ۔ دُنیا کو امن کا گہورا اسی صورت بنایا جاسکتا ہے کہ سب کے ایک ساتھ لے کر چلا جائے ۔اپنے اپنے مفاد کی خاطر دوسرؤں کا گلہ کاٹنا کہاں کا انصاف ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :