بیمار سیاستدان اور حبس زدہ ماحول

اتوار 15 نومبر 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

پاکستان میں عجب طرز کا حبس زدہ ماحول بن چکا ہے ہے کہ جب تک احتجاج نہ کیاجائے جائز حق نہیں ملتا ۔ آئے روز کسی نہ کسی شعبے سے متعلقہ افراد ہاتھوں میں کتبے اٹھائے ،چیختے چلاتے سڑکوں پر نکل آتے ہیں جن کے ذہن میں طاقت کا گھمنڈہووہ ہاتھوں میں ڈنڈے لئے میدان میں نکل آتے ہیں۔ پھر کہیں تھوڑ پھوڑہوتی ہے تو کہیں دھونس دھمکی۔ دیگر شعبے توایک طرف رہے اب تو تعلیم کے شعبہ سے وابستہ افراد بھی سڑکوں پر آچکے ہیں۔

معمولی احتجاج پر گویا حکمرانوں نے کان نہ دھرے تو سڑکوں پر ٹائر جلانے کی باری آگئی کتنی ستم ظریفی ہے کہ قوم کی تقدیر سنوارنے والا استاد اپنی تقدیر کے لئے لڑرہاہے،واپڈا سے منسلک ملازمین بھی سڑکوں پر ہیں پہلے ڈاکٹرز، لیڈی ڈاکٹرز بھی میدان میں رہے،حد تو یہ کہ معذور افراد بھی اپنے حق میں نکلے۔

(جاری ہے)

شنید ہے کہ اب سرکاری ملازمین نے مشترکہ احتجاج کابھی لائحہ عمل تیارکرناشروع کردیاہے اس احتجاج کیلئے ایک نعرہ بھی تجویز کیاگیا ہے''حق دو یاماردو'' یقینا یہ مایوسی کی انتہا کو پہنچاہوا نعرہ ہے ۔


اکثر سوچاکرتے ہیں کہ پاکستان بحرانوں کی سرزمین تو مدتوں سے کہلارہی ہے آخر کیا وجہ ہے کہ یہاں کے حاکمین نے بھی اپنے انداز بدل لئے۔ کوئی جتنا بھی چیختا چلاتا رہے ان کے کان بند ہی دکھائی دیتے ہیں ۔کسی چیخ وپکار کی آواز ان کے کانوں تک نہیں پہنچ پاتی اور نہ ہی وہ کسی ایسی آواز کوسننا چاہتے ہیں جس میں درد ہو ، مطالبہ ہو ۔دیکھئے اب تو یہ حالت ہوگئی کہ لوگ احتجاج سے تھک کر خود کشی اورخودسوزی پر اتر آئے ہیں۔

کچھ ہی ماہ قبل سپریم کورٹ کے احاطے میں ایک مایوس پولیس ملازم نے خود سوزی کی کوشش کی۔ یہ یقینا احتجاج کی آخری اوربھیانک شکل ہے۔ہم اکثر کہاکر تے ہیں کہ جس معاشرے میں انصاف کا فقدان ہو وہاں پہلے صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے اورپھر یہ سلسلہ دراز ترہوتے ہوئے خود کشی اورخود سوزیوں تک پھیل جاتاہے پھر بھی آواز نہ سنی جائے تو پھر احتجاج کرنے والے مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔

لیکن پاکستان کے حکمران ہیں کہ گویا موت کی نیند سوئے دکھائی دیتے ہیں ان پرکسی احتجاج ، کسی چیخ ، کسی خود کشی ،خود سوزی اور موت کا اثر نہیں ہوتا کہ اثر تو وہ لیتا ہے جس میں روح ہو ، جو زندہ ہو ،جوسانس لیتا ہو، جو ان عوامل سے خالی ہوتا ہے وہ زندہ نہیں ہوتا۔
عزیزی خالد شہزاد کہتا ہے کہ پاکستان میں ایک ہی شئے اب بغیر احتجاج کے ملتی ہے ، اور و ہ ہے ''مہنگائی'' پاکستانی عوام احتجاج کریں یا نہ کریں ، مہنگائی تو مسلط ہونی ہے۔

پہلے مہینوں ہفتوں بعد مہنگائی بڑھا کرتی تھی اب تو یہ حالت ہوچکی کہ ہرروز مہنگائی کا مینار بڑ ے سے بڑا ہوتاجاتاہے۔عزیزی کی بات اپنی جگہ ،مہنگائی کا بڑھتا ہوا میناراپنی جگہ ،ایک ذہن میں آتی ہے کہ آخر حکمرانوں نے ذہن سے سوچنا اور آنکھوں سے دیکھنا چھوڑدیا ؟کیا انہیں خبر نہیں ہوتی کہ اس دھرتی کے محروم ومجبور عوام اپنے حق سے کیوں محروم ہیں؟ کہاجاتاہے کہ ملکی معیشت بحرانی کیفیت کا شکارہے؟ مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوگابلکہ یقینا ایسا ہی ہے لیکن خدا را یہ تو بتاؤ کہ ان بڑے بڑے ایوانوں ، بڑے لینڈ لارڈوں، وزیروں، مشیروں کے خرچ اخراجات کم ہوئے؟ کسی ایک شخص نے اسمبلی میں کھڑے ہوکر کہا ہو کہ '' میں اپنی قوم کے درد کو محسوس کرتے ہوئے اعلان کرتاہوں کہ آئندہ میں تنخواہ نہیں لونگا '' یا اسمبلی میں بیٹھے کسی لینڈلارڈ ، جاگیردار ، وڈیرے اور صنعتکار نے اعلان کیا ہو کہ وہ اپنی مال متاع پر ہی گزارہ کرلے اور حکومت پاکستان کے خزانے پر مزید بوجھ نہیں ڈالے گا اب تو یہ خبریں ایوانوں سے آنے لگی ہیں کہ خواتین ممبران اسمبلی اپنے میڈیکل بل میک اپ کے سامان کی خریداری پر خرچ کرتی ہیں۔

دور کیوں جائیں چند ماہ پہلے کے وہ اخبارات سامنے آجاتے ہیں جن میں انکشاف کیاگیا کہ ملک کے چھ ایوانوں کے ممبران کی صحت وتندرسی پر نظردوڑائے جائے تو لگتا ہی نہیں کہ کوئی بیمار پڑا ہے لیکن جونہی میڈیکل بلوں پر نظر پڑتی ہے محسوس یہی ہوتاہے کہ چھ کی چھ اسمبلیاں بیماروں سے بھری پڑی ہیں۔ کیا اسے ہی کہتے قوم کادرد؟بات ہورہی تھی احتجاج کی تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ احتجاج کرنے والوں ، سڑک پر ٹائر جلاکر ٹریفک بند کردینے والوں ، مطالبات کے حق میں گلے پھاڑپھاڑ کر نعرہ لگانے والوں کے روئیے بدل رہے ہیں۔

جو زیادہ مایوس ہوتاہے وہ خود کشی ،خود سوزی کرلیتاہے اور جو مایوس نہیں ہوتا وہ سڑکوں پر تو آتا ہے لیکن اس کی ٹون ، اس کاانداز اورہوتاہے ۔اس کی آنکھوں میں اتری سرخی کو دیکھاجائے تو ایک انقلاب کی نوید ہوتی ہے۔ سوچتے ہیں کہ جب ہم جیسا کم علم، ناقص العقل شص ا س سرخی کو واضح دیکھ رہا ہے تو پھر وہ حاکمین کیوں غافل ہیں جنہیں پوری قوم کی دھڑکن سنائی دینی چاہئے تھی۔

جیسا کہ پہلے عرض کرچکے ہیں کہ ان ایوانوں میں اگرکوئی جیتا جاگتا انسان ہوتا تو شاید ان پسماندہ ،درماندہ لوگوں کی چیخ وپکار ان کے کانوں تک پہنچ پاتیں لیکن یہاں تو ظاہرا زندہ مگر اصلا مردہ لوگ بستے ہیں۔
صاحبو!جانے کیوں ہماری نظریں تاریخ کی کتاب پر درج اس عجب جملے پر ٹھہر جاتی ہیں '' دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکاپیاسا مرگیاتو عمر قیامت کے روز جوابدہ ہوگا'' وہ بھی حاکم تھا ،جو لاکھو ں میل پر محیط مملکت کی حکمرانی کرتا تھا،یہ بھی ہمارے ہی ابا کی تاریخ ہے، کسی غیر مذہب، کسی دوسری دنیا سے وابستہ خالی خولی کہانی نہیں حقیقت کی دنیا میں پھیلی اور حقائق سے بھری داستان ہے جسے آج تک کوئی تاریخ دان نہ تو جھٹلا سکا اور نہ ہی جھٹلانے کی جرات کرسکے گا ۔

ہم تاریخ کی انہی کتب میں دیکھتے ہیں کہ خلیفہ وقت پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس رہتاہے ا س کی روزی روٹی عام مزدورکی طرح کے معاوضے پرچلتی ہے، ہاتھ تنگ ہوا خازن نے حالت دیکھتے ہی عرض کی '' یا خلیفہ المسلمین! اگرآپ اجازت دیں تو آپ کی تنخواہ میں اضافہ کردیاجائے'' خلیفہ نے کہا '' میں مزدور کے برابر تنخواہ لیتا ہوں ،جب سمجھوں گا کہ گزارہ نہیں ہورہاتو مزدور کی تنخواہ بھی بڑھا دونگا۔

سوچئے کہ آج کے زردار ، کسی شریف نے اپنے ابا کے کسی فلسفے کو سمجھنے کی کوشش کی؟ جواب تلاش کرنے کیلئے نہ تولمبی تگ ودو کی ضرورت ہے اور نہ ہی تاریخ کے اوراق پلٹنا پڑیں گے ، بغیر کسی حیل وحجت کے اس کاجواب ہوگا '' نہیں'' ۔سڑکوں پراحتجاج کرتے اور خودسوزیاں کرنے والوں کی آواز نہ سننے والوں کیلئے ایک چھوٹا سا پیغام یہ بھی ہے اس زمین نے نمرود کو بھی دیکھا اورفرعون کو بھی، جن کے دھن دولت اور سلطنت کے بارے آج کوئی حاکم تصور تک نہیں کرسکتا ، وہ جب چند فٹ کی قبر میں اترے تو کچھ ہاتھ میں نہ تھا۔

بلکہ ایک حاکم نے تو پیغام دیاتھا کہ جب مجھے دفن کیاجائے تو دونوں ہاتھ قبر سے باہر رکھنا کہ آنیوالوں کو یہ پیغام ملنا چاہئے کہ انسان دنیا سے جاتے ہوئے خالی ہاتھ ہی ہوتاہے۔یقینا اگرکوئی زردار ، کوئی شریف سمجھے تو اس کیلئے ایک عظیم درس ہے اگرکوئی نہ سمجھے تو تاریخ پر لکھی ہوئی تحریر ........ہاں اس تحریرکاباب ختم نہیں ہوا کہ ابھی قیام قیامت تک ہرحاکم کی تاریخ کے بعد لکھاہوتاہے ''جاری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :