اللہ ظالم حکمرانوں سے بچائے۔!

بدھ 11 نومبر 2015

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

وہ گہری سوچ یاسوچوں میں کہیں گم تھے ۔میں نے اس کے کندھوں پرہلکی سی تھپکی دیتے ہوئے کہا جوان سوچوں کے سمندر میں غوطے لگانے سے سروداڑھی کے بال سفید اورکئی طرح کی بیماریوں کاتحفہ ملنے سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔مجھے نہیں دیکھتے کہ دوسروں کے مسائل بارے سوچتے سوچتے میں نے اپنے سر کے آدھے بال سفید کردیئے ہیں ۔نوجوان اسی ماڈل گاڑی کی طرح سٹارٹ لیتے ہوئے میری طرف منہ موڑ کے گویا ہوئے ۔

جوزوی صاحب غریبوں کے پاس سوچنے کے سوا ہے ہی کیا۔۔۔۔؟ایک سوچ ہی توہے جس کے ذریعے غریب جیتے بھی ہیں اورمرتے بھی۔سوچیں نہ توخوش فہمی ماردیتی ہے اورگرسوچتے ہی رہیں توسوچ ایک نہ ایک دن جان کی دشمن بن جاتی ہے ۔میں نے کہا ایک گھر کانظام چلاتے ہوئے اس قدر سوچتے ہو ۔۔ملک کے صدر ۔

(جاری ہے)

۔وزیراعظم۔۔وزرائے اعلیٰ ۔۔وزراء اورمشیروں کونہیں دیکھتے جوپورے ملک کانظام چلاتے ہوئے بھی کبھی سوچ کے قریب سے بھی نہیں گزرتے۔

نوجوان جوشکل وصورت سے بہت سادہ لگ رہے تھے ۔اندر سے بڑے کھلاڑی نکلے۔کہنے لگے۔ جوزوی صاحب کیا بچوں والی باتیں کررہے ہو۔صدر،وزیراعظم،وزیر اورمشیر کیونکر سوچ کے قریب سے گزریں گے ۔۔؟وہ ملک ضرورچلاتے ہیں مگروہ حالات نہیں دیکھتے ۔صرف کاغذ دیکھتے ہیں ان کے سامنے جوفائلیں پڑی ہوئی ہوتی ہیں ان میں،، اوکے،، کے علاوہ کوئی دوسرالفظ نہیں ہوتا۔

صدر،وزیراعظم،وزرائے اعلیٰ،وزراء اورمشیروں کے ٹینشن فری دفاتر ،ریسٹ ہاؤسز اورشیشے نمامحلوں میں پڑی فائلوں سے صرف اورصرف ،،ترقی ترقی،، کی آواز سنائی دے رہی ہوتی ہیں۔صدر،وزیراعظم،وزراء اورمشیر جوبھی فائل اٹھاتے ہیں ان میں،، اوکے،، کی رپورٹ دیکھ کروہ پہلے سے زیادہ پرسکون اورخوش ہوتے ہیں۔اب آپ ہی بتائیں ایسے میں کیا ان کوکسی سوچ اورفکر کی کوئی ضرورت ہے۔

۔۔۔؟نوجوان نے بجائے سوچوں کی دلدل سے نکلنے کے مجھے بھی سوچوں کے گہرے سمندر میں ڈبودیا۔۔میں نے کہا نوجوان تم ٹھیک کہتے ہو۔۔صدر،وزیراعظم،وزراء اورمشیر کیا اس ملک کے جاگیرداروں،سرمایہ داروں ،وڈیروں ،خانوں اورنوابوں کوبھی ایک لمحے کیلئے سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔سوچ سوچ کے پاگل تووہ لوگ ہوتے ہیں جن کے سامنے مسائل کے انبار لگے ہوں۔

۔سوچتے وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھ اورپیٹ دونوں خالی ہوتے ہیں۔۔سوچنے سے وہ لوگ جان چھڑانہیں پاتے جوہروقت درد،تکلیف،پریشانی اورغم سے کراہتے ہیں۔۔سنگ مرمر سے بنے عالیشان محلات میں دن اوررات خراٹے مارنے والوں کاسوچوں سے کیا لینادینا۔حکومتی کاغذوں میں تواس ملک کاچپہ چپہ امن کاگہوارہ۔۔جنت کاٹکرا اورسکون کاآشیانہ ہے۔۔ظالم حکمرانوں کے نزدیک تواس ملک میں بسنے والے 19کروڑ عوام کوکسی مسئلے۔

۔پریشانی اورتکلیف کاکوئی سامنا نہیں۔۔گئے گزرے دور کی بات ہے کہ کسی ملک میں سخت قحط پڑی۔لوگ بھوک سے بلک بلک کرتڑپ رہے تھے ۔۔یہ منظر دیکھ کربادشاہ کی لاڈلی بیٹی نے کسی سے پوچھا کہ یہ کیاہورہاہے۔۔۔۔؟کسی نے جواب دیا کہ قحط سالی ہے ۔۔کھانے پینے کیلئے کچھ نہیں۔۔لوگ بھوک سے تڑپ تڑپ کرمررہے ہیں۔بادشاہ کی بیٹی نے کہا کہ یہ لوگ دہی اورچاول کیوں نہیں کھاتے۔

۔۔۔؟ہمارے یہ حکمران بھی بادشاہ کی اس بیٹی سے کچھ کم نہیں…سابق صدرمشرف سے جب کسی نے ٹماٹروں کی بڑھتی قیمت کے بارے میں پوچھا تواس نے کہا کہ لوگ ٹماٹرکھاناچھوڑدیں۔جب مشرف،نوازشریف اورزرداری جیسے حکمرانوں سے واسطہ ہوتوپھر غریب لوگ سوچ سوچ کے مریں نہ توکیا کریں۔۔۔۔؟حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے یہ حکمران یاتوعوام کواپنی طرح حکمران سمجھتے ہیں یاپھر کچھ سمجھتے ہی نہیں۔

۔حکمران اگرسمجھتے توپھر خیرخیریت توضرورمعلوم کرتے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ حکمران غریب عوام کوکچھ سمجھتے ہی نہیں۔۔ایک ٹکے کے افسر سے لیکر ربڑسٹمپ ممبر،ناظمین،اراکین اسمبلی ،وزیر،مشیر،صدراوروزیراعظم تک کسی کوغریب عوام کی کوئی فکر نہیں۔۔کسی ماتحت سے جب عوام کے کسی مسئلے کے بارے میں استفسار کیاجاتا ہے تونوکری بچانے کی خاطر وہ سنگین مسئلے کی رپورٹ بھی ،،اوکے،، میں دے دیتا ہے ۔

کسی جگہ اگرلوگ آگ میں جل بھی رہے ہوں توتب بھی ماتحت اپنے افسر،وزیر،مشیر،صدراوروزیراعظم کویہی رپورٹ دیتاہے کہ آگ کب کی بجھا دی گئی ہے ۔اس ملک میں منتخب ممبران اسمبلی سے لیکر صدراوروزیراعظم تک کسی کوعوامی مسائل پرلب کشائی اوران کوحل کرنے کی جرات وہمت نہیں۔جب ایسے حکمران ہوں توپھر غریب لوگ سوچ سوچ کرپاگل نہیں ہونگے تواورکیاہونگے۔۔؟جن لوگوں کے سینے میں دل نہیں ہوتا ایسے لوگوں کوغریبوں پرحکمرانی کاکوئی حق نہیں پہنچتا۔ایسے بے حس اورنااہل لوگوں کوہتھکڑیاں لگاکرجیلوں یاسمندرمیں پھینکناچاہیے تاکہ اس مٹی پرکوئی غریب بھوک وافلاس سے نہ تڑپے۔۔ اللہ سے دعا ہے کہ ایسے بے حس اورظالم ممبران اسمبلی،وزراء،مشیروں اورحکمرانوں سے ہرمسلمان کوبچائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :