گڈ بائے ……اسلام آباد

بدھ 11 نومبر 2015

Muhammad Nawaz Tahir

محمد نواز طاہر

جب بھی اسلام آباد آتا ہوں راولپنڈی ریلوے اسٹیشن یا فیض آباد چوک میں قدم رکھتے ہی دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ، قدم لاہور کی جانب مڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے جیسے کوئی کندھوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر دھکیل رہا ہے۔
اب کیوں ہوتا ہے،وجہ آج تک نہیں جان سکا
اسلام آباد پاکستان کا بڑا شہر ہے آبادی نہیں اختیار کے لحاظ سے اور بہت زیادہ با اختیار لوگ مجے بھاتے نہیں، البتہ خود مختار لوگ اچھے لگتے ہیں جو کچھ کچھ آزاد ہوتے ہیں ۔


دارالحکومت ہونے کے باوجود اسلام آباد خود مختار تو ہے ، آزاد دکھائی نہیں دیتا ۔ اس کے سر سبز درخت، دور سے خوبصورت نظر آنے والے پہاڑ لمبی لمبی سڑکیں ان پر رنگ برنگی قیمتی گاڑیاں، فٹ پاتوں پر چلتے ہوئے اپنی زبان یوں کر خوشی محسوس کرنے والے عام لوگ دوسرے شہروں سے آ کر ادھر اودھرنظریں گھمانے والے نامانوس چہرے، سبھی کے سبھی اس شہر سے نا خوش سے دکھائی دیتے ہیں، کبھی کسی کی زبان سے یہ نہیں سنا کہ وہ اسلام آباد شہر سے یہاں کے گلی کوچوں اور سڑکوں سے اس طرح کی نسبت رکھتا ہے جیسے کراچی کا بزنس روڈ، زیب النساء سٹریٹ، صدر بازار کا رش، عام بھی صاحب کیلئے پرکشش ہے۔

(جاری ہے)

لاہور کا مال روڈ ، پاک ٹی ہاؤسکی جائے۔ لکشمی کے مالشیے، اجڑے ہوئے رائل پارک کی بے رونق اور یہاں ساغر صدیقی کی بکھری یادیں…… گو لاہور میں فیض احمد فیض بھی بس نہر کنارے سڑک پر گھومنے انڈر پاس سے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ سعاد حسن منٹو کو لوگ بھول رہے ہیں پہلے تو منٹو پارک کے نام سے بھی کسی نہ کسی کو سعادت حسن منٹو بار آ جاتے تھے اب منٹو پارک لاری اڈے میں بدل رہا ہے تو جدھر گڈی،تیرا،ششترو، گولیر، سالارہ،کشتی،داباز، جنگی پانہ، گم پانہ، گڈا ،شرلہ اڑے۔

انہی کی ہوا سے اکھاڑوں کی مستی بھی اڑ رہی ہے۔
مینار پاکستان کا پارک شہری ترقی سے آدھا رہ گیا ہے شاہی قلعہ میں لوگوں کی مین گیٹ اور شیش محل کی حد تک تھوڑی سے کشش دکھائی دیتی ہے۔ پیر مکی صاحب کی گلی کو کیسی ”کٹر وہابی “ کی نظر لگی لگتی ہے ،داتا دربار پر رش اور رونق صرف فجر کی نماز میں پر کشش ہے جب پانچ کلو والی دیگ 12 کلو کے نام پر نہیں بیجی جا رہی ہوئی، میاں میر صاحب لوگوں کو عرس کے سوا خاص مریدوں کو جمعرات کے جمعرات باد آنے باقی تجاوزات نے ادھر رخ کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹ ڈال رکھی ہے ۔

شاہ جمال اور میانی صاحب کے کچھ مزارات پر ہر جمعرات کو رونق ضرور لگی ہوتی ہے جہاں پر رنگ ، نسل ، قومیت، گلی محلے اور طبقے سے تعلق رکھنے والے مست مست دم مار رہے ہوتے ہیں …
اسلام آباد کا سنا تھا کسی زمانے میں ستار خانون سے مل کر ہمیں جناح سپر مارکیٹ کی رونق بنی رہیں،رفتہ رفتہ یہی …بڑھ گئیں، اصلی ہماری قلعوں میں قید ہو گئیں۔


وسطی ایشیائی ریاستوں اور افغان سید چہرے غالب آ گئے، اب سنا ہے چھوٹی بڑی پرانی رونق گاہیں بھی آباد ہو گئی حصص اور ساری کی ساری رونقیں اسی طرح دیواروں کے اندر افروز ہیں۔ ان دیواروں کے روزن بھی بہت ہیں…سڑکوں پر کچھ دکھائی دیتا ہے کہ اسلحہ برادر ہوا میں نشانہ لیتے ہوئے …گزرنے والوں کی تلاشی لیستے ہوئے…سنا ہے کبھی کبھار کسی کی جیب سے قانون کے تحت ممنوعہ جسد گرام دوائی یا اس سے …شربت برآمد ہو جاتے ہیں، اس دن کو ترس گئے ہیں جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت میں کوئی ادارہ کسی عام یا خاص سے جمہوریت کی کوئی چڑیا برآمد کرے۔


ساری تو سناح حیات اسلام آباد میں سرقہ ہو گئی ہے نہ کوئی صحیح طرح سے مشکوک مقتدر ملزموں کی تلاشی لیتا ہے اور نہ ہی جمہوریت بازیاب ہوتی ہے …تھانہ اسلام آباد گھستے ہی انجانی قوت پھر …واپس نہ دھکیلے تو اور کیا کرے…اسے خوف سے کہ شکست کرنے کے الزام میں یہ نہ دھر لیے جانیں…گڈ بائے اسلام آباد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :