کشمیر برائے فروخت

بدھ 11 نومبر 2015

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

حلقہ 122کے الیکشن سے ایک روز پہلے محترم خواجہ سعد رفیق نے ایک مشہور اینکر کو بتایا کہ جن لوگوں نے کبھی کسی اخبار میں کوئی کالم نہیں لکھا ، جن کو بولنا نہیں آتا وہ بھی صحافی ہیں ۔ ایسے نام نہاد صحافیوں سے گزارش کریں کہ وہ سوچ سمجھ کر بات کریں اور فضول تبصروں سے عوام کو گمراہ نہ کریں۔ جناب خواجہ سعد رفیق نے بلکل سچ کہا اور اہلیان آزادکشمیر جناب نوازشریف سے یہی سوال پوچھتے ہیں کہ آپ نے باغ کے جلسہ عام میں جناب مشتاق منہاس کی کن خدمات کے عوض شکریہ ادا کیا اور وہ کون سے خفیہ مقاصد ہیں جن کی تکمیل مشتاق منہاس جیسے عظیم المرتبت انسان کے ہاتھوں تکمیل پذیرہونا قرار پائی ہے۔


کیا شاہی خاندان کے خدمتگار وں اور ملازموں سے کوئی بلبن ، ایبک ، نادر شاہ اورر ضاشاہ نہیں جسے والی کشمیر مقرر کیاجائے۔

(جاری ہے)

کیا تخت لاہور میں میہان سنگھ، دیہان سنگھ اور ھیرا سنگھ جیسے نادر و نایاب ہیرے بھی نہیں رہے کہ بات بنیی منہاساں تک جاپہنچی ہے۔
جہاں تک صحافت کاتعلق ہے تومشتاق منہاس نامی شخص جسے نہ بولنے کا سلیقہ ہے اور نہ لکھنے کا طریقہ ہے نہ کبھی کوئی کالم یا مضمون لکھا ۔

جناب نصرت جاوید کے سائے میں بیٹھنے والے مشتاق منہاس کو لوگ اتنا ہی جانتے ہیں کہ نصرت جاوید مشتاق منہاس کے غلط تلفظ پر اسے بار بار ٹوکتے اور شرمندہ کرنے کی کوئی کسر باقی نہ چھوڑتے تھے۔ اگر مشتاق منہاس نامی صحافی نے کوئی کالم ، کتاب ، مضمون ، ناول ، افسانہ یا غزل نہیں لکھی تو شہنشاہ معظم نے کس بنا پر اُسے جناب مشتاق منہاس کہہ کر کشمیریوں کا مذاق اُڑایا ہے۔


کیا چائینہ کٹنگ ، پلاٹوں میں ہیرا پھیری ، لینڈ مافیا اور پلاٹ مافیا کی ممبر شپ مستقبل کے حکمرانوں کی کو الیفکیشن ہے؟ کسے پتہ نہیں کہ کشمیر ہاؤسنگ سوسائٹی کی چےئرمینی ، کشمیر کمیٹی اور سینٹ کے چےئرمین سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔ کشمیر ہاوسنگ سوسائٹی کی چےئرمینی کیوں ملتی ہے یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں یہ بات بھی یقینی ہے کہ جب کبھی اس ملک کے عوام کی تقدیر نے کروٹ لی اور چوروں لیٹروں کا صاف وشفاف احتساب ہوا تو کشمیر ہاؤسنگ سوسائٹی اور جرنلسٹ ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہونے والے گھپلوں میں ایسے ایسے نام آئینگے جن کے منہ اور قبروں پر بھی لوگ تھوکیں گئے۔

جمہوریت عوام کے حقوق کی حفاظت اور عوامی فلاح و بہبود کا نام ہے سیاست کا مطلب ملاپ ، بھائی چارہ ، اور ددکھ درد بانٹنا ہے۔ لوٹ کھسوٹ اور قومی وسائل پر ڈاکہ جمہوریت نہیں اور نہ ہی ایسی حکومت کا سربراہ صدر یا ویزراعظم کہلوانے کا حق رکھتا ہے جسطرح کے حکمران پاکستان اور آزادکشمیر کے عوام پرمسلط ہیں۔ وہ بدترین سیاسی ڈکیٹر اور مطلق العنان بادشاہ ہیں جن پرآئینی ، قانونی اور اخلاقی پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔

اقرباء پروری کا یہ حال ہے کہ حکمرانوں کا سار ا خاندان قو می خزانے کامالک اور حکومتی امور میں کسی نہ کسی صورت مداخلت کا حقدار ہے۔ اگرمیاں نواز شریف بادشاہ نہ ہوتے تو انہیں بحیثیت چیئرمین کشمیر کونسل اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا اور وہ آزادکشمیر میں گڈ گورننس ، امن و امان اورعوامی خواہشات کا خیال اور احترام کرتے ہوئے ایک کرپٹ ، غیر سنجیدہ اور برادری از م کے سہارے کھڑی حکومت کے ہمنوانہ بنتے ۔


جمہوری نظام حکومت میں کرپٹ حکمرانوں کے خلاف عدم اعتماد عوام کا حق ہوتا ہے مگر شہنشا ہ معظم نے پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونے والی باری بدل معاہدئے کو آزادکشمیر کے عوام پر جبراً مسلط کیا اور مشتاق مہناس جیسے لوگوں کی بارگین کو اولیت دیتے ہوئے آزادکشمیر کے عوام کے حق میں عدم اعتماد پر شاہی فرمان جاری کرتے ہوئے اسے نہ صرف رد کر دیا بلکہ عوامی قائدین کی سر زنش بھی کی۔


اگر میاں صاحب کا مزاج جمہوری ہوتا تو وہ سب سے پہلے یہ پتہ چلاتے کہ ایک معمولی رپورٹر اور لفظ چبا کر غلط اُردو بولنے والا معاون اینکر کس خوبی کی بنا پر کشمیر ہاؤسنگ سوسائٹی کا چےئرمین بنا اور اس کے پیچھے کونسی قوت ہے جواس غیر اہم شخص کو بطور مہرہ استعمال کر رہی ہے۔ حکومت پاکستان اور متعلقہ اداروں کو اس افواہ کی بھی کھوج لگانی چاہیے تھی کہ حکومت بچانے کے لیے مجیدی ٹولے نے مشتاق منہاس کے ذریعے کروڑوں روپے ادا کیے جو نہ جانے کس کی جیب میں گئے مگر یہ سب نہ ہوا تو اب دورہ باغ بھی مشتاق مہناس کی خواہش پر ہوا اور ظل الٰہی نے جناب مشتاق منہاس کہہ کر آزادکشمیر کے عوام اور جمہوری عمل کا مذاق اڑایا ۔


کہتے ہیں کہ جنرل ایوب خان ہری پور میں جلسہ کرنے آئے تو ریحانہ کے پٹواری نے اُن کی والدہ سے درخواست کی کہ اس کی پٹوارانہ خدمات کے صلے میں اُسے ایوب خان کے لیے بنائے گئے سٹیج کے کسی کونے میں ایک کرسی پر بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔ ایوب خان کی والدہ نے پوچھا کہ سٹیج پر بیٹھنے کا تمہیں کیا فائدہ ہوگا۔ پٹواری نے کہا آپ مجھے سٹیج پر بٹھا دیں فائدہ میں خو د حاصل کر لونگا۔

ٹی وی رپورٹر ہو یا معاون اینکریا پٹواری جب اُن کی خواہشات سٹیج پر بیٹھنے تک پہنچ جائیں تو وہ سٹیج گرانے کا کا م بھی کر لیتے ہیں ۔ جب حکمران ایسے لوگوں کو سٹیج تک رسائی دیتے ہیں تو انکا اپنا کردار بھی مشکوک ہو جاتا ہے۔
کیا شاہی خانوادے کو پتہ نہیں کہ سٹیج کیسے اُلٹ دیے جاتے ہیں اور عام لوگ حکمرانوں اور بادشاہوں کو سٹیج سے اُٹھا کر سٹریچر پر لاد دیتے ہیں ۔

یوں تو برصغیر کی تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ نہیں کہ عوام حکمرانوں کا احتساب کرنے اُٹھ کھڑے ہوں یہ خطہ سازشوں کا ہے انقلابوں کا نہیں اس مٹی کے باسی نسل در نسل شاہ پرست ، تابعدار اورحکمرانوں کے وفادار رہے ہیں ۔ معلوم تاریخ کے مطابق یونانیوں ، ایرانیوں ، ترکوں ، عربوں، مغلوں ، افغانوں اور انگریزوں نے طویل عرصے تک اس خطہ پر پورے طمطراق کیساتھ حکومت کی اور یہاں کے عوام نے غلامی کے آداب و اطوار قائم رکھتے ہوئے حکمران طبقے کے جبر و ظلم کو تقدیر سمجھ کر برداشت کیا۔

مغلیہ حکومت کمزور ہوئی تو تیمور ، نادر شاہ اور احمد شاہ نے اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی مگر سوائے سکھوں کے کسی نے مزاحمت نہ کی۔
مقامی سطح پر سکھوں ، جاٹو ں ، گجروں اور مرہٹوں نے بھی اپنی تلواروں ، نیزوں ، کر پانوں اور کلہاڑوں کا بے دریغ استعمال کیا مگر نہ کوئی بغاوت ہوئی اور نہ انقلاب آیا۔
پانی پت سے پشاور تک اُلو بولنے لگے تو رنجیت سنگھ پہلا مقامی حکمران سامنے آیا جس نے خدا کی زمین پر مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا ۔

رنجیت سنگھ نے پنجاب کے سازشی ٹولے کو ساتھ ملایا اور انہیں جاگیریں دیکر عوام کی سرکوبی پر لگا دیا ۔ سکھا شاہی کے بعد انگریزوں نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنائی اور مقامی جاگیرداروں کے علاوہ پیروں اور گدی نشینوں کو بھی ساتھ ملا لیا۔
پاکستان بنا تو بانی پاکستان کے خلاف سازشی ٹولے نے اتحاد کر لیا ۔ انہیں سازشوں کی وجہ سے کشمیرپر بھارت کا قبضہ ہوا اور قائداعظم  کے بعد جاگیرداروں ، پیروں اور گدی نشینوں نے نودو لیتوں ، سمگلروں اور جرائم پیشہ لوگوں کو ساتھ ملا کر سیاست کو نیا رنگ و روپ دیا۔

فوجی اور نام نہاد جمہوری حکمرانوں نے جبر ،ظلم اور کرپشن کے نئے طریقے متعارف کروائے اور ملکی سطح پر ایک نئی اشرافیہ نے جنم لیا۔
جنرل پرویز مشرف نے پاکستان نثراد امریکی شہری شوکت عزیز کی مدد سے عوام کش پالیسیاں بنائیں اور جاتے جاتے این آراو کے نفاذ سے جرائم پیشہ افراد کو ملک پر حکمرانی کا حق دے دیا۔
آصف علی زرداری نے این آر او کا بھرپور فائدہ اُٹھایا اور کرپشن ، لوٹ مار اور لاقانونیت کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے ۔

پیپلز پارٹی اور نو ن لیگ میں ہونے والے معاہدے کے مطابق اب جمہوریت نما آمریت کا دوسرا پنج سالہ دور شروع ہے جسے اڑھائی سال گزر چکے ہیں ۔ ٹیلی ویژن پروگراموں پر ہونے والے واویلے کے مطابق ان اڑھائی سالوں میں حکمران طبقہ قریباً اڑھائی کھرب روپے کی لوٹ مار کر چکا ہے مگر عوامی نفرت و حقارت کا سامنا کرنے کے بجائے اڑھائی سوفیصد مقبولیت کا بھی دعویدار ہے۔

کرپشن اور لوٹ مار میں جہاں دیگر لوگ شامل ہیں وہاں نام نہاد صحافی بھی کسی سے پیچھے نہیں ۔ حکمرانوں کا ذہنی ، اخلاقی اور عوامی خدمت کا معیار یہ ہے کہ ہاؤسنگ سوسائیٹیاں جن کی کرپشن ، چائنا کٹنگ ، لینڈ گریبنگ کے قصے زبان زد عام ہیں،اور یہی لوگ وزیراعظم کے میڈیا سیل کے ممبر اور آنکھ کا تارا ہیں ۔ جناب وزیراعظم جو در حقیقت ملک کے بادشاہ ہیں ،کے دورہ باغ نے آزادکشمیر کے عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ آزادکشمیر کے عوام اور نام نہاد سیاسی قائدئین کی کوئی اہمیت نہیں ۔

سٹیج پر ریحانہ ضلع ہر پوری کے پٹواری کی طرح مشتاق منہاس کو بٹھا کر آزادکشمیر کے عوام کو پیغام دیا گیا ہے کہ آپ کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں ۔ آزادکشمیر کا اگلا حکمران مشتاق منہاس ہے یا پھر جو کوئی بھی حکمران بنایا گیا وہ مشتاق منہاس کے ہی تابع فرمان ہوگا۔
جب سے مشتاق منہاس اینڈ کمپنی نے بہترین ڈیلرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کونا کا م بنایا ہے وہ عملاً چوہدری ریاض اور محترمہ فریال تالپور کی جگہ لے چکا ہے۔

آزادکشمیر کے سارے معاملات مشتاق منہاس کی مرضی سے چلتے ہیں جبکہ جناب فاروق حیدر ، سردار سکندر حیات اور دیگرلیگیوں کو کیپٹن صفدراور حمزہ شہباز شریف سے ملنے یا بات کرنے کے لیے باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کی اشک شوئی کے لیے راجہ ظفر الحق کو بھی کچھ اختیار ہے مگر وہ صرف حوصلہ افزائی اور صبر کی تلقین ہی کر سکتے ہیں۔
یہ بھی خبر ہے کہ الیکشن سے پہلے آزاد کشمیر میں نون لیگ کی قیادت ہی بد ل دی جائے گی اور موجودہ سینئر وزیر حکومت آزادکشمیر اور مشتاق منہاس صف اول میں آجائینگے ۔

مشتاق منہاس کو پاکستان میں مہاجرین کی سیٹ پریا پھر آزادکشمیر میں ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر کامیاب کروا کر وزرات عظمیٰ کا قلم دان دیا جائے گا۔ سینئر وزیر کووزرات عظمیٰ ملنے کی صور ت میں مشتاق منہاس کو صدر آزادکشمیر بنانے کا بھی پروگرام ہے۔
آزادکشمیر کا صدر یا وزیراعظم کوئی بھی ہو یہ وزیراعظم پاکستان اور حکمران جماعت کا صوابدیدی اختیار ہے جسے آزادکشمیر کے عوام رد کر نیکا اختیار نہیں رکھتے ۔

وزیراعظم اور شاہی حکمران ٹولہ جو چاہے کر سکتے ہیں مگر آزادکشمیر میں بسنے والی غلام رعایا کو اتنا تو بتایا جائے کہ مشتاق منہاس نے شاہی خاندان اور حکومت کی کونسی خدمت کی ہے جس کی وجہ سے وہ حکومت اور حکمران کی آنکھ کا تارا ہے۔
وزرات اُمور کشمیر اور کشمیر کونسل کے اعلیٰ زہنوں کو پتہ ہوگا کہ معاہدہ کراچی اور اقوام متحدہ کیساتھ ہونے والا معاہدہ ابھی تک ختم نہیں ہو ا۔

ان معاملات کے تحت حکومت پاکستان اس بات کی پابند ہے کہ وہ آزادکشمیر میں کسی قسم کی جغرافیائی تبدیلی نہ کرے اور آزادکشمیر کے عوام کو ان کی خواہشات کے مطابق جینے کا حق دے۔ ان معاہدوں کے تحت حکومت پاکستان آزادکشمیر میں امن ، خوشحالی اور عمدہ انتظامی امور کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے۔ ان معاہدوں کی رو سے آزادکشمیر کی حدود میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کا کردار غیر قانونی ، غیر آئینی اور مذکورہ معاہدوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

وزرات امور کشمیر ، کشمیر کونسل سمیت چیئرمین کشمیر کونسل نے آزادکشمیر کی موجودہ حکومت کی کھلی کرپشن کی حمایت کر کے ان معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے ۔کیا چےئرمین کشمیر کونسل کو پتہ نہیں کہ وہ موجودہ حکومت نے جاگراں پاور پراجیکٹ میں کرپشن کے ذریعے پیسہ کمایا جس کی وجہ سے جاگراں 2اور3نہ بن سکے ۔ آزاد حکومت کے ایک وزیر نے غیر قانوی کھدائی کروا کر آثار قدیمہ کی نادر و نایاب اشیاء جن میں سکے ، تختیاں ، مورتیاں ، مجسمے ، بھوج پتر ، پانی کے ٹب نکال کر بیرون ملک سمگل کر دیے ہیں۔

کئی ماہ تک وادی نیلم کے صحافیوں اور عوام نے احتجاج کیا تو عدلیہ کے حکم پر ایک ٹب واپس کیا گیا جو کچھ عرصہ تک مظفرآباد سول ہسپتال میں پڑا رہا اور پھر غائب ہوگیا۔
اسی وزیر نے وادی نیلم سے بہت سی نایاب جڑی بوٹیاں نکلو ا کر افغانستان کے راستے بھارت بھجوا دیں اور اب یہ جڑی بوٹیاں وادی نیلم کے بجائے مقبوضہ علاقے میں نرسریوں کی صور ت میں اُگائی جا رہی ہیں ۔

حکومت نے قیمتی پتھروں جن میں نیلم اور جیٹر سرفہرست تھا کا ٹھیکہ ایک کنیڈین کمپنی کو دیا جسکا مالک بھارتی سکھ تھا۔ اس پر بھی عوام نے شور مچایا مگر کسی نے نہ کسی ۔ کمپنی نے آزادحکومت کی جیب گرم کی اور قیمتی خزانہ لے اُڑی ۔ کیا مشتاق منہاس نے میاں صاحب کو نہیں بتا یا کہ میرپور میں چک ریحام اسلام گڑھ پل حکومتی کرپشن کے باعث مکمل نہیں ہوا اور حکومتی وزراء نے کمیشن کمانے کی خاطر بیشمار سٹرکوں کا ٹھیکہ دیکر انہیں کھدوادیا جو شاہد کبھی بھی مکمل نہ ہونگی ۔

مجید حکومت نے جنگلا ت کی بے رحمی سے کٹائی کروائی اور جو پہاڑ دس سال پہلے سرسبز وشاداب تھے وہ عیتق اور مجید کی حکمرانہ صلاحیتوں کی وجہ سے اب مٹی کے ڈھیر ہیں ۔ مشتاق منہاس جیسے کرداروں کاحکمرانوں کے قریب ہونا اور کرپٹ حکومت بچانے کے لیے بارگین کروانا آزادکشمیر کے عوام کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ آزادکشمیر کا ہر ذی شعور شہری یہ جاننا چاہتا ہے کہ کیا حکومت پاکستان اور حکمران ٹولے نے آزادکشمیر کو ہاؤ سنگ سوسائٹی کا درجہ دے دیا ہے اور اسے سیاسی ڈیلروں کے ہاتھ نیلام کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

کیا آزادکشمیر واقعی برائے فروخت ہے اور لینڈ مافیا الیکشن کی آڑ میں بولی لگانے والا ہے۔ اگر ایسا نہیں تو مشتاق منہاس کی خدمات سے عوام کو آگاہ کیا جائے ۔ اگر مشتاق منہاس نے مجید خاندان یا پرپھر میاں صاحبان کی کوئی خدمت کی ہے تو اُسے اپنی کسی فیکٹری یا مل میں نوکری دیں عوام پر مسلط نہ کریں ۔ نپولین کی طرح اگر میاں صاحبان اپنے نوکروں ، ملازموں ، قصیدہ خوانوں اور دوستوں کو بادشا ہیاں عطا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کوئی روک نہیں سکتا ۔مگر میاں صاحبان یہ بھی یاد رکھیں کہ نپولین کا کیا انجام ہوا اور اُس کے بنائے ہوئے بادشاہ کہاں گم ہوئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :