پاکستان کے مستقبل کا تعین؟

ہفتہ 7 نومبر 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

بحیثیت قوم ہمیں کبھی تو اس بات پر سوچنا چاہیے کہ ہم اس وقت کہاں کھڑئے ہیں اور کیا جہاں کھڑئے ہیں وہ درست جگہ ہے، قومیں ہوں ملک یا افراد کسی نہ کسی اصول ضابطے اور قانون کے تحت ہی زندہ رہتے اور زندگی گزارتے ہیں۔ اس سوال کو بھی اب گے بڑھانے کی ضرورت ہے کہ ایک قوم یا قومی وحدت کے لئے جن لواز مات کی ضرورت ہوتی ہے کیا وہ ہمارے پاس ہیِں؟ ہم فرقوں، گرہوں، گوتوں ،نسلی و علاقائی تفاخر کے خود ساختہ شکار ہیں ۔

ان حالات میں ہمارے اندر قومی وحدت کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟ بڑی معذرت کے ساتھ ہمارا آج کا دانشور اس طرح کے سوالوں کے جواب دینے اور اٹھانے سے قاصر ہے۔
ہمارا ملک دنیا کے ایسے خطے میں واقع ہے جہاں زرعی، معدنی اور دیگر شاندار قدرتی خزانوں کی ساتھ ساتھ بہترین آبی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔

(جاری ہے)

جس کی اہمیت ،آفادیت اور قدرتی خزانوں سے مالا مال حیثیت کودنیابھی تسلیم کرتی ہے اگر ہماری حکمران اشرافیہ اور قومی ادارئے تھوڑی سے بھی توجہ دیتے تو ہم نہ صرف دولت مند ملک ہوتے بلکہ ہماری عوام حقیقی معنوں میں دودھ اور شہد کی نہروں سے مستفید ہوتی۔

اگر قدرت کی ان نعمتوں کو بروئے کار لایا جاتا تو پاکستان دنیا کا خوشحال ترین اور ترقی یافتہ ملک بن سکتا تھا مگر افسوس کہ حکمران طبقے کی لوٹ مار اور خود غرضی کی وجہ سے وطن عزیز آج بھی مختلف گمبھیرمسائل میں گھرا ہوا ہے۔
کبھی ہمارا ایک ہی دشمن ہوا کرتا تھا آج یہ حالت ہوچکی ہے کہ ہماری سرحدوں کے ساتھ لگنے والے تقریباً تمام ممالک کسی نہ کسی شکل میں ہم سے شاکی اور کسی حد تک دشمنی کے قالب میں ڈھل چکے ہیں ۔

امن و امان کے حوالے سے ہمارے اندورنی حالات بھی کوئی خوش آئند نہیں دہشت گردی ،انتہا پسندی اور عدم روداری کے حامل معاشرے کو دیکھتے ہوئے دنیا ہمیں الگ تھلگ کرنے کے درپے ہے۔لیکن ہم پھر بھی کسی بھی بات پر سیریس ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
پشاور سکول واقعے کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ ،میں شدت اور قومی ایکشن پلان کے بعد جس سبک رفتاری سے قومی سطع پر فیصلے ہوئے اور دہشت گردوں کے خلاف اقدمات کئے گئے اس سے یہ امید بندھ چلی تھی کہ ملک سے دہشت گردی، انتہا پسندی اور نفرت انگیزی کا خاتمہ اب دنوں کی بات ہے مگر افسوس کہ یہ امید بھی ٹوٹتی نظر آرہی ہے ۔

انتہا پسندی نفرت انگیزی اور عدم رواداری کا چلن معاشرے میں نہ صرف رائج ہے بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔جس کی بنیادی وجہ قومی بیانیے ، نصاب اور حکمران اشرافیہ کی سوچ کا تبدیل نہ ہونا ہے۔
دنیا کی ترقی معاشی ترقی کی مرہون منت ہے ہمارا اس جانب شائد کوئی بہت زیادہ دھیان نہیں ہے یہ بات ٹھیک ہے کہ چین کے جنوب مغربی اور پاکستان کے شمال مشرقی سرحدی خطے میں "ٹرانسپورٹ و معاشی کاریڈور" کے قیام سے دونوں ملکوں کی علاقائی معیشت، ٹرانسپورٹ اور ٹیلی کمیونیکیشنز کے انفرا سٹرکچر کو ترقی دینے کا موجب بنے گا۔

" جب ہم اپنے اس تصور کو عملی شکل دیں لیں گے تو اس سے چین، جنوبی ایشیا اور کلی طور پر ایشیا کو ترقی دیے جانے کی تزویری اہمیت سامنے آئے گی اس نوع کا "کاریڈور" ایک بہت بڑے خطے کا احاطہ کرے گا جس سے ایشیا کے ساتھ ہمہ جہتی تعاون اور سلامتی کے ضمن میں راہیں کھل جائیں گی۔
تعلیم ، صحت اور حکمرانی کی کمزوریوں اور اراضی سے متعلق اصلاحات کے فقدان نے پاکستان کو عالمگیریت کا ہدف بنادیا۔

ہم ایسا کچھ بھی نہیں بناتے جسے خریدنے کے لیے دوسرے بے تاب ہوں۔ علاقائی پیمانے پر بھی پاکستان تجارت کے قابل نہیں رہا۔ پاکستان کو حقیقی معنوں میں جنوبی ایشیا کا ملک بن کر دکھانا ہے۔ اسے بھارت کے ساتھ کئی منصوبوں میں اشتراک عمل کرنا چاہیے تاکہ دوستی کی پائیدار بنیادیں قائم ہوں اور امن کی راہ ہموار ہو۔ بیرونی قوتوں سے اپنی خود مختاری کو بچانے اور سالمیت برقرار رکھنے کے حوالے سے پاکستان کو بہت کچھ کرنا ہے۔

پڑوسیوں کے معاملے میں بھارت قدرے جارحانہ رویوں کا حامل رہا ہے مگر پاکستانیوں میں اپنے مفادات کے دفاع کی صلاحیت موجود ہے۔ بھارت میں بھی ایسے لوگ بہرحال موجود ہیں جو پاکستان سے بہتر تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت کے پاس واحد حقیقت پسندانہ آپشن اشتراکِ عمل اور تعاون کا ہے۔ پاکستان نے تجارت کے حوالے سے بھارت کو سب سے پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا تھا ، اِس سے دونوں ممالک کے لیے مواقع پیدا ہوں گے، کیا یہ اقدام امن عمل کی جانب پیش قدمی ثابت ہوگا۔

فی الحال اِس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ پاکستان اور بھارت کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے اور ایک دوسرے کے بغیر بھی نہیں چل سکتے۔
دوسری جانب پاکستان کے معاملے میں امریکا کا کردار ملا جلا رہاہے۔ امریکہ نے 1998میں بھارت کو جوہری تجربات کے بعد جوہری قوت کی حیثیت سے تسلیم اور قبول کیا۔ پاکستان کے معاملے میں بھی ایسا ہی کیا جانا چاہیے تھا۔

لیکن کیا نہ گیا وہ اگر ایسا کرتا تو پاکستان بہت سے معاملات میں متوازن رویہ اپنانے کے قابل ہو جاتا۔ وہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے معاملے میں اعتدال کی راہ پر گامزن رہتا۔ امریکہ نے پاکستان کو جوہری طاقت کی حیثیت سے قبول نہ کیا، تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جوہری ہتھیار بناتا گیا۔ پاکستان کو محض فوجی امداد دیتے رہنے کے بجائے امریکیوں کو اس کے ساتھ تجارت پر بھی توجہ دینی چاہیے تھی جو نہ دی گئی جس پر ہم نے بھی اصرار نہیں کیا۔


ہیمں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تجارت پر توجہ دینی چاہیے۔ بھارت تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ اس سے بہتر اشتراک عمل پاکستان کے لیے بہت سی مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ پاکستان، ایران اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبہ اچھا ہے۔ اس سے خطے میں تعاون کی فضا ہموار ہوگی۔ ہمیں اس منصوبے کی مخالفت کرنے والوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے صرف اپنے قومی مفادات کو مد نظر رکھنا چاہیے اس طرح کے منصبوں سے ہماری معیشت مستحکم ہوگیبلکہ اس کا فائدہ افغانستان، بھارت اور پاکستان کو بھی پہنچے گا۔


اور کرنے کا ایک کام یہ بھی ہے کہ ہماری قیادت کو ان لوگوں سے بات چیت کے معاملے میں بہادر ثابت کرنا ہو گا ، جو ہر معاملے میں جدت کے خلاف ہیں اور ملک کو ماضی کے یادوں میں غرق اور اس ماحول کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :