مشرق وسطی کی جغرافیائی توڑ پھوڑ

جمعرات 5 نومبر 2015

Badshah Khan

بادشاہ خان

دنیا بھر میں پھیلے خفیہ ادارے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے ہمیشہ خفیہ سرگرم رہتے ہیں اور پس منظر میں رہ کر پروپیگنڈے کے ذریعے اپنے مقاصد کے تکمیل کے لئے لابنگ کرتے ہیں،بہت کم ہی سامنے آتے ہیں اور اس طرح کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کیا ہوا؟ کیا ہورہا ہے؟ کون ملوث ہے؟کس نے کروایا؟مگر یہ کیا؟ دو ایٹمی ممالک کے مرکزی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان نے امریکہ میں سیمنار سے نہ صرف خطاب کیا بلکہ مشرق وسطی کے مستقبل پر تفصیلی روشنی ڈالی جس میں کئی ممالک کے لئے پیغامات بھی تھے،کئی ممالک کو تقسیم ہونا لازمی کہا اور کئی ممالک کو ان اثرات سے محفوظ قرار دیا تاکہ وہ ممالک امریکی چھتری سے باہر نہ نکلیں،اورایسا ہر گز نہیں ہے۔

تین سال قبل میں اپنے ایک کالم ” مشرق وسطی کی نئی تقسیم“ میں مغربی ممالک اور اسرئیلی گٹھ جوڑ کے حوالے سے تحریر کیا تھا کہ آنے والے سالوں میں شام ،عراق سمیت سعودی عرب کی تقسیم کی سازش تیار ہے،جس کے بعد شام و عراق میں جو ہوا سب کے سامنے ہے اور سعودی عرب کو بھی جنگ میں دھکیل دیا گیا مگر اب اسے لولی پوپ دیا جارہا ہے کہ سب کنٹرول میں ہے،مگر ایسا کچھ نہیں ہے،۔

(جاری ہے)


امریکہ میں ہونے والی کانفرنس میں دو ایجنسیوں کی سربرہان کی گفتگو نے گزشتہ 15 برس سے مختلف ذرائع سے مشرق وسطی کے منظر عام پر آتے نقشوں کو زبان دے دی وہ بھی جو دنیا بھر کے معاملات میں ٹانگ اڑتے رہتے ہیں ، جنہیں بین الاقوامی سطح پر سرپرستان عالم کہا جاتا ہے ظاہر ہے جنہوں نے یہ نقشے ترتیب اور بنائیں اور ان میں کمزور اقوام خصوصا مسلمانوں کے لہو سے رنگ بھرا، یہ بات ان کی زبان سے ہی معتبر سمجھی جائے گی۔

فرانسیسی خفیہ ایجنسی ڈائیریکٹوریٹ جنرل آف ایکسٹرنل سیکورٹی کے سربراہ برنارڈ باجولٹ نے کہا ہے کہ ہم جس مشرقِ وسطیٰ سے واقف تھے وہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکا۔ امریکی دار الحکومت واشنگٹن میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں سراغ رسانی کے حوالے سے ایک کانفرنس میں اپنے خطاب میں برنارڈ باجولٹ نے کہا کہ شام جغرافیائی طور پر تقسیم ہوچکا ہے ۔ اسد حکومت دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آنے والی ریاست کے بہت چھوٹے حصے پر قابض ہے ۔

شمال میں کردوں کا قبضہ ہے تو ملک کے وسط میں داعش ہے کچھ یہی صورت حال عراق کی ہے ۔ اب ناممکن ہے کہ اس کی سابقہ ہیئت برقرار رہے ۔ برنارڈ کا کہنا تھا کہ خطے میں مستقبل میں استحکام تو آئے گا، لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد کھینچی گئی سرحدیں باقی نہیں رہیں گی۔ اس کانفرنس سے امریکا کے مرکزی خفیہ ادارے سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ جان برینن نے بھی خطاب کیااور کہا مشرق وسطیٰ کے بعض حصوں میں جاری تنازعات کا فوجی حل ناممکن ہے 'بعض ممالک کی موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں مؤثر مرکزی حکومتوں کے قیام کی تصویر دھندلی نظر آرہی ہے '۔

جب میں لیبیا ، شام، عراق اور یمن کی جانب دیکھتا ہوں تو میرے لیے ان ممالک میں ایک ایسی مرکزی حکومت کا تصور کرنا بھی مشکل ہوتا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد ماضی میں کھینچی گئی سرحدوں کے مطابق ان ملکوں پر اپنا قبضہ اور انتظام قائم کرسکے ان ممالک میں جاری تنازعات کا فوجی حل ناممکن ہے ۔ تنازعات کے حل کے لیے آپ کو درجہ حرارت کم کرنے اور تنازع کی شدت کو نیچے لانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔

پھر آپ وہاں موجود ان تمام فریقوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کرتے ہیں جو تنازعات کے پرامن حل میں سنجیدہ ہیں۔
کشمیر،فلسطین،افغانستان،عراق تیونس ،سے لیکر برما ،لیبیا مصر اورشام تک ایک عجیب و غریب صورت حال ہے ،کہیں تبدیلی کی لہر ہے؟ کہیں بادشاہتوں کو ختم کیا جارہا ہے تو کہیں جمہوری حکومتوں کو گرایا جارہا ہے ۔کہیں عوام کی آزادی رائے کا نام استعمال کیا جارہا ہے اور کہیں مذہبی شدت پسندی قرار دیکر عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا جارہا ہے ۔

تو دوسری طرف اسرائیل نے فلسطین پر اپنے ناجائز قبضے کو مضبوط کرنے کیلئے نئے منصوبوں کا اعلان کردیا ہے۔اورتیسری جانب مسلم ممالک اور اس کے حکمران تقسیم ہیں،ان بیانات کو دیکھ کر عراق کی شیعہ، سنی اور کرد، جب کہ شام کی شیعہ، سنی، کرد اور دروز ریاستوں میں تقسیم یقینی نظر آتی ہے ، لیکن کیا یہ تقسیم خانہ جنگی یا شورش کا نتیجہ ہے ؟ ہرگز نہیں! یہ جنگ امریکا اور اس کے اتحادیوں، اسی طرح روس اور اس کے حامیوں نے مل کر کھڑی کی… البتہ اس میں اصل کردار امریکا کا ہے جو خطے میں اسلام پسندوں کے اثر و رسوخ اور قوت کے حصول کے باعث اسرائیل کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے،اور اسرائیل نے خطے میں جاری جنگ سے خوفزدہ عرب ممالک سے تعلقات مضبوط کرنا تیز کردیے ہیں ،حالیہ دنوں اردن میں ہونے والی جنگی مشقوں میں امریکہ کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے بھی حصہ لیا ہے جبکہ مصری فوجی آمریت کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات دن بدن گہرے ہوتے جارہے ہیں۔


اس پورے پس منظر میں2016 کا سال بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔مسلمان حکمرانوں کے ساتھ آج عوا م بھی بے حس ہوچکی ہے، آج اس پریشان صورتحال میں اتحاد وجہاد ہمارے لئے سانس لینے سے زیادہ ضروری ہے، عرب و عجم کی آزادی و غیرت کا واحد راستہ جہاد ہے، مسجد اقصیٰ کی آزادی کشمیری مسلمانوں کی غلامی سے آزادی کاحل جہاد میں ہے،آج ہمارے فیصلے دشمن کرتے ہیں اور حکمران کھلونوں کی طرح استعمال ہورہے ہیں لبرل قلم نگاروں سے لیکر لبرل سیاستدان و دانشوار،اینکرز اپنے ناپاک ذہن کی سوچیں اور وسوسوں کو قوم پر مسلط کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ہر طرف سے اسلام پر یلغار ہے اور ہم بے بسی اور بے غیرتی کے ساتھ یہ سب دیکھ رہے ہیں۔

اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے اپنے آپ کو محفوظ تصور کررہے ہیں ،بین الاقومی اداروں کی خبریں اور کانفرنیس کئی پہلو رکھتی ہیں تاکہ اقوام اور ممالک غفلت میں رہیں اور ان کی طرف سے مطمئن ہوجائیں مگر خفیہ اداروں کی خفیہ کام اور مشینز جاری رہتے ہیں،ہوشیار اور بروقت فیصلے ہی بچاو کا ذریعہ ہیں،اللہ کرے امت مسلمہ کے حکمران مظلوم مسلمانوں کے مسائل کے لئے میدان میں آئیں؟،۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :