خوف کی فضا کے خاتمے میں لاہورپولیس کا کردار

منگل 3 نومبر 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

اللہ والوں کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ چند لفظوں میں پوری کائنات کو سمیٹ دیتے ہیں ۔ فہم و فراست کی تما م کنجیوں کو ایک جگہ جمع کر کے اپنے مخاطب کو شعور کی ایسی دولت سے مالا مال کر جاتے ہیں جس کا نشہ کئی سالوں تک بھی باقی رہتا ہے ۔ ایسے ہی اللہ والے کی ایک تحر یر پڑھتے ہوئے ایک سر شاری کی سی کیفیت طاری ہے ۔کیا خوب فر مایا حضرت واصف علی واصف  نے:” خوف ایک حد تک جائز ہے ۔

لیکن ایک حد سے زیادہ خوف ہو تو انسان کا سارا تشخص ،اس کی ساری سائیکی،اس کا باطنی وجود سب ٹو ٹ پھوٹ کا شکار ہو جا تا ہے ۔خوف خون کی رنگت اور ہڈیوں کا گودا ختم کر دیتا ہے۔خوف زدہ انسان پتوں کی کھڑ کھڑا ہٹ سے ڈرتا ہے ۔سر سراہٹ سے ڈرتا ہے ۔وہ اپنے آپ سے ڈرتا ہے ۔اپنے ماضی سے ڈرتا ہے ۔اپنے حال سے ڈرتا ہے ۔

(جاری ہے)

اپنے مستقبل سے ڈرتا ہے ۔بلکہ اپنے ، پرائے یہاں تک کہ اپنے ہی سائے سے ڈرتا ہے۔

ڈرے ہوئے انسان کے لئے ہر امکان ایک ٹریجڈی ہے۔خوف زدہ انسان خودکو اس بھری ہوئی دنیامیں تنہا محسوس کرتا ہے۔خوف احساس تنہائی ضرور پیدا کرتا ہے۔خوف زدہ انسان کی مثال ایسے ہے ، جیسے کسی وسیع صحرا میں تنہا مسافر کو رات آجائے۔
قارئین !ہمارے معاشرے میں جہاں بہت سی بیماریاں سرایت کر چکی ہیں اس میں ، ایک دوسرے کا خوف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ایک دوسرے اور دوسرا تیسرے سے خوف زدہ دکھائی دیتا ہے ۔

اہل علم کے مطابق خوف کے عالم میں جب انسان کے حواس باختہ ہو چکے ہو تے ہیں تو پھر وہ کسی بھی کام سے دریغ نہیں کرتا ۔ دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتے ہوئے توکبھی تو نیکی اور ثواب کے لبادے میں ، کبھی اپنی انا اور تسکین کو پو را کر نے کے لئے لوگوں کو نقصان پہنچا کر، انہیں اذیتیں دے کربلکہ ان کو جانی نقصان پہنچا کراپنے اندر کے خوف کو ختم کر نے کی ناکام کو شش کر رہے ہوتے ہیں۔


اسی خوف کی وجہ ہے کہ صدیوں سے ایک دوسرے کی دکھوں اور خوشیوں میں شریک رہنے والے، ان کی مذہبی رسومات کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نہ صرف خود اس میں شریک ہوتے بلکہ کھانے پینے کا انتظام اور ایک دوسروں میں محبت اور الفت کو بانٹتے ، معاشرے کو اخوت اور بھائی چارے کا گہوارہ بنا نے والے،کھلے دل کے لوگ اب تنگ دل ہوتے جا رہے ہیں۔کسی کی خوشی تو در کنار ، لوگوں کی مذہبی آزادی پر بھی قدغن لگاتے ہوئے معاشرے کو نفرت کے بد بودار جوہڑ میں تبدیل کر نے پر تلے ہیں۔


قارئین !یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی مذہبی تہوار قریب آنے پر جہاں ایک دوسرے کے درد کو محسوس کیا جا نا چاہئے تھا ،اب وہاں خوف نے ڈیرے ڈالے ہوتے ہیں کہ نا معلوم کب کیا ہو جائے؟ کچھ روز قبل گذرنے والے یوم عاشور پر بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی ، ایسا خوف جو مجھ جیسے، امید سے بھرے انسان کی روح کے اندر بھی اضطراب کا زہر گھول رہا تھا ۔ لیکن پولیس کے جوانوں بالخصو ص لاہور کے سی۔

سی۔پی۔اواور درویشی، فوجی اور انسان دوستی کی صفات کے مالک، امین وینس اورایک استاد کے گھر میں پرورش پانے والے تکنیکی صلاحیتوں کا ”استاد“ مانے جانے والے جادوئی شخصیت کے حامل ڈی۔آئی۔جی آپریشن لاہور ڈاکٹر حیدر اشرف اور ا ن کی پوری ٹیم نے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دل میں پلنے والے تما م وسوسوں کو اپنی موت آپ مار دیا۔


کئی سالوں بعداِن کی اتحاد بین المسلمین پر بہترین حکمت عملی کی وجہ سے ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھنے والے لو گ ایک جمع دکھائی دئیے بلکہ این۔ اے 122کے ضمنی انتخابات اور پھر حالیہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جہاں اس سے قبل خیبر پختونخواہ میں الیکشن کے روز خون کی ہولی کھیلی گئی اور پھر اُس روز بھی جب پنجاب اور بالخصوص لاہور میں نہایت عمدگی اور شگفتگی کے ساتھ ، پہلی دفعہ لاہور پولیس ،کسی سیاسی وابستگی سے آزاد ہو کر پر امن انتخابی معر کہ کو پائے تکمیل تک پہنچا نے میں مصروف عمل تھی ، ملک کے کئی علاقوں میں لوگوں کو موت کی وادی کا مسافر بنا یا جا رہا تھا۔


قارئین کرام ! میں تو اس بات کو تسلیم کر تا ہوں کہ لاہور میں پولیس کے محکمے میں کافی حد تک مثبت تبدیلی دیکھنے کو آئی ہے ۔ ایڈمن افسران کی تعیناتی، تھانوں کو آن لائن کرنے کے ساتھ ایماندار اور پڑھے لکھے نوجوان افسران کی تعیناتی،ہیلپ لائن، واٹس ایپ اور مختلف سوشل میڈیا ذرائع کے ذریعے عوام کی افسران بالا تک رسائی اورشکایتوں پر فوری کاروائی، خود کار کمپیوٹرایزڈ سسٹم کے تحت سائلین کی درخواستوں پر ہونے والے ایکشن کی لمحہ با لمحہ اپ ڈیٹ کا موثر نظام ، شہریوں کے دلوں میں محکمہ پولیس کی بد نام زمانہ ساخت کو بہتر کر نے میں مثالی کر دار ادا ء کر رہا ہے ۔

اگر امین وینس اور حیدر اشرف کو، ان کی ٹیم کے سا تھ یو نہی کام کر نے دیا گیا تو کچھ بعید نہیں خوف زدہ معاشرہ ،محبت ، امن اور سکون کا گہوارہ نہ بنے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :