چوتھا ستون

اتوار 1 نومبر 2015

Jahid Ahmad

جاہد احمد

حیران ہوا جائے یا پریشان ہوا جائے۔ پاکستانی معاشرہ اپنے طرزِ عمل میں حیران و پریشان کردینے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اجتماعی طور پر کم تعلیم یافتہ ہونے اور قدامت پسند ذہنیت رکھنے کے باعث تمام اہم معاملات میں عمومی طور پر معاشرتی رویہ خاصا پریشان کن ہوتا ہے۔
معاشرتی رویوں کا سیدھا اثر کسی بھی معاشرے کے اداروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اسی طرح ادارے اپنے رویوں کا اثر اپنے معاشرے پر بھی ڈالتے ہیں۔یہ دو طرفہ ٹریفک ہے جو ان دونوں اکائیوں کے ارتقائی عمل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے ان کی سمت اور ترجیحات کا تعین بھی کرتی ہے۔پاکستانی معاشرہ بنیادی طور پر غیر سنجیدہ اور تماش بین رویے کا حامل ہے جس کا اثر اس کے نمائندہ اداروں میں صاف دکھائی دیتا ہے۔

(جاری ہے)

حکومتی اداروں سے لے کر سرکاری دفاتر اور سرکاری دفاتر سے لے کر ریاستی ستونوں تک یہ غیر سنجیدگی اور تماش بین رویہ آئے دن بطور قوم ہمارا منہ تھپیڑتا ہے لیکن کوئی احساس تو ہو!! جس قوم کے رخسار تھپڑ کھا کھا کر موٹی چھال میں ارتقاء پذیر ہو چکے ہوں اسے تکلیف کا کیا احساس ہو گا۔


ریاستی ستونوں کی بات کریں تو پاکستانی میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون گردانا جاتا ہے۔ریاست کے ستون کی حیثیت کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کے امور درست طریقے سے چلائے جانے کے لئے اس ستون کی کارکردگی کا بہترین ہونا انتہائی شرط ہے۔ ستون کی کارکردگی کمزور ہو گی تو ریاست کی کارکردگی متاثر ہو گی۔ ریاستی ستون ہونا فیس بک کا کوئی ٹیگ نہیں بلکہ اعلی ترین ذمہ داری کا ریاستی تمغہ ہے۔

میڈیا چوتھا ریاستی ستون ہونے کا دعویدار ہے تو اس کو ویسی ہی ذمہ داری کا ثبوت چوبیسوں گھنٹے اور سال کے 365 دن دینا بھی چاہیے۔
عمران خان اور ریحام خان کی طلاق کی خبر کیا بریک ہوئی گویا بھونچال سا برپا ہو گیا۔میڈیا اور عوام جس انداز سے اس خبر کا ڈھول پیٹنے میں مصروف ہیں یوں معلوم ہوتا ہے شاید پاکستان کا سب سے اہم اور آخری مسئلہ یہ طلاق ہی ہے یا پھر پاکستان میں آج سے پہلے کسی جوڑے کی طلاق ہی نہیں ہوئی۔

احمق پھپھوندوی صاحب کا شعر کسی ایسے موقع کے لیے ہی ہے کہ:
بلبلیں کیا ساتھ دے سکتی ہیں نالوں کا میرے زاغ میرا ہمنوا ہو کر پریشاں ہو گیا
ریٹنگ کے بھنور میں گھومتے پاکستانی میڈیا کا رویہ حد درجہ قابلِ افسوس اور پریشان کن صورتحال کی غمازی کرتا ہے۔ ریاستی ستون اگر ایک طلاق کی خبر کی مار ہے تو ریاست کی کارکردگی کا الله ہی حافظ ہوا۔


پاکستانی میڈیا کو اپنے ریاستی ستون ہونے کی حیثیت کا ایک بار تسلی سے ازسر نو جائزہ لینے کی شدت سے ضرورت ہے۔ چند روز پہلے آیا ہولناک زلزلہ اورعمران خان و ریحام خان کی طلاق دو ایسے واقعات ہیں جو چند دن کے وقفے سے ظہور پذیر ہوئے۔ ان دونوں واقعات میں میڈیا کے کردار کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو اس اہم ریاستی ستون کی ترجیحات اور سنجیدگی کا تعین با آسانی کیا جا سکتا ہے۔


زلزلے کی سائنسی وجوہات بیان کرنا نہ صرف عوام الناس میں اس قدرتی عمل بارے شعور پیدا کرتاہے بلکہ حکومتی اداروں کے لئے مستقبل میں ایسی آفات سے نمٹنے کے لئے لائحہ عمل تشکیل دینے میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ عوام جس قدر باشعور ہو گی اسی قدر اپنے نمائندہ یا ریاستی اداروں سے کارکردگی طلب کرے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میڈیا نے اس شعوری عمل کو بھی سائنس اور مذہبی عقائد کی بحث میں تبدیل کر کے نہ صرف نازک وقت میں معاشرے میں ابہام اور تفریق پیدا کی بلکہ قدرتی عوامل اور آفات سے نمٹنے کے لئے کسی قسم کی تیاری کرنے کے عمل کی افادیت کو نچلی سطح پر سمجھنے میں بھی نقصان پہنچایا۔

یقینا یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ انہی رویوں کے سبب 2005 کے زلزلے کے بعد سے لے کر اب تک پاکستانی ادارے اور معاشرہ ان قدرتی عوامل سے نمٹنے میں کسی قسم کی موئثر تیاری اور کاغذی کاروائیوں سے بڑھ کر حقیقی معنوں میں کوئی پیش رفت کیوں نہیں کر سکا ماسوائے چند غیر موئثر ادارے تخلیق کرنے کے!!!
ایک بے جوڑ شادی کے منطقی انجام کی خبر کو ہزاروں زلزلہ زدگان بے گھر ودکھی پاکستانیوں کے تکلیف دہ مسائل پر فوقیت دیناتماش بین معاشرے کے نمائندہ ادارے کی ترجیحات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ان زلزلہ زدگان کو صبر کرنا ہو گا تاآنکہ عوام کے سر سے مادرِ ملت ثانی اور بھابھیِ اول کی طلاق کا بھوت اتر نہیں جاتا اور ریاست کے چوتھے ستون کو ریٹنگ بڑھانے کے لئے ایک بار پھر زلزلہ متاثرین کے کرب زدہ چہرے، ٹھٹھرتے جسم، ملبہ بنے گھر اور مسائل کی کوریج کی ضرورت نہ آن پڑے۔ تب تک انتطار فرمائے کہ آپ کے اپنے طلاق کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
ریحام خان کون تھیں اور کون نہیں، ان کی حقیقت کیا تھی، کس مقصد سے میدان میں اتری تھیں، اچانک سے آئیں تھیں اور یونہی اچانک سے چلی بھی گئیں، یہ سب وہ سوالات ہیں جن پر بحث کے لئے بعد میں بھی میڈیا کو بہت وقت ملے گا۔

فی الوقت ریاستی ستون ہونے کی حیثیت سے ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ میڈیا کی تمام تر توجہ زلزلہ متاثرین کے مسائل اور حکومتی اداروں کی کاکردگی پر مرکوز رہے جب تک کہ متاثرین کے مسائل واقعتا حل نہ ہوجائیں۔کیونکہ میڈیا ہی وہ واحد ادارہ ہے جو عوام اور حکومت کی توجہ اس سانحے پر مرکوز رکھوا سکتا ہے!!!
معلومات کی برقت رسائی نے ترقی یافتہ معاشروں کے ارتقاء میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔

آج کے دور میں بر وقت معلومات کا حصول اصل طاقت ہیں۔ میڈیا وہ قوت ہے جو پاکستانی معاشرے میں سائنس کو سائنس اور مذہب کو مذہب کی جگہ پر تعینات کرنے میں باآسانی اپنا کردار ادا کرسکتی ہے ، اسی طرح نازک معاملات میں عقلی توجیہات کو بڑھاوا دینے اور نفرتوں کو کم کرنے میں پراثر ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ میڈیا ہی ہے جو پریشان کن رویوں کو مزید فروغ دے سکتا ہے یا انہی پریشان کن رویوں کا رخ موڑ کر حیران کن رویوں میں تبدیل بھی کرسکتا ہے جس کی اعلی مثال 2005 کے زلزلے کے بعد عوامی رویہ اور امدادی کاروائیاں تھیں۔ صرف احساس دلانے اور توجہ مرکوز کرائے رکھنے کی ضرورت ہے !!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :