یور پ عقلیت پرستی کی راہ پر !

ہفتہ 31 اکتوبر 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یورپ کی تاریخ میں اٹھارویں صدی عقلیت پرستی کی صدی کہلاتی ہے ۔ عقلیت پرستی کے دو بڑ ے امام تھے ، ایک فرانس کا فلسفی اور ریاضی دان ڈیکارت اور دوسرا انگلینڈ کا سائنسدان نیوٹن ۔ ڈیکارت عیسائی پادری تھا اور ساری زندگی عیسائیت کی تبلیغ کرتا رہا ، اسے تحریر کا ملکہ حاصل تھا اس لیئے اس نے اپنی تحریروں کے ذریعے عیسائیت کی خوب خدمت کی ۔

اٹھارویں صدی تک تو یہ بحث چلی آ رہی تھی کہ حقیقت روح میں ہے یا مادے میں لیکن ڈیکارت نے اس کے مقابلے میں ایک نیا نظریہ پیش کیا ۔ اس نے کہا روح اور مادہ دونوں حقیقی ہیں اس نے انسانی جسم اور روح کو دو الگ الگ خانوں میں تقسیم کر دیا جو ایک دوسرے کے سہارے کے بغیر قائم تھے ۔ ڈیکارت اپنی تحریروں کے ذریعے سے عیسائیت کی تبلیغ کرنا چاہتا تھا لیکن اس کا الٹا نتیجہ نکلا ۔

(جاری ہے)

کہتے ہیں مغربی فکر اور مغربی ذہن کو متاثر کرنے میں جتنی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے اور کسی پر نہیں ہوتی ۔ اس کے بارے میں یہاں تک کہا گیا کہ فرانس نے خدا کے خلاف جو سب سے بڑا گناہ کیا وہ یہ ہے کہ اس نے ڈیکارت کو فرانس میں پیدا کیا ۔
سترھویں اور اٹھارویں صدی آتے آتے مغربی فکر اور فلسفہ انسانیت پرستی کا قائل ہو چکا تھا ، ساری کائنات کو انسان کی مطیع اور فرمانبردار کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا تھا ، انسان کی جد و جہد کا میدان یہ مادی کائنات ٹھہری ۔

سترھویں صدی میں جب بیکن نے مطالعہ فطرت اور تسخیر کائنات کا فلسفہ پیش کیا تو سوال اٹھا کہ تسخیر کائنات کے لیئے کون سی چیز سب سے ذیادہ اہم ہو سکتی ہے ؟ انسانی عقل کو اس سوال کے جواب کے طور پر پیش کیا گیا ۔ ڈیکارت نے روح اور جسم کے جو حقیقی ہونے کا فلسفہ پیش کیا تھا وہ آج تک حل نہ ہو سکا ۔ مغربی مفکرین میں سے کچھ نے روح او ر کچھ نے جسم کو حقیقت قرار دے دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب روح کے معنیٰ کو بھلا کر صرف جسم پرستی کی راہ پر چل نکلا ۔

انگلستان کا سائنسدا ن نیوٹن دوسرا فلسفی تھا جس نے عقلیت پرستی کے فروغ میں بڑا اہم کر دار ادا کیا ،ا س کا سب سے اہم کارنامہ کشش ثقل کے قانون کی دریافت تھی ۔ یہ قانون معلوم کر کے اس نے دعویٰ کر ڈالا کہ کائنات کا نظام چند واضح قوانین کے تحت چل رہا ہے ۔ اگر وہ قوانین دریافت کر لیئے جائیں تو فطرت اور کائنات پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ اگرچہ ان قوانین کو دریافت کرنے میں وقت لگے گا لیکن انسان کو یہ امید رکھنی چایئے کہ انسان ایک نہ ایک دن ا ن قوانین پر قابو پا لے گا ۔

نیوٹن نے کہا کہ کائنات ایک بے جان مشین ہے اور انسان ایک انجینئر ، نیوٹن کے اس نظریئے کو ”میکانکیت “ کا نام دیا گیا ۔ انیسویں صدی میں بعض مفکریں نے اس نظریئے کا رد کر دیا ، انہوں نے ثابت کیا کہ انسان کی طرح کائنات اور فطرت بھی جاندار ہیں اور ان میں بھی زندگی اور موت کا پورا نظام موجود ہے ، ان کے نزدیک فطرت اور کائنات اپنی ذاتی توانائی سے زندہ ہیں او ر اس نظریئے کو ”نامیت “ کا نام دیا گیا ۔

عقلیت پرستی کے دور میں ہی نفسیات کے شعبے کا آغا زہوا ، اس سے پہلے نفسیات کو ئی الگ شعبہ نہیں تھا بلکہ اسے فلسفے کا ہی ایک حصہ سمجھا جاتا تھا ۔ انگریز مفکر جان لاک نے ستروھویں صدی کے دوسرے نصف میں نفسیات کو فلسفے سے الگ کیا ۔ نیوٹن نے کائنات اور فطرت کو ایک مشین قراد دیا تھا ایک انگریز مفکر ہارٹلے نے انسانی ذہن کو بھی مشین قرار دے دیا ، وہ کہتا تھا جب انسان کوئی چیز دیکھتا ، سونگھتا یا ٹچ کرتا ہے تو اس کے اعصاب پر ایک قسم کا ارتعاش پیدا ہوتا ہے ، یہ ارتعاش دماغ تک پہنچ کر ایک مجسم شکل کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔

اٹھارویں صدی میں ایک انگریز مفکر اور فلسفی ہیوم نے کہا کہ ہر وہ لفظ جو کسی غیر حسی اور غیر مدرک لفظ پر دلالت کرتا ہو اس کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہیئے ، جس چیز کو چھوا نہیں جاسکتا اور جس چیز پر حسی تجربہ اور مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا اس کا وجود ہی ناممکن ہے ۔ ہیوم نے بھی خدا ، مذہب، انبیاء ، معجزات اور آخرت کا انکا ر کر دیا ۔ اسی نظریئے کو آگے چل کر فرانسیسی مفکر کونٹ نے اختیار کیااور اس نظریئے کو positivism(ثبوتیت) کا نام دے کر باقاعدہ فلسفے کا حصے بنا دیا ۔

اسی عرصے میں ایک نیا نظریہ وجود میں آیا جسے دہریت کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ اس نظریئے کا نام deism(خدا شناسی)رکھا گیا۔ اس فلسفے کے پیرو کاروں کا دعویٰ تھا کہ عقل انسان کا خاص جوہر ہے اور یہ ہر زمانے میں ایک جیسی رہی ہے ، یہ ہر زمانے اور ہر علاقے میں ایک طرح کام کرتی ہے لہذا ہمیں عقل کی بنیاد پر خدا کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ کہا گیا کہ عقل کی موجودگی میں خدا اور مذہب کی چنداں ضرورت نہیں رہتی ۔

عقل کی بنیاد پر چند ایسے قوانین معلوم کیئے جا سکتے ہیں جو تمام مذاہب میں مشترک ہیں اوران معلوم شدہ اصولوں کا مجموعہ ہی اصل مذہب ہے ۔ اٹھا رویں او ر انیسویں صد ی میں اس مذہب کا اس قدر غلبہ تھا کہ انگریز جب ہندوستان آیا تو اپنے ساتھ یہ نظریہ بھی لایا ۔ 1857کی جنگ آذادی کے بعد انگریز سر کار کی طرف سے خداشناسی کے جو میلے لگتے تھے وہ اسی فلسفے کے زیر اثر تھے ۔

ہند ومذہب اس نظریئے سے بہت متاثر ہوا اور مسلمانوں میں بھی اس کے کافی اثرات پھیلے اردو شاعری خصوصا غالب کی شاعری میں بھی اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں ۔ اگر ہم اٹھارویں صدی کے ان فلسفیانہ افکار پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ایک بات ضرور نظر آتی ہے کہ اٹھارویں صدی کی عقلیت پرستی اور دیگر افکار میں ”انسانیت پرستی “ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔

یہ انسانیت پرستی کبھی بلا واسطہ ہوتی تھی اور کبھی معاشرے کو فوقیت دے کر اس کے ضمن میں انسانیت پرستی کا ارتکاب کیا جاتا تھا ۔ اس دور کے فلسفیانہ افکار میں ہمیں روح اور مادے ، فرد اور معاشرے کی کشمکش جا بجا دکھائی دیتی ہے ۔ افکا رجو بھی ہوں اور کشمکش جس کے درمیان بھی ہو ایک بات طے ہے کہ انہوں نے مذہب کا دیس نکالا دیا تھا ۔ وہ مذہب کو کسی صورت قبول کرنے کے لیئے تیار نہیں تھے ۔

عقل انسانی کو تمام مسائل کا حل اور ایک برتر قوت مانتے تھے ۔ عقل کی بنیادپر معاشی ، معاشرتی اور مذہبی مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی ۔ وہ لوگ یہ بھول گئے تھے کہ وحی کے مقابلے میں انسانی عقل کی بساط ہی کیا ہے ، وحی کے بغیر انسانی عقل ناتمام ہے اور محض انسانی عقل کی بنیادپر کیئے جانے والے فیصلے کبھی غلطیوں سے پاک نہیں ہوسکتے۔ اٹھارویں صدی کے بعد جتنے بھی فلسفے پیش کیئے گئے ان سب میں انسانیت پرستی کو اعلیٰ مقام دیا گیا اور آج کا جدید مغربی فلسفہ بھی اسی بات کی تلقین کرتا ہے ۔

یہ جو آذادی ء اظہار رائے کے نام پر مسلمانوں کی دلآزاری کی جاتی ہے اس کے پیچھے بھی یہی فلسفہ کارفرما ہے ۔ عقلیت پرستی اور انسانیت پرستی کی جو روش اس دور میں شروع ہوئی تھی وہ اس قدر مقبول ہوئی کہ تین صدیاں گزرجانے کے باوجود آج بھی اسی طرح موجود ہے ۔ اس کا نتیجہ اور انجام کیا نکلتا ہے اس کے آثار ہم آئے روز میڈیا پر دیکھتے رہتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :