”مفت مشورہ نہیں لاجواب نسخہ“

بدھ 28 اکتوبر 2015

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

یہ دسمبر کی ایک سرد شام تھی میں بٹگرام کے ایک تین منزلہ ہوٹل کے بالائی کمرے میں بیٹھ کر چائے نوش کررہا تھا، گاؤں کی گاڑی نکلنے کی وجہ سے شام کی ٹھنڈی ہوائیں برداشت کرنے کے ساتھ دسمبر کی وہ سرد رات بھی مجھے اسی ہوٹل میں گزارنی تھی۔ چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑمیں ہوٹل کے لان میں نکلا۔ وہاں میرا ایک دوست جو اس ہوٹل میں ملازم تھے پولیس آفیسر اور ایک ستر اسی سالہ بزرگ کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگارہے تھے۔

میں ان کے قریب ایک کرسی پر بیٹھ کر ان کی محفل میں شریک ہو گیا۔ قصے اور کہانیاں سنتے سناتے بات سیاست تک پہنچ گئی۔ ممبران اسمبلی اور صدرو وزیر اعظم کے ذکر خیر کے بعد پولیس افسر بابا جی کے قریب ہوئے۔ میری تو بابا جی سے کوئی جان پہچان اور شناسائی نہیں تھی نہ مجھے یہ پتہ تھا کہ وہ باباجی کون تھا۔

(جاری ہے)

۔؟اورکیاکرتاتھا۔۔؟لیکن ان کی باتوں سے لگ رہاتھاکہ وہ اپنے وقت کاکوئی بڑاسیاسی کھلاڑی رہ چکاہے۔

دنیاکے ہرمسئلے کا سیاسی حل ان کی باتوں میں پوشیدہ تھا ۔وہ جب کسی مسئلے پر بات کرتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی اعلیٰ پایہ کا وکیل اپنے مقدمے کا دفاع کررہا ہے یا کوئی زمانے کامحنتی اورکمال کالائق ٹیچر اپنے طالب علموں کو کسی سبق کے بارے میں سمجھا رہے ہیں۔ پولیس افسر نے اپنا کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا کہ بابا جی مجھے کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ میں عوام کے دلوں پر چھا جاؤں اور ہر جگہ میری واہ واہ ہو۔

بابا جی نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور گویا ہوئے۔ پولیس اور عوام کے دل بہت دوردور ہوتے ہیں کیونکہ پولیس اس وردی جو آپ نے زیب تن کی ہوئی ہے اس کے نشے میں مست ہو کر عوام کو کچھ سمجھتی نہیں جس کی وجہ سے عوام جہاں کسی پولیس والے کو دیکھتے ہیں تو الٹے پاؤں واپس ہو جاتے ہیں۔ دوئم پولیس والوں کو عوام سے زیادہ قائد اعظم کی تصویر سے پیار ہوتا ہے جس کی وجہ سے کوئی پولیس والا مشکل سے عوام کے دلوں میں جگہ بنا پاتا ہے۔

آپ اگر چاہتے ہیں کہ آپ عوام کے دلوں پر راج کریں۔ عوام آپ کو اپنے لئے مسیحا سمجھیں تو اس کیلئے آپ کو چار کام کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے آپ کو قائداعظم کی تصویر سے نہیں بلکہ قائداعظم  کے افکارونظریات اوراعلیٰ کردارکیلئے اپنے دل میں حقیقی طور پر محبت پیدا کرنی ہوگی ۔دوئم آپ کو اپنا آپ عوام کیلئے اس طرح وقف کرنا ہوگا کہ آپ کے آفس اور گھر ہی نہیں بلکہ آپ کے دل کے دروازے بھی 24 گھنٹے عوام کیلئے کھلے رہیں۔

سوئم آپ کو وردی اور طاقت کے نشے سے نکل کر ہر وقت یہ سوچنا ہوگا کہ پولیس کی یہ وردی مجھے عوام کی وجہ سے ملی ہے اگر عوام مجھ سے روٹھ گئے تو میرے جسم پر پولیس کی یہ وردی بھی پھر باقی نہیں رہے گی۔ آخر ی یہ کہ آپ کو کسی مظلوم کی بددعا سے ہمیشہ بچنا ہوگا۔ ایک طرف اگر آپ کے اپنے والد، بھائی اور بیٹا ہو اور دوسری طرف کوئی مظلوم ۔تو آپ نے اپنے والد، بھائی اور بیٹے کا ساتھ نہیں دینا بلکہ اس مظلوم کا ساتھ دینا ہے کیونہ اسی مظلوم کی ایک آہ آپ کو آسمان جتنی بلندی تک اٹھا بھی سکتی ہے اور آسمان جتنی بلندی سے گرا بھی سکتی ہے۔

بابا جی کے اس مشورے کے بعد میں اپنے کمرے میں گیا۔ بابا جی اور پولیس افسر نے اپنی اپنی راہ لی۔ پتہ نہیں اس کے بعداس پولیس افسر نے بابا جی کے اس مشورے پر عمل کیا یا نہیں…؟ لیکن اس کے بعدمیں جب بھی کوئی کامیاب افسر دیکھتا ہوں تو مجھے بابا جی کا وہ طویل مشورہ یاد آجاتا ہے۔ بابا جی کا وہ مشورہ صرف مشورہ نہیں بلکہ وہ کسی بھی پولیس افسر، سیاستدان، وکیل، ٹیچر، کھلاڑی، انجینئر، ڈاکٹر، صحافی، علماء و طلبہ سمیت اس معاشرے کے ہر فرد کیلئے کامیابی کی بلندیوں کو چھونے کاایک نایاب نسخہ ہے۔

لوٹ مار، کرپشن، طاقت کے نشے میں مدہوشی اور اپنوں کو بچانے اور تحفظ دینے کیلئے ظلم پر انصاف کا غلاف چڑھانے سے آج ہماری کوئی قدروقیمت نہیں۔ سابق ڈی پی او مانسہرہ عبدالغفور آفریدی بھی تو ہمارے جیسے انسان اور اس کے بدن پر بھی تو پولیس کی وردی تھی لیکن اس نے قائداعظم کی تصویر کی بجائے قائداعظم سے حقیقی معنوں میں محبت اورخود کو عوام کیلئے وقف کرکے ظالموں کو ظلم اور مظلوموں کو انصاف کے ترازو میں تولا۔

جس کی وجہ سے وہ مختصر عرصے میں عوام کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو ئے۔ آج ہمارے افسروں کو لوگ گھاس کیوں نہیں ڈالتے۔ اس کی وجہ وہ چار خامیاں ہیں جن کی کئی سال پہلے بابا جی نے نشاندہی کی تھی۔آج کے ان افسروں نے ان خامیوں کو خصوصی مشغلہ اور افسری کالازمی جز بنایا ہوا ہے جس کی وجہ سے عوام اور ان میں تفریق روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ آج کا ہر افسر لوٹ مار، کرپشن میں مگن اور عوام کو کسی نہ کسی طریقے سے لوٹنے کے در پے ہے۔

جس کی وجہ سے اعلیٰ افسر بھی افسر بے کار خاص بن چکے ہیں ۔ آج ایسا کوئی افسر بتائیں جو عوام کے دلوں پر راج کررہا ہو۔ مطلب پرستی اور مفاد پرستی نے آج ہمیں حقیقی منزل اور مشن سے بہت دور کر دیا ہے۔ زمانہ آج وہی ہے لیکن ہم بہت بدل گئے ہیں۔ نہ ہم بانجھ اور نہ یہ مٹی بانجھ۔ آج اس ملک کاہرفردافتخارمحمدچوہدری ،ڈاکٹرعبدالقدیرخان اورعبدالغفورآفریدی بن سکتاہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ بابا جی کی ان چار باتوں پر عمل کیا جائے۔ بابا جی کی وہ چار باتیں صرف مشورہ نہیں بلکہ ایک ایسا نسخہ ہے کہ جس کے استعمال سے کوئی بھی شخص کامیابیوں کی بلندیوں کوچھوکرعوام کے دلوں پرراج کر سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :