تین باتیں

پیر 26 اکتوبر 2015

Qari Abdur Rehman

قاری عبدالرحمن

وزیر اعظم پاکستان کے دورہ امریکا کو دیکھا جائے توحکومت پاکستان کی سب سے بڑی کارکردگی امریکا کو ہندوستان کے خلاف ان ثبوتوں کی فراہمی ہے جو ہندوستان کے پاکستان میں گڑ بڑ پھیلانے پر مشتمل ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان پاکستان کا جڑواں دشمن اور پڑوسی ہے، کسی بھی لمحے اس نے پاکستان ،اس کی خود مختاری اور آزادی کو پسند کیا نہ قبول کیا، ہمیشہ منفی ہتھکنڈوں کے ذریعے پاکستان کو پریشان کیا، ایسی تحریکیں جو پاکستان کی آزادی ،اس کی خود مختاری اور سلامتی کے خلاف ہیں،نہ صرف ہندوستان کے تعاون اور مدد کے سہارے چلتی ہیں، بلکہ ان میں سے بہت سی تحریکوں کا محرک بھی ہندوستان ہی ہے، پاکستان میں بم دھماکے اور مختلف قسم کے مذہبی اور سیاسی جھگڑوں میں ہندوستان نے پاکستان کو کمزور بلکہ ختم کرنے کا کوئی موقع چھوڑا نہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان نے ہمیشہ ہندوستان کی اس جارحیت کو بیان کیا، اور امریکیوں کے سامنے بھی اظہار کیا،لیکن ناقابل تردید ثبوت بہر حال پہلی بار دیے گئے ۔ یقینایہ ایک بہت بڑی کامیابی اور کاوش ہے لیکن تین باتیں بہت اچھی طرح یاد رہنی چاہییں ۔
1۔امریکا پاکستان میں بھارت کی اس دہشت گردی سے نہ صرف از خود آگاہ ہے بلکہ اس کے خیال میں پاکستان پر دباؤ ڈالنے ،اس کو سکھ کا سانس لینے میں ناکام رکھنے کے لیے ہندوستان کی یہ کارروائیاں اور کوششیں ضروری ہیں اور جاری رہنی چاہییں، امریکا کو پتا ہے اگر پاکستان کو فرصت اور سکون کے لمحات ملیں تو وہ معاشی اور اقتصادی طور پر ایک بہت مضبوط ملک بنے گا، امریکا پر اس کا انحصار نہیں رہے گا، ایسی حالت میں امریکا کی تھانے داری تسلیم نہیں کرے گا، اس لیے امریکا کے خیال میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان معاملات ایسے چلتے رہیں کہ پاکستان اسلحہ بنانے اور جمع کرنے میں لگا رہے اور ہندوستان پاکستان میں گڑ بڑ مچاتا رہے ،تاکہ پاکستان کسی نہ کسی طور امریکا کا دست نگر رہے۔


2۔اگر حکومت پاکستان کا یہ خیال ہے کہ امریکا ہندوستان کو تنبیہ کرے گا، اور مجبور کرے گاکہ پاکستان کے ساتھ معاملات درست رکھو ، کشمیر کے معاملے میں ثالثی کرے گا، اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق اس معاملے کو حل کرنے میں کردار اداکرے گا۔ تو یہ خیال بہت بڑی اور ناقابل تلافی خوش فہمی ہو گی ، امریکا کو ایسی کوئی مجبوری نہیں کہ وہ کشمیریوں کی مدد کرتا پھرے جس طرح اسے فلسطینیوں سے کوئی ہم دردی نہیں اور اسرائیل کو کھل کھیلنے کی پوری آزادی حاصل ہے بالکل اسی طرح اسے کشمیریوں سے کوئی ہم دردی نہیں اورہندوستان ان مظالم کو جتنا بڑھا دے پاکستان میں جتنی گڑ بڑ مچائے امریکا نے ہندوستان کو کبھی اس پر تنبیہ نہیں کرنی۔


3۔بھارت ثبوت دینے پر جو پیچ و تاب کھا رہا اور تلملا رہا ہے اور امریکا کو جس طرح ان ثبوتوں نے نا خوش کیا ہے ،پاکستان کو جوابی کارروائی کے لیے تیار رہنا چاہیے ، یہ مطلب نہیں کہ ثبوت نہ دیے جاتے، بلکہ ثبوتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ایسی ٹھوس تیاری ضروری ہے کہ تلملائے اور بلبلاتے ہوئے دشمن کی ہر چال اور سازش ناکام بنائی جا سکے۔
امریکا کو بھارتی دہشت گردی اور پاکستان میں گڑ بڑ پھیلانے کے ثبوت دینے کا یہ مطلب ہر گز نہیں حکومت یا اس کے وزیر اعظم نے ہندستان کو زیر کرلیا، یا اس بابت امریکا کو اپنا ہم نوا بنالیا ہے ،البتہ یہ ضرور ہے کہ پاکستان پر ایسا دباؤ جو عرفا ” ڈومور“ کہلاتا ہے ،اس میں ماضی کی نسبت کافی کمی ہوئی ہے اور اس نے پہلی بار پاکستانی اقدامات پر کافی زیادہ اطمینان کا اظہار کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ امریکا اس بابت پاکستان سے مزید کی خواہش نہیں رکھتا۔

اس دورے میں اس کی بدستوریہ خواہش رہی کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کے خلاف بھی کارروائی کرے ،یہ جانتے ہوئے بھی کہ لشکر طیبہ مقبوضہ کشمیر میں ہے اور حقانی نیٹ ورک افغانستان میں ہے۔ایک تیسرا مطالبہ یہ بھی ہے کہ داعش کے خلاف ان ممالک میں باقاعدہ کارروائی میں حصہ لے جہاں داعش کے خلاف کارروئیاں جاری ہیں ۔
رہا یہ سوال کہ وزیر اعظم کا دورہ امریکا مجموعی طور پر ناکام تھا یا کامیاب تو حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس دورے کو کامیابی اور ناکامی کے ترازو پر نہ تولا جائے ،بلکہ اس بابت یہ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے پاکستانی وزیر اعظم کا یہ دورہ نہ کرنا زیادہ بہتر ہوتا،امریکی حکم پر تو ہم لبیک کہتے ہی ہیں ، امریکی خواہش پر بھی لبیک کہنے سے نہیں چوکتے ۔

اس وقت پاکستان کی قطعا ایسی کوئی ضرورت نہیں کہ امریکی صدر کی دعوت پر اس کے وزیر اعظم کا جانا ضروری ہوتا،ضرورت امریکا کی تھی اور ہے ۔اس لیے امریکی صدر کو پاکستان آنا چاہیے تھا، جس طرح وہ دنیا کے دیگر ممالک جاتے ہیں ،افغانستان اور بھارت جاتے ہیں تو پاکستان آنے میں کیوں عار ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :