تحریک اصلاح مذہب

پیر 26 اکتوبر 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یورپ کی تاریخ میں سولہویں صدی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ سولہویں صدی کے پہلے وسط میں یورپ میں تحریک اصلاح مذہب (reformation) نے جنم لیا اور اس تحریک نے یورپ کی تاریخ میں انقلاب برپا کر دیا ۔اصلاح مذہب کی یہ تحریک پاپائیت اور پادریوں کی طرف سے قائم مذہبی جبر کا تنیجہ تھی ۔ قرون وسطیٰ کا یورپ مکمل طور پر مذہبی تسلط میں جکڑا ہوا تھا ، پاپائیت کی تاریخ اگرچہ بہت پرانی تھی لیکن قرون وسطیٰ میں آ کر اس کا جبر حد سے بڑھ گیا تھا ۔

بادشاہ، جاگیر دار اور عوام سب کلیسا کے ماتحت اور اس کے غلا م تھے ۔ بادشاہوں کا عزل ونصب بھی کلیسا کے ہاتھ میں تھا ۔ پوپ جس کو چاہتا بادشا ہ بنا دیتا اور جسے چاہتا معزول کر دیتا ۔ تیرھویں اور چودھویں صدی کے اکثر حکمران پوپ کی طرف سے مقرر کیئے ہوئے تھے ۔

(جاری ہے)

پوپ طاقت و اختیارکے ساتھ اب اپنی شان و شوکت بھی بڑھانے لگا تھا ۔ پوپ کے تاج میں قیمتی موتی اور نگینے جڑے ہوتے تھے ۔

تیرھویں صدی میں پوپ کی ذاتی جاگیر 17ہزار مربع میل ہو چکی تھی ۔ بادشاہ اور عوام سب کی تقدیر پوپ کے ہاتھوں لکھی جاتی ، اگر کو ئی بغاوت کرتا تواس کی موت کا پروانہ جاری کر دیا جاتا ۔پوپ نے تفتیش کا ایک محکمہ قائم کیا ہوا تھا جس کے بارے میں ذرا سا شک ہوتا اسے گرفتار کر لیا جاتا ، عدالت میں پیشی ہوتی ، بند کمرے میں عدالت لگتی ، ملزم کو اپنا موٴقف پیش کیئے بنا سزا سنا دی جاتی ۔

ملزم اقرار کرتا تو پھانسی انکار کرتا تو تشدد کر کے مار دیا جاتا ، انکار یا اقرار دونوں صورتوں میں موت یقینی ہوتی ۔ بغاوت کرنے والوں کو آگ میں جلا دیا جاتا یا کھولتے تیل میں پھینک دیا جاتا ۔تقریبا نو لاکھ لوگوں کو اس طرح موت کی بھینٹ چڑھا یا گیا ۔ ۔ عیسائی روایات کے مطابق پوپ غلطیوں سے پاک اور معصوم عن الخطاء تھا اور اس کے احکام تشریعی نوعیت کے ہوتے تھے ، گویا پوپ صرف شارح نہیں شارع بھی تھا اور وہ کسی بھی طرح کے مذہبی احکام لاگو بھی کر سکتاتھا ۔

جب کلیسا کے بارے میں یہ عقیدہ بن گیا تو یہیں سے مذہبی جبرشروع ہوا ۔ اب اگر کوئی فرد کلیسا سے اختلاف کرتا تو اسے بدعتی ڈکلیئر کردیا جاتا اور بدعتی کا مطلب تھا کہ اب یہ شخص دنیا میں رہنے کے قابل نہیں ۔ بائبل کو پڑھنے اور سمجھنے کی اجازت نہیں تھی ، بائبل کا ترجمہ ممنوع ہوا ، رہبانیت پر زور دیا جانے لگا ، پادریوں کی آمریت قائم ہوئی ، عورت کو معاشرے میں منحوس سمجھا جانے لگا ، چرچ افراد کی نجی زندگی میں دخیل ہوا ، ہر علاقے کے عوام لے لیئے ضروری ہوا کہ وہ کم از کم سال میں ایک بار پادری کے سامنے حاضر ہو کر اپنے گناہوں کا اقرار کریں ، عورتوں کی آذادی اور تفریح پر حملے ہوئے ، عوام کو چرچ کے تسلط میں رکھنے کے لیئے خوفزدہ کیا جانے لگا ۔

عوام میں بد عنوانی اور توہمات بڑھ گئے ، لوگ ڈاکٹر کی بجائے پادریوں کے پا س جانے لگے ، دعائیں مانگتے ، فالیں نکلواتے اور تبرکات کی پوجا کرتے۔ رومی تہذیب میں جہاں سرکس ،حمام ، تالاب، فوارے ، کھیل کے میدان اور جمنازیم تھے اب کلیسا نے وہاں چرچ ، خانقاہیں اور مقبرے بنوا دیئے۔مغفرت نامے لکھوائے گئے جس میں پوپ نے اعلان کیا کہ جو جنت میں جانے چاہیں وہ اتنی رقم کے عوض مغفرت نامے لکھوا لیں ۔

جن کے آباء اجداد وفات پا گئے تھے ان کے ورثا کو خیال آیا تو وہ بھی مغفرت نامے لکھوانے پوپ کے پاس پہنچ گئے ۔ یہ سارا مذہبی جبرتھا جس نے عوام کو کلیسا اور چرچ سے بد ظن کر دیا تھا ۔
مغفرت ناموں کی فروخت وہ آخری اسٹیج تھا جس کے بعد یورپ میں کلیسا کے خلاف فیصلہ کن آواز اٹھی ، اگرچہ اس سے پہلے بھی پیٹر والڈ، جان ٹولر اور جان وائی کلف کلیسا کے خلاف آواز بلند کر چکے تھے لیکن انہیں کامیابی حاصل نہ ہوئی اور کلیسا کے خلاف کامیاب بغاوت کا سہرا مارٹن لوتھر کے سر سجا۔

مارٹن لوتھر 10نومبر1483میں جرمنی کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا ، اس کے والدین بہت غریب تھے اور اس کا سارا بچپن ایک جھونپڑی میں گزرا ۔ وہ صبح پڑھنے جاتا اور شام کو محنت مزدوری کر کے اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتا۔ اس کے والدین اسے قانون کی تعلیم دلانا چاہتے تھے لیکن اس کا رجحان مذہب کی طرف تھا ، اس نے قانون چھوڑا اور پادری بن گیا ۔ پادری بننے کے بعد وہ یورپ گیا ، ٹولر کی کتب سے استفادہ کیا ، یورپ کے وزٹ نے اسے پاپائیت کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور کر دیا ۔

وہ یورپ سے واپس آیا تو مذہب اور عیسائیت کے بارے میں ا س کا نظریہ بدل چکا تھا ، اب وہ سرعام کہتا تھا کہ پوپ روحانی پیشوا ہونے کا اہل نہیں ۔ جرمنی واپس آتے ہی اس نے پوپ کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا ۔ اس نے مغفرت ناموں کو فضول اور غلط قرار دیا ،کلیسا کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی اور 21اکتوبر1517میں چرچ کے خلاف باقاعدہ تحریک چلانے کا اعلان کردیا ۔

اس نے جرمنی کے شہر وٹن برگ میں ایک گرجے کی دیوار پر ایک طویل عبارت لکھوا کر لگوا دی جس میں پوپ پر شدید تنقید کی گئی ۔ پوپ کو پتا چلا تو اس نے مارٹن لوتھر کو ایک بگڑا ہوا ”لونڈا “قرار دید یا ۔ پادریوں اور لوتھر کے درمیان مناظرے ہوئے لیکن لوتھر اپنے نظریات پر قائم رہا۔ چرچ اور کلیسا کے مظالم سے تنگ آئے عوام بھی لوتھر کے گرد جمع ہونے لگے ، ہزاروں کا مجمع اکٹھا ہوتا ، پوپ اور چرچ کے خلاف نعرے لگائے جاتے ،چرچ کے ظلم وستم کے ستائے ہوئے کچھ شہزادے بھی اس تحریک میں شامل ہوگئے ۔

بات آگے بڑھی تو پوپ نے لوتھر کو ایک سال کے لیئے جیل میں ڈال دیا ،وہ وہاں بھی آرام سے نہ بیٹھا اور بائبل کو جرمن زبان میں ٹرانسلیٹ کر ڈالا ۔ 1520میں پوپ نے ایک اعلان جاری کیا جس میں لوتھر کو ملحد اور بے دین قرار دیا گیا اور اس کے پیرو کاروں کو مردود کہا گیا ۔ یہ حکمنامہ مارٹن لوتھر کے پاس پہنچا تو اس نے لوگوں کے سامنے اس حکمنامے کو آگ لگا دی ۔

1529میں انگلستان کے بادشاہ ہنری ہشتم نے بھی پوپ کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا اور حکم جاری کیا کہ انگلستان کے گرجے کاآئندہ پوپ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو گا ۔ آہستہ آہستہ یہ تحریک آگے بڑھی اور پورے یورپ میں پھیل گئی ۔ اب عوام میں بھی شعور اجاگر ہو چکا تھا ،چرچ اور کلیسا عوام میں بدنام ہو چکے تھے ،مارٹن لوتھر اگرچہ فروری 1546میں انتقال کر گیا لیکن اس کی یہ تحریک اس کے بعد بھی جاری رہی ۔

لوتھر کے بعد اس کے اصلاحی کام کو زونگلی، جان کالون اور جان ناکس نے آگے بڑھایا۔ لوتھر نے پاپائیت کے جبر کے خلاف پروٹسٹ(احتجاج) کیا تھا اس لیئے اس فرقے کا نام پروٹسٹنٹ پڑ گیا ۔ اب عیسائیت میں ایک کی بجائے دو فرقے بن گئے ، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ، کیتھولک قدیم روایات اور پاپائیت کی بالا دستی چاہتا تھا لیکن پرٹسٹنٹ فرقے نے قدیم روایات سے بغاوت کے ساتھ پوپ کو مذہبی اتھارٹی ماننے سے بھی انکا ر کر دیا تھا ۔

اگرچہ اس وقت دنیا میں کیتھولک تعداد میں ذیادہ ہیں لیکن ہمارے برصغیر میں پروٹسٹنٹ ذیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔ کیتھولک فرقے نے چرچ اور کلیسا کی اصلاح کی کوششیں شروع کر دیں ، دوسری طرف پروٹسٹنٹ فرقے پر ظلم و ستم بھی جاری رہا ، دونوں طرف کے انتہاپسندانہ نظریات کی وجہ سے کیتھولک اور پروٹسٹنٹو میں 1618سے1648تک تیس سالہ مذہبی جنگیں لڑی گئیں اور ان میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے ۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ اختلافات آج بھی جاری ہیں اور دونوں فرقے ایک دوسرے کو کافر اور جہنمی سمجھتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :