پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شگاف

جمعرات 22 اکتوبر 2015

Ahmad Hamza

احمد حمزہ

پا کستان مسلم لیگ(ن) جو کہ حکمران جما عت بھی ہے مو جودہ دور میں وقت کے بد ترین اندرونی خلفشار سے گزر رہی ہے۔ مسلم لیگ نواز کوپہلی دفعہ مشکلات کا سا منا مشرف کے اقتدار سنبھالنےکےبعد ھوا اور اب تو اقتدار میں ہونے کے با وجود بد تر ین حالات کا سامنا کر رہی ھے۔مشرف کے دور حکومت میں جب مسلم لیگ نواز پر کڑا وقت آیا تو حالات کو سنبھالنے کے لیے مجبوراُ بیگم کلثوم نواز کو آگے آنا پڑا۔

لیکن موجودہ دور میں جب اقتدار بھی مسلم لیگ نواز کے پاس ھے تو پھر بھی مسلم لیگ نواز میں پڑی دڑا یں اب شگاف میں تبد یل ہوتی جا رہی ہیں۔اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کاروبار حکومت چلانے کی لیے وفا قی کابینہ کے وزراُ آپس میں بات چیت کرنا تو درکنار ایک دوسرے سے ہاتھ تک ملانا گوارا نہیں کرتے جس کی باز گشت قومی ابلاغ میں بھی سنی گیُ ۔

(جاری ہے)

وفا قی کابینہ کی کار کردگی کا اندازہ اس بات سے بخو بی لگا یا جا سکتا ھے کہ جس ملک کا وزیر داخلہ کیُ ماہ تک اپنے ھی وزیر اعظم سے ناراض رھے اس ملک کی داخلی صورتحال کا اندازہ کرنا کو یُ مشکل کام نہیں ۔اب کی بار وزرا نے کھل کر ایک دوسرے کیساتھ معا ملات طے کرنا شروع کر دیا۔ اور رھی سہی کسر نندی پاور پرا جیکٹ نے پوری کر دی ۔نندی پور کروڑوں کا پرا جیکٹ کھربوں کا بن جاتا ہے اور اس کے باوجود وہ فیل ہوجاتا ہےجس کی نا کامی کا سبب وزیر ایک دوسر ے کے سر تھوپننے کی کوشش میں لگے ہوۓ ہیں۔

نندی پاور پراجیکٹ جو کہ وزیر ا علی پنجاب اور وزیر دفا ع کے در میان اختلاف کا ایک اہم سبب بن گیا ہے اسی طر ح وزیر دفاع اور وزیر د اخلہ ایک دوسرے کے بارے میں کیسے خیالات رکھتے ہیں اس کا اظہار وہ کیُ بار میڈیا پر آ کر کر چکے ہیں اقتدار کی راہداریوں سے ہوتی ہویُ یہ جنگ اب عام ہوتی جا رہی ھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب مسلم لیگ نواز میں منظم جماعت والا نظم و نسق نا پید ہوتا جارہاہے۔

ہونا تو یہ چا ھیے تھا کہ تمام کا بینہ کے ارکان وزیر اعظم کی ٹیم کے طور پر کام کرتے اور مل کر تمام مقا صد کے حصول کی
کو ششیں کرتے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا ۔ حالانکہ جون 2013 کو وزیراعظم پاکستان نے واضح طور پر اس بات کا اعلان کیا تھا کہ جو وزیر اپنی کار کردگی دکھا ےؑ گا وہ ہی اپنی وزارت پر رہ سکے گا لیکن بد قسمتی سے آج تک اس پر عمل نہیں ہو سکا۔

پارٹی کے اندر اختلاف ہونا کو یُ غلط بات نہیں لیکن یہ اختلاف اگر صرف ضد اور ذاتی مفادات پر مبنی ہوں تو اس کا خمیازہ سب کو بھگتننا پڑتا ہے۔ مسلم لیگ نواز کی با ہمی چپقلش کا مظا ہرہ قومی اسمبلی کے حلقہ 122 کے ضمنی انتخا ب کے دوران نما یاں ہو کر اس وقت سامنے آیا جب ا یاز صادق کی انتخابی مہم بھر پور طریقے سے سے چلا یُ گیُ اوراس کے لیے تن دھڑکی بازی لگا یُ گیؑ جبکہ محسن لطیف جو کہ صوبا یُ اسمبلی کے امیدوار تھے وہ گمنامی میں رہے اور آخری وقت تک عوام کو یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ صو با یُ اسمبلی کی نشست کے لیے بھی پاکستان مسلم لیگ کا کو یُ امید واربھی میدان میں ھے۔

مسلم لیگ نواز کے اندررونی خلفشار کے کیُ عوامل ہیں جن میں سرفہرست انا پرستی ، میرٹ کا قتل اور اختیارات کا نہ ہونا ،یا اختیارات کانا مناسب استعمال۔نندی پاور پراجیکٹ جو کہ وزیر ا علی پنجاب اور وزیر دفا ع کے در میان اختلاف کا ایک اہم سبب بن گیا ہے ان حالات کے ساتھ ہی عابد شیر علی کے والد کی پریس کانفرنس جس میں وہ رانا ثناالللہ کے خلاف خم ٹھونک کے میدان میں آگےؑ ھیں وہ بھی میڈیا کی زینت بن چکی ھے۔

مسلم لیگ نواز کو بیک وقت کیُ محاذوں کا سامنا ھے ۔ جن میں سر فہرست پی ٹی آ یُ کے سونامی کا سامنا ھے جو ہر گزرتے وقت کے ساتھ اپنی سیا سی طاقت میں اضافہ کرتی جا رہی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ رہی سہی کسر بلد یاتی انتخابات کے لیے امید واروں کا انتخا ب نے نکال دی جو کہ ایک مشکل ترین مرحلہ ہے جو پارٹی کے اندر مزید ٹوٹ پھوٹ اور گروہ بندیوں کا سبب بنے گا۔

اگر پاکستان کی سیا سی جماعتیں بر وقت پارٹی کے انتخاب منعقد کرا تیں تو اس طر ح کی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جیسا کہ آج کل مسلم لیگ نواز کو آج کل درپیش ہے۔ میاں محمد نواز شریف اگر مسلم لیگ کو زندہ رکھنا چا ہتے ہیں تو ان کو تمام معاملات کو سامنے رکھتے ہو ےٰ فیصلہ کرنا چا ہیے اور جو بھی فیصلہ کر یں وہ حقیقت پسندانہ ہونا چا ہیے اور یہ کام کمیٹیوں کے سپرد نہ کریں اگر ایسا کیا گیا تو مسلم نواز کا حال بھی پاکستان پیپلز پارٹی جیسا ھوگا۔

انصاف کا تقاضہ ہے کہ جو لوگ کارکردگی نہیں دکھا رہے انکا احتساب ضرور ہونا چاہئے اور وزارتیں اہل ممبران کے سپرد کرنی چاھیےؑ سیاست میں جو چیز سب سے اہم ھے وہ ہے بر وقت فیصلہ کرنا اور اگر میاں نواز شریف نے حالات کی نزاکت کو نہ سمجھا اور بروقت فیصلہ نہ کیا تو مسلم لیگ کی ٹوٹ پھوٹ کو روکنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہو جائےگا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :