سودکے خاتمے کی جدوجہد اور حالیہ بے حسی

منگل 20 اکتوبر 2015

Qari Hanif Jalandhri

قاری حنیف جالندھری

وطن عزیز پاکستان کلمہ طیبہ کے نعرے ،دوقومی نظریے کی بنیاد اور اسلامی دستور حیات کے نفاذ کی خاطر معرض وجود میں آیا ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آزادی نصیب ہوتے ہی اس ملک میں اسلامی نظام حیات کو اس کی روح کے مطابق نافذ کردیا جاتا اورپاکستان اسلام کے عادلانہ نظامِ حیات کی بدولت ایک مکمل فلاحی ریاست کے طور پر سامنے آتا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا ۔

پاکستان کو غلامی کی اَن دیکھی زنجیروں سے چھٹکارا نہ مل سکا اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کو اپنی حقیقی منزل سے ہمکنار نہ ہونے دیاگیا ۔
آپ صرف سود کی مثال لے لیجیے ۔پاکستان کے 1973ء کے آئین میں سود کے خاتمے کی ضمانت دی گئی ۔آئین کے آرٹیکل 38میں حکومتِ وقت کو اس بات کا پابند بنایا گیا کہ جس قدر جلدی ممکن ہو ملک سے سود کا خاتمہ کیا جائے ۔

(جاری ہے)

بلکہ سود کے معاملے میں آئین پاکستان سے پہلے بھی مختلف اندازسے کوششیں کی جاتی رہیں کہ پاکستانی معیشت کو سود سے کسی طرح پاک کیا جائے ۔علماء کرام اور دین دار طبقے کی طر ف سے ہمیشہ اس سلسلے میں جدوجہد جاری رہی بلکہ خود بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سمیت پاکستان کے دیگر خیر خواہوں نے اس ملک کو سود کی لعنت سے چھٹکارا دلانے کی بھرپور کوشش کی ۔

سرکاری سطح پر سب سے پہلے آئین پاکستان کی منظوری سے چار برس قبل جب مشرقی اور مغربی پاکستان ایک تھے اس وقت ڈھاکہ میں اسلامی مشاورتی کونسل کا اجلاس منعقد ہواجس میں قرضوں پر اضافی وصولی ،سیونگ سرٹیفکیٹس ،پرائز بانڈزاور انشورنس کو سود کی مختلف شکلیں قرار دیا گیا اور ان سے چھٹکارہ پانے کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کی سفارش کی گئی تھی لیکن انفرادی ،اجتماعی ،نجی اور سرکاری کسی سطح پر سود سے نجات کی کوئی کوشش ثمر آور نہ ہو سکی ۔

پھر جب 29ستمبر 1977ء کو اسلامی نظریاتی کونسل تشکیل دی گئی تو یہ امید ہو چلی کہ ایک باضابطہ آئینی ادارہ قائم ہو چکا اور اب اس ملک میں آئینی اور قانونی طور پر اسلامائزیشن کی طرف پیش رفت ہو گی ۔چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل نے مختلف ادوار میں پاکستانی معیشت کو سود سے پاک کرنے کے لیے کام کیا ،ماہرین فن کی خدمات حاصل کی گئیں ،ممتاز علماء کرا م سے رہنمائی لی گئی ،بہت وقیع تجاویز اور سفارشات تیار ہوئیں اور تقریبا تین برس بعد 1980ء میں اسلامی نظریاتی کونسل کے جائزے ،سفارشات اور تجاویز پر مشتمل رپورٹ تیار کی گئی جسے عوام کے لیے منظر عام پر بھی لایا گیا لیکن عملدرآمد کی کوئی سبیل نہیں نکل پائی ۔


15جون 1988ء میں جنرل ضیاء الحق نے شریعت آرڈیننس جاری کیا تو ایک مرتبہ پھر امید کی کرن جاگی کہ شاید اب نفاذِ شریعت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوپائے گا۔شریعت آرڈیننس کے اجراء کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر احسان رشید کی سربراہی میں اسلامی معیشت کمیشن تشکیل دیا گیا تو پاکستانی معیشت کی تطہیر کی امید یقین میں بدلتی محسوس ہوئی لیکن صرف دو ماہ بعد جنر ل ضیاء الحق طیارہ حادثے میں جاں بحق ہو گئے تو ان کے بعد برسرا قتدار آنے والی بے نظیر بھٹو حکومت نے نہ صرف یہ کہ وہ کمیشن تحلیل کر دیا بلکہ اس آرڈیننس کو بھی اسمبلیوں میں پیش نہیں ہونے دیا ۔


پاکستانی معیشت کو سود سے پاک کرنے کی کوششوں میں کمیٹیاں کے بننے اور ٹوٹنے کی بھی ایک لمبی داستان ہے ۔1969ء میں اسلامی مشاورتی کمیشن کی طرف سے کمیٹی کے قیام کی سفارش سے لے کر 1991ء میں پروفیسر خورشید کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی ،مولانا عبدالستار خان نیازی کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی ،1997ء میں راجہ ظفر الحق کی قیادت میں بننے والی کمیٹی تک ہر دور میں سود کے کمبل کو نہ چھوڑنے کے لیے کمیٹیوں کا سہارا لیا جاتا رہا ،ان کمیٹیوں کی سفارشات کو ہمیشہ بھاری بھرکم فائلوں تلے دبایا جاتا رہا ۔

اس سے زیادہ افسوسناک صورتحال عدالتی اور قانونی محاذ پر پیش آئی ۔عدالتی محاذ کی داستان کا آغاز 1981ء سے ہوتا ہے ۔1981ء میں وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی لیکن سرمایہ دارانہ ذہنیت نے اس کی مُشکیں کَسنے کے لیے ابتداءً مالی معاملات کو اس کے دائرہ اختیار میں آنے ہی نہیں دیا جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کے کنویں کو سود کے کتے سے پاک نہیں کیا جا سکا ۔

پھر اسی وفاقی شرعی عدالت کو ہی سود سے نجات کا ذریعہ قراردیتے ہوئے کوششیں جاری رہیں اور بالآخر دس سال بعد یعنی14نومبر 1991ء کو وفاقی شرعی عدالت نے سود کیس میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو چھے ماہ کا وقت دیا کہ وہ چھے ماہ کے اندر اندر ملکی معیشت کو سود سے پاک کرے ۔
سوء ِ اتفاق سے اس دور میں بھی موجودہ وزیر اعظم وزارت عظمی ٰ کے منصب پر جلوہ افروز تھے ۔

میاں نواز شریف نے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی اور پھر 1991ء سے لے کر 1999ء تک مختلف حیلے بہانوں سے اس معاملے کو لٹکایا جاتا رہا بالآخر 1999ء میں سپریم کو رٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے وہ اپیل خارج کرکے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا اور حکومت کو 30جون 2001ء تک ملکی معیشت کو سود سے پاک کرنے کے لیے ڈیڈ لائن دی ۔


2001ء میں پرویز مشرف حکومت کی ایماء پر یوبی ایل نے ایک اور اپیل دائر کی جس کی سماعت کے دوران حکومت کو ایک سال کا مزید وقت مل گیا ۔اس عرصے میں شریعت اپیلٹ بینچ کے ججوں کو تبدیل کر کے ایسے ابن الوقت اور نام نہاد روشن خیال لوگوں کو سامنے لایا گیا جنہوں نے حکومت کو سودی سلسلہ جاری رکھنے کا عندیہ دیا اور پھر سود کے خاتمے کی کوششیں کسی سرد خانے میں پڑی رہیں ۔


حال ہی میں سپریم کورٹ میں سود کے حوالے سے دائر کردہ ایک درخواست کو خار ج کرتے ہوئے جسٹس سرمد جلال عثمانی نے جو ریمارکس دئیے اس نے اس پاکستانی معیشت اور سود کے معاملے کو پھر سے موضوع بحث بنا دیا ۔جسٹس سرمد جلال عثمانی کے ریمارکس پرپوری قوم شدید صدمے سے دوچار ہوئی ۔جسٹس سرمد عثمانی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے باہر مدرسہ کھول کر لوگوں کو سود کی حرمت کا درس نہیں دیا جاسکتا جوسود لیتے ہیں ان سے اللہ پوچھے گا ۔

جسٹس سرمد کے ان ریمارکس کے بارے میں تو صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ صرف سود لینے والوں سے ہی نہیں بلکہ سودی نظام کا تحفظ کرنے والوں سے بھی اللہ پوچھے گا انشااللہ ۔ تاہم ان کے ان ریمارکس نے سود کے معاملے میں بیوروکریسی ،عدلیہ اور دیگر حکومتی کَل پروزوں کا طرز عمل اور سوچ بے نقاب کر دی ہے ۔اگر اسی منطق کو تسلیم کر لیا جائے تو کل کلاں یہ کہا جائے گا کہ ملک لوٹنے والوں سے بھی اللہ پوچھے گا ،ڈاکے ڈالنے والوں سے بھی اللہ پوچھے گا ،دہشت گردی کرنے والوں سے بھی اللہ پوچھے گا ہم سپریم کورٹ کے باہر مدرسہ کھول کران جرائم کی برائیاں لوگوں کے سامنے واضح نہیں کر سکتے ۔


سپریم کورٹ میں پیش آنے والے اس تازہ واقعے نے بہت سے پرانے زخم ہرے کر دئیے ہیں اور دلی صدمہ ہوا کہ وطن عزیز میں سود جیسے انتہائی نازک معاملے کو کس طرح بازیچہ اطفا ل بنایا گیا اور بنتی ٹوٹتی کمیٹیوں سے لے کر ،اعصاب شکن عدالتی جدوجہد تک ایک خدائی حکم کے ساتھ محض اپنے مفادا ت کے لیے کس بھونڈے انداز سے کھلواڑ کیا گیا ۔ بیوروکریسی ،عدلیہ ،سرمایہ داروں اور بین الاقوامی ساہوکاروں کے مفادات نگہبانوں کے طرز عمل سے زیادہ مذہبی جماعتوں اور دینی شخصیات کا طرزِ عمل باعثِ حیرت ہے۔

ہمارے ہاں کئی معاملات کو قومی ایشو بنایا جاتا ہے ،صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے ،جلوس نکلتے ہیں ،احتجاج ریکارڈ کروائے جاتے ہیں لیکن اس اتنے بڑے معاملے میں ہر طرف ہُو کا عالم ہے،عجیب سی بے حسی ہے۔یہ صورتحال ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :