خارجہ پالیسی کی ناکامی کاسفر

اتوار 18 اکتوبر 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

عالمی سطح پر ہر ایسے واقعے کے بعد جس میں پاکستانی شہری ملوث ہوں ، اکثر پاکستانی حکومتوں کے ناکافی رد عمل کا رونا رویا جاتا ہے اور ملکی ذر ائع ابلاغ میں حکومت کو خوب مطعون کیا جاتا ہے۔ ہمارے دانشوروں کی تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ حکمران دوسرے ملکوں کے غلام ہیں، خارجہ پالیسی غلام اور ناکام ہے وغیرہ وغیرہ۔
وہ انگریز جن کی کیا بات ہے کہتے ہیں کہ ”ہر مسئلے کو حل کرنے کے لئے اسکی جڑ تک پہنچنا اور تجزیہ کرنا ضروری ہے۔

جب تک مسئلے کا جڑ سے جائزہ لے کر اسے حل نہ کیا جائے، مسئلہ کبھی حل نہیں ہوتا“۔ آئیے اس مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خارجہ پالیسی کے غلامی میں جانے کی ابتدا اس وقت ہی ہوگئی تھی جب پاکستانی چارلس ڈیگال نے تحریک پاکستان کے رہنماوٴں کو غدار، بیرونی ایجنٹ اور نا اہل قرار دے کر پابند سلاسل کیا، سیاست سے بے دخل کیا اور ملک سے جلاوطن ہونے پر مجبور کیا۔

(جاری ہے)

سیاستدان اور دانشور مختلف ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ پاکستانی چارلس ڈیگال نے ملک پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے بعد اپنا اقتدار بچانے اور عالمی قبولیت حاصل کرنے کے لئے خارجہ پالیسی کو مکمل طور پر مختلف بیرونی طاقتوں کی گودوں میں ڈال دیا۔ ملک اس ” سنہرے “ دور میں ایسے معاہدوں میں جکڑ دیا گیا کہ انکے بھیانک نتائج شاید آج بھی ملک کا پیچھا کر رہے ہیں۔

انکی عظیم پالیسیوں کا نتیجہ تھا کہ جنرل رانی کا زریں دور آنے تک ملک کے آدھے حصے کے نامور سیاستدان اور دانشور جلاوطن تھے اور ملک عالمی سطح پر المناک تنہائی کا شکار تھا۔ جنرل چارلس ڈیگال اور جنرل رانی کی ”عظیم خارجہ پالیسی “ کا کمال تھا کہ پاکستان دشمن کے حملے کی زد میں تھا اور کوئی ”دوست “ ملک ہماری مدد کو نہیں آیا اور ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے۔


مرد مومن کے ایمان آفرین دور میں ہماری خارجہ پالیسی کمال کو پہنچ گئی۔ نیل کے ساحل سے لیکر کا شغر بلکہ اس سے بھی دور پرے کی سر زمینوں کے جو ہمارے شاعر مشرق کے بھی کبھی خواب و خیال میں بھی نہیں آئی ہونگی، مجاہدوں کو پاک سر زمین میں بغیر کسی ویزہ، پاسپورٹ کے دندنانے کی اجازت دی گئی۔ اِس ایمان آفرین دور میں جہاں ہزاروں ، لاکھوں مجاہد اور لاکھوں افغان مہاجرین ، برمی، بھارتی، بنگالی باشندوں کو وطن عزیز میں قدم رنجہ فرمانے کی اجازت دی گئی وہیں سیکڑوں سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کو جلاوطن ہونے اور مختلف ممالک میں سیاسی پناہ لینے پر مجبور کیا گیا۔

ملک کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر ” برادر“ اور غیر برادر ممالک اور قوتوں کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ قیام پاکستان کے کئی سال بعد تک پاکستانیوں کو دنیا کے بیشتر مملک میں بغیر ویزہ کے سفر کی سہولت حاصل تھی ۔، مرد مومن کے ایمان افروز دور کے اختتام تک دنیا بھر کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک پاکستانیوں کی بغیر ویزہ انٹری بند کر چکے تھے بلکہ ایسے تمام ممالک جنہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو اپنی آہنی گرفت میں جکڑا ہوا تھا ، عام پاکستانیوں کے لئے ویزہ حاصل کرنے کی شرائط بھی اتنی سخت کر چکے تھے کہ انکا ویزہ ملنا ناممکنات میں شامل ہو چکا تھا۔

اس عرصے میں ملک کا سیاچن نامی ایک حصہ دشمن کے قبضے میں چلا گیا مگر دنیا نے ہمارے ملک کے حق میں کوئی آواز نہ اٹھائی، یہ تھی مرد مومن کی خارجہ پالیسی۔اس کے بعد باری تھی کمانڈو جنرل کی۔ کمانڈو جنرل نے اپنے پیشرووٴں کے تجربات سے خوب فائدہ اٹھایا۔ آپ نے تمام اہم سیاستدانوں کو ملک سے جلاوطن رکھا۔ آپ کی خارجہ پالیسی کی کامیابی تھی کہ آپ نے وطن عزیز کو ملکی تاریخ کی طویل ترین جنگ میں دھکیل دیا۔

ملکی سرزمین اور فضائی اڈے بیرونی ” دوستوں“ کے حوالے کر دئے گئے۔ آپ کی ”کامیاب“ خارجہ پالیسی کے نتیجے میں خارجی محاذوں پر سر گرم تمام ” مجاہدین“ پاکستانی عوام سے جنگ کرنے کے لئے خیبر سے کراچی تک ہر شہر میں پھیل گئے اور ہمارے شہر اور قصبے محاذ جنگ میں تبدیل ہوگئے۔ کمانڈو جنرل کی کامیاب خارجہ پالیسی کا نتیجہ ساٹھ ہزار سے زائد پاکستانیوں کی شہادتوں کی صورتوں میں سامنے ہے۔

پاکستان کے ان چاروں قابل قدر سپوتوں یعنی جنرل چارلس ڈیگال، جنرل رانی، مرد مومن اور کمانڈو کی کامیاب خارجہ پالیسی پر نظر ڈالی جائے تو انکی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی کامیابی ملک کے منتخب سیاستدانوں کو بیرون ملک جلا وطن کرنا نظر آتا ہے ، دوسری بڑی کامیابی ملک کی خارجہ پالیسی کو برادر اور غیر برادر ممالک کی غلامی میں دینا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک کے سیاستدانوں کو بیرونی ممالک میں پناہیں لینے پر مجبور کر دیا جائے اور ہر وقت حکومتی اور غیر حکومتی سیاستدانوں کو اسی طرح کا خدشہ لگا رہے تو پھر اس بات کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے یہ سیاستدان ان ممالک کے خلاف کوئی بڑا اسٹینڈ لینے کی پوزیشن میں آئیں گے۔

ستم ظریفی ملاحظہ ہو ، اس بات کو ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے ملک کی خارجہ پالیسی کہاں بنتی ہے اور ڈوریں کون ہلاتا ہے، مگر اس کے باوجود جب بھی کوئی معاملہ خراب ہوتا ہے تو لعن طعن سیاستدانوں کے حصے میں آتی ہے، اور کامیابی کی صورت میں سارا کریڈٹ مقتدر قوتوں کو دے دیا جاتا ہے۔
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
پاکستانی شہریوں کو اس وقت تک دنیا کے مختلف ممالک میں عزت اور احترام نہیں ملے گا جب تک ہماری خارجہ پالیسی آزاد نہیں ہوگی۔ اور خارجہ پالیسی اس وقت آزاد ہوگی جب ہمارے سیاستدان، دانشور اور جنرل بیرونی ممالک میں پناہیں لینے پر مجبور ہونے کے بجائے وطن عزیز میں باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کے قابل ہو جائینگے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :