کالامنہ

اتوار 18 اکتوبر 2015

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

ماشا ء اللہ !متحدہ کی جان میں جان آگئی ، زندگی کی ڈوریں بحال ہونے لگی ہیں،سانسیں جو رک رک سی گئی تھیں انہیں کچھ آکسیجن فراہم ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں ۔ اسمبلی میں واپسی تو اب تقریبا پکی ہوگئی ، اس واپسی کا فوری فائدہ متحدہ کو تو جو ہوگا سو ہوگا ، حکومت کو بھی ہو گا ، اس کے نئے اسپیکر کے یہ ووٹ تقریبا پکے اور ٹھکے ۔ اسمبلی آمد کے بعد کراچی آپریشن کے معاملے میں بھی کچھ نہ کچھ اشک شوئی کا سامان بھی ہو جائے گا، بلدیاتی انتخابات سر پر آگئے ہیں اس میں بھی اس ہاتھ دو اور اس ہاتھ لو کی بنیاد پر پی پی اور ن لیگ سے کچھ نہ کچھ معاملات طے ہو ہی جائیں گے ، متحدہ اگر اب بھی سبق نہ سیکھے اور پورے شہر پر ہاتھ رکھے ، بلا شرکت غیرے چودھراہٹ سجانے کی کوشش کرے اور میں نہ مانوں کسی کی نہ مانوں والا رویہ رکھے تو پھر ۔

(جاری ہے)

۔۔۔ کسی وقت اس کو پچھتاوا ملے گا ۔ پچھتاوے کے وقت سے پہلے پہلے جو جو جتنا جتنا مل جائے لے لیا جائے یہی سمجھ داری ہے۔
####
2015کا اکتوبر اپنا نصف گزار چکا ہے ، یعنی سال کے خاتمے میں اب ڈھائی مہینے رہ گئے اور نئے عام انتخابات کا دور دور تک پتا نہیں ، عمران خان صاحب کے سارے دعوے ٹھس ہو گئے ہیں ،لیکن خان صاحب کے استاد بڑے پکے ہیں،اور خان صاحب بھی ما شا ء اللہ بڑے تابع فرمان شاگرد ہیں انہوں نے خان صاحب کو جس کام میں لگایا تھا خان صاحب پوری دل جمعی اور دل چسپی کے ساتھ اس کام میں مشغول ہیں ، خان صاحب کا کام ہے میاں حکومت میں کیڑے نکالنا ، ملیں تو سر آنکھوں پرنہ ملیں تو کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ کے نکالنا ۔

میاں صاحب کی ٹانگیں کھینچنا، لوگوں کو بڑھکانا ، ان کی محرومیت کا رونا رونا ۔ چناں چہ خان صاحب پوری جاں فشانی سے کام میں جتے ہوئے ہیں ، یہاں تک کہ ٹیوٹر شاہ محمود قریشی بھی دل برداشتہ ہو گئے ہیں ، انہیں بھی اپنی سیاسی آنکھ سے آگے کچھ خاص نظر نہیں آرہا لیکن خان صاحب کی امید قائم ہے ، وہ سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے ، چلتے پھرتے ،بولتے چالتے، دیکھتے سنتے، سولہ پہر خودکو پاکستانی قوم کا نجات دہندہ دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔

اسی فکر میں غلطاں ، اسی سوچ میں سرگرداں۔
####
پی پی پی کہاں گئی ، عوام کی پارٹی ، عوام کی طاقت ، بھٹو کے نام پر جینے والی ،ناقدین کہتے ہیں” ایوب خان کی گود سے نکلی تھی، جنرل پرویز مشرف کی گودمیں سو گئی “۔پتا نہیں ٹھیک کہتے ہیں یا غلط ؟گو مفت میں بد نام جنرل ضیاء ہوئے ، کہ بھٹو کے نام تک کو مٹانے کی کوشش کی مٹا نہ سکے آمر کے سامنے بی بی اور پی پی دونوں سینہ تان کر کھڑی رہیں لیکن یہ کیا ہوا؟ خودجیالے کہتے ہیں مٹانے میں اصل کردار بھٹو کے داماد نے ادا کیا ، کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دامادی کے لیے زرداری کا انتخاب اور یہ ساری چال بھی جنرل ضیاء کی ہی تھی ۔

لیکن یہ توشاید کا بات کا بتنگڑ ہے لیکن رہی سہی کسرپنجاب میں منظور وٹو ادا کر رہے ہیں۔
خورشید شاہ جی دار آدمی ہیں کہتے ہیں جب وقت آئے گا توبس ہم ہی ہم ہوں گے ، ابھی ذرا ننے منے الیکشن لڑ رہے ہیں، شاہ جی ! کچھ کرنا ہے تو تیاری شروع کریں ،خان صاحب مسلسل متحرک ہیں ۔ آپ کے جیالے کہتے ہیں جب تک پارٹی زرداری کی گرفت میں ہے ،پارٹی کی یہی درگت بنتی رہے گی۔


####
امریکا بڑا نام ، بڑی طاقت ، اس کا موجودہ صدر بڑی بے تابی سے میاں نواز شریف کی میز بانی کے لیے انتظار کر رہا ہے ۔ میاں صاحب اپنی چھوٹی موٹی ٹیم کے ساتھ جانے کے لیے بالکل تیار ہیں ،اس وقت پاکستان کے بارے میں یہی خبر سب سے بڑی ہے ،تجزیے ، تبصرے ، خدشے ،وسوسے ۔ کہا جا رہا ہے امریکی صدر میاں صاحب کو مکھن کی پٹی پر پھسلائیں گے شاید میاں صاحب کی بیٹی بھی مدعو ہے ا س کو بھی شاباشی دی جا ئے گی، بہادری کی ۔

دعوے ہوں گے ، وعدے ہوں گے ، یہ بھی کہا جا رہا ہے اوباما نے اپنے اور امریکا کے چہرے پہر جو کالک ملی ، میاں صاحب سے سرف ایکسل کی فرمائش کی جائے گی ،یہ الگ بحث ہے کہ میاں صاحب کے پاس سرف ایکسل ہے یا نہیں لیکن سوچنا یہ ہے کہ ٹکا جواب دیا جائے ، اس کے دام میں آیا جائے یا بیچ کی راہ نکالی جائے۔ یعنی بہکایا اور بہلایا جائے ، کیوں کہ خواہ مخواہ کالے کتے کو پیچھے لگا لینا بھی تو کوئی بہادری نہیں ، اوباما کے جانے کا وقت ہے ، جاتے جاتے اپنا کالا منہ اجلا بنانا چاہتا ہے ، ہمارے حکم رانوں کو اس کے لیے صابن فراہم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہی کامیابی ہے ،ہیرو بننے کے چکر میں مار کھانا کمال نہیں، البتہ بھارت اور مودی کو جتنا رگڑا دیا جا سکتا ہے دیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :