مظفر گڑھ کی سونیا اور لاہور کا عابد رشید

جمعہ 16 اکتوبر 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

دعا کیلئے ہاتھ بلند کیجئے اور وطن عزیز کی خیر مانگئے۔خالق کائنا ت کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں من حیث القوم ہم جہاں آن پہنچے ہیں اس کے بعد یا تو زمین اپنا سینہ چاک کردے گی اور یا پھرآسمان ارض پر آن گرے گا ۔صدیوں قبل سے تا حال پختہ اور کامل روائیت ہے کہ جس سماج میں انصاف ناپید ہو جائے وہاں طوائف الملوکی، انتشار اور ظلم جنم لیتا ہے ۔

یہ چرچل نے کہا تھا کہ مجھے بتاؤ کیا برطانیہ کی عدالتیں لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہیں یا نہیں ؟۔ اثبات میں جواب پا کر اس نے کہا تھا اگر ایسا ہی ہے تو برطانیہ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا ۔ صدیوں قبل کا قصہ ہے جب خلیفہ دوئم حضرت عمر  زلزلہ آنے پر زمین پر پاؤں مار کراستفسار کرتے ہیں ”اے زمین تو کیوں ہلتی ہے کیا تیرے اوپر ظلم ہوا ہے ،کیا یہاں انصاف نہیں ہو رہا ؟“زمین ہلنا بند کر دیتی ہے کیونکہ خلیفہ کے سوال کے بعد اس کے پاس ہلنے اور بھونچال بپا کرنے کا کوئی جواز نہ تھا ۔

(جاری ہے)


یہ جو خود کو خادمین اور شریفین کہلواتے ہیں نا! رب کعبہ کی قسم ہے ظلم وانصافی سے ہمکنار عوام قیامت کے روز ان کے گریبان تلاش کریں گے تاکہ ان پر ہاتھ ڈال کر اپنا مقدمہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کر سکیں ۔ اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر وزیر نے کہا تھا ”کوئی شرم ہوتی ہے ،کوئی حیا ہوتی ہے “مگر مجھے گمان گزرتا ہے دیگر کو درس حیا دینے والے یہ مبلغ در حقیقت خود اس متاع سے محروم ہیں ۔

کل جو مظفر گڑھ میں ہوا ہے درحقیقت یہ ہمارے سماج کی وہ تصویر ہے جو پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی پنپنا شروع ہوگئی تھی اور اب اس کے مظاہر جابجا دکھائی دے ہے ہیں ۔ ایک خاتون ۔۔۔۔۔۔یار یہ معاشرہ ایک خاتون کو انصاف نہ دے سکا اور اسے خود سوزی سے ہمکنار ہونا پڑا۔ لعنت ہے ایسے سماج کے ریاستی اداروں کی کارکردگی پراور ان قلمکاروں پر جو آئے روز کسی نہ کسی پولیس آفیسر یا بیورو کریٹ کی مد ح سرائی کر رہے ہوتے ہیں ۔

یہ محض مظفر گڑھ کی سونیا بی بی کی داستان نہیں یہاں ہر شہر اور ہر قصبے میں پولیس گردی کا شکار سونیا بی بیاں موجود ہیں جو گڈ گورنس کے دعویداروں کا منہ چڑا رہی ہیں اور پنے حال پر نوحہ خواں ہیں کہ
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
ریاست کے تمام اداروں کا حال ایک سا ہی ہے مگر محکمہ پولیس کی کارکردگی پر ہمیشہ سے سوالیہ نشان ثبت رہا ہے ۔

یہ محکمہ درحقیقت خود کو ریاست کا ”ماما“تصور کرتا ہے اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے سیاستدانوں کو استحکام فراہم کرنا اس کا اولین فرض ہے ۔ اب زرا مجھے بتائیے جو ایس ایچ او ایم این اے اور ایم پی اے کے جائز اور ناجائز احکامات پر سر تسلیم خم رکھے گا اگر وہ عوام کا استحصال بھی کرے تو اس کا کوئی کیا بگاڑ لے گا ۔ یہی وہ سوچ ہے جو تھانیدار کو فرعون بناتی ہے اوروہ معاشرے کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے ظلم کی داستانیں رقم کرنے میں جت جاتا ہے ۔

سیاستدانوں کی سرپرستی میسر ہونے کے سبب محکمہ پولیس کے اہلکار کسی بھی طرح کی گرفت اور احتساب کی فکر سے بے نیاز ہو گئے ہیں اور وہ عوام کو سہولت فراہم کرنے کی بجائے اذیت دینے میں مشغول ہیں ۔مظفر گڑھ کی بات چھوڑئیے وہ تو جنوبی پنجاب میں واقع ہے ہمارے لاہور میں کیا کچھ نہیں ہو رہا ہے ؟۔ محکمہ پولیس نے لاہور میں اپنی کارکردگی کی جو ”تابناک مثالیں“قائم کی ہیں اس سے یقینی طور خادمین اور شریفین کے سر شرم سے جھک جانے چائیے تھے مگر ایسا نہیں ہوا ۔

اس کی وجہ وہی ہے جو سطور بالا میں عرض کر دی گئی ہے کہ خادمین اور شریفین انہی پولیس اہلکاروں سے غیر قانونی خدمات لے رہے ہیں ۔ سیکیورٹی اور پروٹو کول کے جواز پر بچوں کو سکول چھوڑنا اور واپس لے کر آنا ،جیسی خدمات یہی پولیس اہلکار بجا لاتے ہیں ۔ ضمنی الیکشن ہو یا بلدیاتی انتخابات۔۔۔۔ ووٹروں کو ہراساں کرنا اور حکومتی امیدوار کی حمائت کروانا یہ تمام اہم امور محکمہ پولیس کو ہی انجام دینے پڑتے ہیں۔

اب آپ مجھے بتایئے یہ محکمہ شتر بے مہار نہ ہو تو کیا ہو؟۔ ہر قسم کی باز پرس کے خوف سے بے نیاز یہ ایس ایچ اوز دراصل خود کو بھارتی فلم دبنگ کا ہیرو خیال کرتے ہیں ۔عام شہریوں کا پولیس اسٹیشنوں میں کیا حال ہوتا ہے اس پر ایک کتاب تحریر کی جاسکتی ہے تاہم اس زکر کو چھوڑئیے یہاں تو میرے جیسے شعبہ صحافت سے وابسطہ افراداس ”مقدس“محکمہ سے انصاف حاصل نہیں کر پاتے۔

میں گزشتہ 16سال سے شعبہ صحافت سے وابسطہ ہو ں اور میرا حال یہ ہے کہ ڈیوس روڈ کے چند غنڈوں نے میرا جینا دوبھر کیا ہوا ہے ۔ میں خود ان کی شکائیت لے کر پولیس اسٹیشن سول لائین متعدد بار گیا ہوں مگر ہر بار ایس ایچ او عابد رشید میرے ساتھ اس طرح پیش آتا ہے گویا غنڈے وہ نہیں میں ہوں ۔ میرا حال اس نے اس سکھ سردار جیسا بنا رکھا ہے جو ہر دوسرے دن بھیس بدل کر فریج کو الماری کہتا ہے ۔

جیسے ہی میرے ساتھ کوئی واردات ہوتی ہے میں پولیس اسٹیشن سول لائین جاتا ہوں تو تھانے کے اہلکار مجھے دیکھتے ہی سمجھ جاتے ہیں اور اپنی باڈی لینگوئج سے کہتے ہیں ”فیر آگیا ایں“۔یہ سب اس لئے ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ ان کے صاحب نے سائلین کی داد رسی جیسی کوئی روائیت کبھی اختیار نہیں کی ۔مجھے نہیں معلوم عابد رشید جیسی قماش کا پولیس افسر ایک طویل عرصہ سے تھانہ سول لائین میں کیونکر تعینات ہے جب اس نے اپنے علاقہ میں ہونے والے کسی جرم کی بیخ کنی کرنی ہے اور نہ مجرموں کی گرفت کرنی ہے تو پھر وہ کون سا کار خیر ہے جس کی بدولت اس ”ہونہار“کو اس اہم پولیس اسٹیشن کا ایس ایچ اوتعینات کیا گیا ہے ۔

بخدا کبھی کبھی مجھے خیال گزرتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ریاستی محکموں کے مظالم سے عاجز عوام بپھر جائیں اور پھر شریفین و خادمین رہیں اور نہ ان کے اقتدار کے محافظ یہ پولیس والے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :