فلسطین سے کشمیر تک مغرب کا دہرا معیار

جمعہ 16 اکتوبر 2015

Badshah Khan

بادشاہ خان

اس دور میں بھی ایسے خیالات اور افراد کی بھر مار ہے کہ جو مغرب کے دہراے معیار کو سراہاتے نہیں تھکتے ،ڈاکٹر عافیہ کا کیس ہو یا ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کا مقدمہ دونوں میں ڈبل اسٹنڈرڈ واضح ہوچکا ہے ،کشمیر و افغانستان کا مسئلہ ہو یا شام کی سنگین صورت حال سب کے سامنے ہے مگر سمندرکے سکوت کی طرح خاموشی ہے اور یہ بات طے ہوچکی کہ یہ جنگیں صرف معاشی اور فرقہ وارنہ جنگیں نہیں ہیں بلکہ اس میں مغرب اور اسلام دشمن قوتوں کا کردار موجود ہے،ترقی کے تیز سفر میں جس نے دنیا کو گلوبل ویلج بنادیا ہے رابطے آسان ہوگئے اقوام عالم کے درمیان نئے رابطے بڑھ گئے مگر دنیا آج بھی مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہے بلکہ اپنے مذہبی مفادات کے تحفظ کے لئے مغرب سے مشرق تک ایک ہے،اس کی تازہ مثال فلسطین کی مخدوش صورت حال نے اور واضح کر دی،سیکولر دنیا کا دوہرا معیار واضح ہوتا جارہا ہے ،دنیا آمنے سامنے ہونے کو آچکی ہے چاہے وہ مغربی ممالک ہوں یا مشرقی، ایک جیسے مسئلے پر دو قسم کی رائے اور آوازیں بیک وقت بلند ہورہی ہیں۔

(جاری ہے)

ایک ہی دن میں کئی خبریں سامنے آئی
تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں،تباہ حال غزہ کی صورت حال پر کسی کو فکر نہیں ،فلسطین وغزہ کے مظلوم مسلمان امداد کے منتظر ہیں،اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے ہزاروں فلسطینی مسلمان شہید ہوچکے ہیں جبکہ لاکھوں بے گھر ہیں،غزہ کا پورا علاقہ تباہی کا منظر پیش کررہا ہے اور فلسطینی اپنے بھائیوں کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

،اسرائیلی طیارے اور ہیلی کاپٹرز نہتے فلسطینیوں پر گولیاں اور میزائیل برستے اور کوئی مسلم حکمران اور ادارہ ان کی صیح ترجمانی نہیں کررہا جبکہ دوسری طرف یورپ سے لیکر روس تک سب اپنے مفادات اور اتحادیوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے سرگرم ہیں،مسلمان عوام ان بمباریوں کا نشانہ ہے ،صرف چند روز میں اسرائیل فائرنگ کے واقعات میں فلسطینی بچوں کو مار ڈالا اور کوئی اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں جبکہ ایک حدیث میں مسلمان جسے ایک جسم کے مانند کہا گیااور کفر کو ملت واحد کہاگیا ،آج عالم کفر تو ایک ہوچکا ہے ،چاہے وہ مغرب میں ہو ،یورپ میں ہو یا ایشیاء میں سب ایک ہیں مگر مسلمان ایک جسم کے مانند نہ بن سکے اپنوں کو تباہ ہوتا دیکھ کر بھی ان کو اکھٹے ہونے کی فکرنہیں،ان کے خون میں جوش نہیں آرہا، البتہ چند ممالک صرف بیانات جاری کرنے پر اکتفا کررہے ہیں اور دوسری طرف فرانس سے لیکر برطانیہ،امریکہ تک اپنے ہم مذہب افراد کیلئے عملی اقدامات کررہے ہیں،آخر کیا وجہ ہے۔

کہ مسلمان آج ہر جگہ مار کھارہے ہیں؟
آج کوئی بھی اللہ کیلئے نہیں مرنا چاہتا، ہر کوئی لسانیات ،قوم علاقے کیلئے تو جان دینے کو تیا ر ہیں مگر اللہ کے راہ میں شہادت سے بھاگتا ہے جس کی وجہ سے آج ہر قسم کا کافر ہم پر مسلط ہے۔ مسلم دشمنی نمایاں ہوگئی ہے کہیں روزے اور داڑھی پر پابندی لگا رہا ہے تو کوئی حجاب پر؟کہیں نماز پر پابندی تو کہیں برقعے پر پابندی؟
دنیا کے اختتام سے قبل یہ واقعات ہونے ہیں ، خوش نصیب اور کامیاب وہ ہیں اور ہونگے جو اس جنگ میں کفر سے برسرپیکار رہینگے،دنیا کی تیسری مقدس مسجد اقصئی یہودیوں کے قبضے میں ہے اس کے حساب کو چکتا کرنے کا وقت آگیا ہے،مسجداقصَی اپنی مظلومیت کا حساب مانگ رہی ہے،فلسطین کی مقدس سرزمین لاشوں سے بھر چکی ہے جو امت مسلمہ کی بے حسی کا نتیجہ ہے ،آج ہرطرف سے مسلمانوں پر یلغار ہے اور مسلمان مغرب کی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں اور بے بسی سے تماشہ دیکھ رہے ہیں،جبکہ یہودیوں جنگ لڑنا اٹل ہے مگر تیاری نہیں ہے دوسری طرف طبل بج چکا ہے ، ہم اب بھی فرات کے کنارے اس مناظرے میں مصروف ہیں کہ کوا حلال ہے یا حرام ؟ اس وقت سوال امت مسلمہ کے بقا و تحفظ کا سوال ہے وہ بیت المقدس جسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبوں سے آزاد کرایا تھا آج صہونیت کے پنجے میں ہے ، اگر ان کا بس چلے تو اس کو شہیدکرنے میں دیر نہ لگائیں اور اگر ہماری یہی حالت رہی تو اسرائیل اسے گرانے میں دیر نہیں کرے گا کیونکہ ان کا مذہبی عقیدہ ہے کہ اس جگہ ہیکل سیلمانی تعمیر کرنا لازمی ہے اس کے بعدہی دنیا میں یہودیوں کو طاقت اور عزت ملے گی گریٹر اسرائیل یا آزاد فلسطین فیصلہ ہم نے کرنا ہے،قومیں فیصلہ کرنے میں دیر نہی کرتی کیونکہ تاخیر کبھی قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہے اور جنگ میں تو بر وقت فیصلے کرنے پڑتے ہیں مغرب نے ہر اس جگہ کیلئے تیاری اور حملے شروع کردیئے ہیں جہاں ان کے ہم مذہب افراد کو تکلیف ہے اب وقت آچکا ہے کہ مسلمان جسم واحد بن کر سامنے آئیں اور اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑے،اس وقت فلسطین کے مسلمانوں کو ہر قسم کے امداد کی ضرورت ہے صرف پیسوں کی نہیں؟ ان کو اسرائیلی جارحیت روکنے کیلئے اسلحے کی اشد ضرورت ہے اگر خود نہیں لڑ سکتے تو مسلم حکمران اتنا تو کریں اپنے ڈپو کھولیں ورنہ یہ پڑے پڑے زنگ ہو جائے گا،ایسا لگتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب پتھر بھی کہے گا کہ میرے پیچھے یہودی ہے اسے قتل کرو ۔

بقا کی جنگ ہے دیر بڑے نقصان سے دوچار کرسکتی ہے آگے بڑھو اور الکفر ملت واحد کو منہ توڑ جواب دو اور ثابت کرو کہ ہم جسم واحد کی طرح ہیں ہمارے جس حصے میں بھی تکلیف ہوگی پورے جسم کو ہوگی پھر دیکھو یہ کفر کے بادل کیسے غائب ہوتے ہیں ۔اوبامہ، ڈیوڈ کیمرون اور اولاندے کو اگر اسرئیل کے دفاع کی فکر ہے ،جب ایران اور روس کھل کر شامی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں جب ان کو بین الاقومی قوانین کا پاس نہیں تومسلم ممالک کو حماس اور فلسطین کی مدد کا پورا حق حاصل ہے،اپنے دفاع کے لئے کھل کرسامنے آنا ہوگاجب ان کے ہاں اس مسئلے پر دوہرا معیار نہیں تو پھر ہم کیوں شرمندہ اور چپ ہیں ،سوال یہ ہے کہ کیا ان حکمرانوں میں کوئی صلاح الدین ایوبی نہیں؟ تو کیا ہوا ہر ملک ہر مذہب اور بین الاقومی قوانین اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ ہر شخص ہر ملک کو اپنے دفاع کا بنیادی حق حاصل ہے اور اس سے کوئی نہیں روک سکتا ،کشمیر کا جہاد ہو یا فلسطین کا ہر جگہ امت مسلمہ اپنی سرزمین اور عوام کا دفاع کررہے ہیں ،اب تو یہ لکھتے بھی تھک گیا ہوں کہ اقوام متحدہ سے امید مت رکھو،دنیا کو نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے اور مسلم حکمران اس میں بنیادی رول ادا کرسکتے ہیں ورنہ مغرب کا دہرا معیار اسلامی ممالک کو مزید ٹکڑے کرنے میں جت گیا ہے اتحاد اور مقابلہ ہی مسائل سے نجات کا واحد راستہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :