اچھی حکومت اور تبدیلی کیسے؟

جمعہ 16 اکتوبر 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

لاہور کے حلقہ این ائے 122 میں ہوئے الیکشن پر ملکی میڈیا میں تبصرئے تجزیئے اور گفتگو جاری ہے ہار جیت کے کھیل کی گھناونی کہانیاں بیان کی جا رہی ہیں ایک ریڑھی بان، نان بائی ،نائی یامزدور جن کو اپنی دیہاڑی کی فکر ہونی چاہیے وہ بھی ”شیر اور بلے“ کی رومانویت میں ڈوبے اپنے غم اور فکر غلط کر کے کہانیاں بیان کرتے پائے جا رہے ہیں۔

یہ الیکشن اپنی نوعیت کا پاکستانی تاریخ کا واحد الیکشن تھا جس میں ووٹروں سے زیادہ بینر اور ہورڈنگ نظر آئے پیسہ” دودھ“ کی طرح بہایا گیا ،یہ بات بے شک مبالغہ آرائی پر مبنی کہی جاسکتی ہے کہ اس الیکشن میں اربوں روپے خرچ کئے گئے مگر اس مبالغہ آرائی کو غلط بھی تو نہیں کہا جارہا ۔
کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ تبدیلی کے دعوئے داروں سے اس بے جا اسراف کی امید نہیں تھی اس الیکش کے بعد ایک اور بات سامنے آرہی ہے کہ شرافت اخلاقیات اور وضع داری کی سیاست شائد اب کافی عرصہ تک اس ملک میں دیکھنے کونہ ملے کیونکہ جس چلن کی آبیاری کی جارہی ہے اس کی کوکھ سے پھل پھول نہیں ببول کے درخت پیدا ہوں گے ۔

(جاری ہے)

ن لیگ ہو یا پی ٹی آئی دنون جماعتوں کے جلسوں میں ان کے منشور پر بات سننے کے لئے کان ترس گئے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے اور الزامات لگانے میں ساری توانائیاں خرچ کی گئیں۔ پھر بھی اس ملک کا ووٹر ان لوگوں کو ووٹ ڈالتا ہے ”آفرین“ ہے اس پر اور تبدیلی کی توقع بھی کرتا ہے نئے پاکستان اور بہتر چینج کی خواہش بھی رکھتا ہے احمقوں کی جنت شائد اسی کو کہتے ہیں۔


جس ملک کے شہری ٹریفک کی پابندی نہ کرتے ہوں اور سڑکیں جنگل کا سامان بنی نظر آتی ہوں، جہاں قانون کا احترام درسی کتابوں تک محدود ہو، جہاں صفائی نصف ایمان کے وعظ سنائی دیتے ہوں مگر اپنے ہی گھر کا کوڑا گلی میں پھینک کر” عمل“ کیا جاتا ہو ،جہاں لائین میں لگنا توہین سمجھا جاتا ہو ،جہاں سڑکوں اور پلوں کا جال بچھانے کے لئے درختوں کو بے دریغ کاٹ دیا جاتا ہو جس کی بنا پر گرمی کے دورانیے اور سنٹی گریڈ میں اضافہ ہو جاتا ہو ،جہاں کی زرعی معشیت کو ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہو مگر زرعی زمینوں پر ہاوزنگ کالونیوں کی بھر مار ہو وہاں اس طرح کے مہنگے الیکشن کیا تبدیلی لا سکتے ہیں؟
جس قوم کو اس بات کا بھی احساس ہو نہ ہوکہ خوراک اور پانی کے بغیر انسانی زندگی جینے کا تصور ہی محال ہے اور اس کی حفاظت اور اضافے کے لئے کوششیں تو درکنار جو موجود ہے اس کو کیسے محفوظ رکھا جاسکتا ہے پر سرئے سے ہی توجہ ہی نہ ہو ایسی قوم اور حکومت کو کیا نام دیا جاسکتا ہے ۔

جس جمہوریت کے لئے یہ لوگ ہلکان ہوئے جارہے ہیں کیا یہ جمہوریت ہے جس میں عام غریب اور سفید پوش حصہ ہی نہ لے سکے۔
کس کس مشکل کی بات کریں؟ پانی کی کمی سے لے کر گلیشیر پگھلنے تک، سمندروں اور موسم کے اتار چڑھاو سے لے کر سیاسی خلفشار تک باتیں ہورہی ہیں لیکن زراعت پر بات نہیں کی جاتی۔
پاکستاں میں شہر بڑھتے جارہے ہیں ِ ہاوسنگ کالونیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہیے جبکہ پانی اور زرعی زمین کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔

پاکستان کا کل رقبہ79.6ملین ایکڑ ہے،جس میں سے 23.7ملین ایکڑ ،زراعی رقبہ ہے جو کل رقبے کا 28فیصد بنتا ہے۔اس میں سے بھی8ملین ایکڑ رقبہ زیرِ کاشت نہ ہونے کے باعث بے کار پڑا ہے،حالانکہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس کا ماحول اورموسم بھی زراعت کے لئے بہترین زونز کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس طرح پاکستان میں ہمہ قسم کی غذائی اشیاء کی پیداواری صلاحیت موجود ہے۔

اس کی 75فیصد سے زائد آبادی زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے۔ملک کی مجموعی قومی پیداوارمیں زراعت کا حصہ 21فیصد ہے۔یہ شعبہ ملک کے 45فیصد لوگوں کے روزگارکا ذریعہ ہے۔زراعت کا شعبہ لوگوں کو خوراک اورصنعتوں کو خام مال کی فراہمی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستانی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ کا 45فیصد زرعی تجارت سے حاصل ہوتا ہے۔
اتنے اہم شعبے کا نظر انداز کئے جانا اور ہاوسنگ کالونیوں کی نظر کر دینا اس ملک کی آنے والی نسلوں کے ساتھ ظلم ہو گا۔

دنیا بے شمار تجربات کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پانی اور زراعت جس ملک کے پاس وافر ہے وہ دنیا کا مالا مال ملک ہے خوش قسمتی سے پاکستان کے پاس یہ دونوں چیزیں وافر ہیں لیکن ان کی حفاظت اضافے اور بہتر نتائج حاصل کرنے والے ”عالی دماغوں“ کی کمی نے ہمیں مستقبل میں بھوک اور پیاس کے خدشات سے دوچار کر دیا ہے۔ ملکی نظام بہتر کئے بغیر اچھی حکومت کا تصور اور عوام کی فلاح کا خواب کبھی شرمندہ تعبیرنہیں ہو سکے گا۔

کوئی بھی تبدیلی ملکی نظام کو بہتر کئے بنا نہیں آسکتی ۔پنجاب جس کی آبادی دس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے کے عوام تک بہت بہتر حکومتی نظام کے زریعے پہنچا جا سکتا ہے کوئی بھی فرد واحد وہ کتنا ہی محنتی ایماندار یا جوشیلا ہو ہر بندے کے مسلے اس کے گھر جا کر حل نہیں کر سکتا ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اچھی حکومت کے لئے اداروں کی کارکردگی کوبہتر بنایا جائے ہر سرکاری اہلکار کوعوام کا خادم بنایا جائے۔


سسننے میں آیا ہے کہ آج کل یونیورسٹی ٹیچرز کو بھرتی کرتے وقت اس کی تشخیص کی جاتی ہے۔ بچوں کو ایک فارم دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کو پر کریں۔ ٹیچر کے کورس پڑھانے، اس کے اسٹائل اور اس کی ذمہ داری سے متعلق رائے لی جاتی ہے اور ہر بچہ ٹیچر کو نمبر دیتا ہے۔ اگر ایک ٹیچر کی تشخیص ہو سکتی ہے، جو سب سے مقدس شعبہ ہے، تو ڈاکٹر کی سائنسدان کسی سرکاری افسر یا مسجد کے امام کی کیوں نہیں ہو سکتی؟ جواب دہی کاتصور ہی کسی ملک کے نظام حکومت کوبہتر چلانے میں ممدو و معاون ہو سکتا ہے تمام محکموں کے اعلی افسران سے پوچھا جانا چاہیے کہ تمہاری جو ذمہ داری تھی اس کو نبھانے کے لئے اس نے کیا کار کردگی دکھائی اب تو ہر بندے پر نظر رکھنے کے لئے کئی زرائع دستیاب ہیں ان سے مستفید ہوا جاسکتا ہے ،سی سی ٹی وی کیمرے بندے کی تمام حرکات و سکنات سے احکام بالا کو چوبیس گھنٹے آگاہ رکھ سکتے ہیں جن پر خرچہ بھی بہت کم آتا ہے ۔

اسی طرح ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی سی سی ٹی وی کیمروں سے پوری دنیا استفادہ کر رہی ہے ہم کیوں نہیں کر سکتے ہم نے جو اتنی بڑی فورسز پا ل رکھی ہیں اور نتیجہ صفر کیا ہم جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے؟۔
وزیر اعلی پنجاب نے افسران اور سرکاری اہلکاروں کو ہر طرح کی مراعات دے کر دیکھ لیں مگر نتائج حاصل نہیں ہوئے انہیں چاہیے کہ جدید ٹیکنالوجی سے کام لیں اور سو فصد نتائج کم خرچے میں حاصل کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :