این اے122 کی ”خاموش اکثریت“

بدھ 14 اکتوبر 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

ویل ڈن میاں نواز شریف… شاباش علیم خا ن…حکومتی ذمہ داری اور الیکشن کمیشن پر بھاری ا”ضمنی الیکشن این اے 122“ بخریت انجام کو پہنچا…بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا،جو چیرا تو اک قطرہ خون نکلا…خیر علیم خان کیلئے یہ کہنا انتہائی ضروری ہے کہ ” مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا“این اے122 میں کل ووٹر کی تعداد تین لاکھ سولہ ہزار دو سو ننانوے تھی جس میں سے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق کامیاب امیدوار سردار ایاز صادق نے77ہزار736ووٹ حاصل کئے جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والے سابق منسٹر آئی ٹی پنجاب علیم خاں نے73ہزار463 ووٹ حاصل کئے یعنی حکمرانی کرنے اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والے دونوں لیڈرز نے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق کل ایک لاکھ51ہزار ایک سو نو ووٹ حاصل کئے تاہم جوایک لاکھ 65ہزارایک سو اسی ووٹ ہیں وہ کہاں ہیں؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟ ہ کس کے ساتھ ہیں؟اُن کیلئے تبدیلی کی کیا تعریف ہے؟ وہ حکمرانوں سے کیا چاہتے ہیں؟جب تک ان سوالوں کا جواب نہیں مل جاتا پاکستان میں جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکتی بلکہ ”خاموش“ ووٹرز میرے خیال میں جمہوریت کی بات کرنے والوں سے کافی ناراض ہے اس خاموش ووٹر کو منانے اور پولنگ اسٹیشن تک لانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ وہ ”خاموش اکثریت “ہے اور خاموش لوگ بلا کے خطیب ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

اخباری اطلاعات کے مطابق الیکشن کمشن کی طرف سے ووٹر لسٹوں میں بے شمار غلطیوں کی وجہ سے سمن آباد اور دیگر علاقوں کے سینکڑوں ووٹر ووٹ کاسٹ کرنے سے محروم رہ گئے جبکہ سمن آباد کے سینکڑوں ووٹروں کے پولنگ سٹیشن حلقہ کے دور دراز علاقوں میں بنانے سے بھی ووٹر خوار ہو گئے۔ الیکشن کمشن کی طرف سے ایک طرف تو این اے 122 کے ضمنی انتخاب کو شفاف بنانے کیلئے سخت انتظامات کرنے کا دعویٰ کیاگیا تھا‘ لیکن اس کے ساتھ این اے 122 کے سینکڑوں ووٹروں کا پولنگ سٹیشن دور دراز علاقوں میں بنا دیا گیا۔

الیکشن کمشن پر موبائل فون ایس ایم ایس سروس 8300 پر شناختی کارڈ اندراج کرنے پر ووٹر کے پولنگ سٹیشن کے حوالے سے نامکمل تفصیلات کی وجہ سے ووٹر خوار ہوکر رہ گئے۔ ایک پولنگ سٹیشن سے دوسرے پولنگ سٹیشن پر جا کر اپنا ووٹ تلاش کرتے رہے۔میرا سوال یہ ہے کہ یہ غلطی نہیں ہے ”نااہلی“ ہے اور نااہل کی سزا یہی ہوتی ہے کہ اُس کو اس پوزیشن سے ہٹا کر ”آرام “ کا موقع دینے چائیے۔

یہ کوئی عام بات نہیں ہے جمہوریت پسندوں کو ان کے حق سے محروم کیا گیا ہے…انہوں نے وقت نکالا… گھروں سے باہر آئے…جمہوری اقدار کی پاسداری کی…پھر پاکستانی ہونے، اس ملک کا شہری ہونے کے باوجود ان کا نام و نشان نہیں ووٹر لسٹ میں… الیکشن کمیشن اور متعلقہ اداروں کی اس سنگین غلطی کا احسا س نہ کرایا گیا تو یہ جمہوریت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔

این اے 122 پر مزید بات کرنے سے پہلے پی پی 147 لاہور اور این اے 144 اوکاڑہ کی بات کرتے۔حکمران جماعت کو ان دونوں حلقوں سے انتہائی کم ووٹ پڑے،سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہان دونوں حلقوں میں ن لیگ نے پارٹی کے خالص وورکرز کو نظر انداز کر کے ”امیدوار“ کا چناوٴ کیا جس میں پی پی 147لاہور کے امیدوار محسن لطیف شریف فیملی کے قریبی رکن کے طور پر جانے جاتے ہیں تاہم پولنگ ڈے سے ایک ہفتہ پہلے ہی میاں محمد شہباز شریف کو اس حلقے میں ووٹرز کا رویہ نظر آگیا تھا جب میاں شہباز شریف نے محسن لطیف سے کہاکہ صرف”کھابے“ ہی کھاتے رہے ہیں۔

اوکاڑہ میں آزاد امیدوار مسٹر’ جج “ کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ اندر سے ”ن لیگ“ ہے لیکن ن لیگ کے زیادہ سیانے افراد نے ان کو ٹکٹ کے لئے ان فٹ قرار دیا تھا لیکن سربراہ پاکستان مسلم لیگ ن میاں محمد نواز شریف نے الیکشن کی ٹکٹ کا قرعہ ان ہی کے نام نکالا تھا۔ الیکشن کے حوالے سے ایک جگہ ن لیگ نے تگڑا مقابلہ کیا تو دوسری طرف عوام نے ”آزاد“ امیدوار کو اپنا ”لیڈر“ بنا کر یہ بتایا دیا ہے کہ ” ہمارا حق“ نہ دینے والوں کے ساتھ ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پی پی 147 لاہور کے سابقہ ایم پی اے محسن لطیف نے کامیابی کے بعد کبھی ”حلقے“ کا دورہ نہیں کیا اور نہ ہی پنجاب اسمبلی میں ان کی حاضری کی کوئی بہتر صورتحال رہی یعنی عوام اور جماعت دونوں کیلئے کوئی وقت نہیں نکال سکے۔پولنگ ڈے یعنی گیارہ اکتو برکو راقم کو پورے حلقے کے پولنگ اسٹیشنز کے وذٹ کا موقع ملا جس میں نوجوان ووٹرز سے بات چیت کا موقع ملا۔

انتہائی افسوس کی بات ہے کہ نوجوان ووٹرز کو ووٹ کاسٹ کرنے کے طریقہ کار سے آگاہ نہیں کیا گیا یہ تو ان کے کانوں میں بھر دیا گیا کہ”ہم ہی اچھے“ ہیں اور ووٹ ہمارا ہی حق بنتا ہے لیکن ووٹ اس قومی فریضہ کی ادائیگی کن مراحل سے گزر کر ہوگی کسی کے پاس بتانے کا ٹائم نہیں۔ووٹر لسٹ کے مطابق 19 سے 21 سال کی عمرکے44 ہزار سے زائد ووٹ تھے جو کنفوژ تھے کہ ووٹ کیسے کاسٹ کرنا ہے جبکہ معزز خواتین کو ووٹ کیلئے گھر سے باہر نہیں نکالا جا سکا۔

جہاں تک این اے 122 کی بات ہے سابق سیپکر قومی اسمبلی کو اپنی سیٹ پر دوبارہ بحالی کیلئے مبارکباد پیش کرتے ہیں تاہم ان کی کامیابی کا تناسب حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے اس پر بلند و بانگ د عوے کرنے اور زمین آسمان ایک کرنے کی ضرورت نہیں اپنی کارکردگی اورووٹر سے تعلق جوڑنے کی مزید ضرورت ہے۔اب آتے ہیں ان اے 122 کی طرف میں نے ”علیم خان کو شاباش“ اس لئے دی ہے کہ وہ اپنے محلے کے اپنے لوگوں سے جیتا ہے…ایاز صادق کو گڑھی شاہو یعنی آبائی علاقے کے پولنگ سٹیشن سے 98 ووٹوں سے شکست دی ہے۔

عبدالعلیم خان 391 ووٹ لیکر کامیاب ہو گئے جبکہ ایاز صادق 327 ووٹ لے سکے… ورنہ رزلٹ کارڈ کی زبان تو اور ہے ،عمران خان کے آبائی علاقے زمان پارک سے علیم خان کو شکست ہوئی۔ زمان پارک کے پولنگ سٹیشن سے سردار ایاز صادق نے 239 اور عبدالعلیم خان نے 207 ووٹ حاصل کئے۔ یہاں عمران خان کو شکست ہوئی ہے… پولنگ سٹیشن نمبر 100 میں خواتین نے عبدالعلیم خان پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا عمران خان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے…مردانہ پولنگ سٹیشن پر سردار ایاز صادق کو 157 اور عبدالعلیم خان کو 127 ووٹ ملے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :