بھارت نے اپنے سیکولر چہرے پر سیاہی مل دی

بدھ 14 اکتوبر 2015

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری صاحب نے پاکستان بھارت تعلقات پر ایک کتاب (neither a hawk nor dove) تصنیف کی ہے۔اس کتاب میں پاکستان اور بھارت کے جنم جنم سے جاری مذاکرات پر روشنی ڈالی ہے اس کتاب میں امن دوستی کی باتیں کیں ہیں۔ اسی کتاب کی بھارت میں رونمائی کے لیے بھارت سے ایک تنظیم نے ان کو دعوت دی تھی جس کے لیے خورشید قصوری بھارت تشریف لے گئے ہیں۔

کتاب کی رونمائی کے منتظم سدھیندر کلکرنی صاحب جب ایک پریس کانفرنس میں اس پروگرام کا اعلان کرنے کی غرض سے پہنچے ہی تھے کہ ان کے منہ پر شیو سینا کے انتہا پسند کارکنوں نے سیاہی مل دی ۔اسی سیاہ چہرے کا ساتھ سدھیندر کلکرنی نے پریس کانفرنس کی اور اس بات پر ڈٹ گئے کہ کچھ بھی ہو جائے اس کتاب کی رونمائی ضرور ہو گی۔

(جاری ہے)

ان کے ساتھ پریس کانفرنس سے خورشید ْقصوری نے کہا کہ میں نے سیاست تکلیفں ن برداشت کیں ہیں جیل گیا اور آنسو گیس کو بھی برداشت کیا میں ایسی چیزوں سے ڈرنے والا نہیں ہوں میں ان انتہا پسندوں کا مقابلہ کروں گا اور ممبئی سے نہیں بھاگوں گا۔

سیکولر بھارت میں یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے چند دن قبل پاکستان کے مشہور غزل کے گلو کار غلام علی صاحب کو بھی بھارت سے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی دعوت ملی تھی مگر شیو سینا کے انتہا پسندوں ہنگامہ کھڑا کر دیا اور کہا کہ ان کا پروگرام نہیں ہونے دیں گے۔ جبکہ بھارت سے فنکار پاکستان آتے ہیں تو پاکستانی عوام ان کو سر آنکھوں پر بیٹھاتی ہے اور وہ میڈیا میں پاکستانیوں کی مہمان نوازی اور کھانوں کی تعریفیں بھی کرتے ہیں۔

دہلی کے قریب ایک گاؤں میں گائے کا گوشت فریج میں رکھنے کے شک میں ایک مسلمان کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا جبکہ بعد میں رپورٹ آئی کہ گوشت بکرے کا تھا گائے کا نہیں تھا۔کھیل میں اگر پاکستانی ٹیم جیت جاتی ہے اور مسلمان اس پر خوشی مناتے ہیں تو ان پر ظلم و تشد کیا جاتا ہے۔یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے مسلمان طالبعلموں کو اس پاداش میں خارج کر دیا جاتا ہے۔

مودی سرکار کے دور میں تو اس ظلم کی انتہا ہو گئی ہے۔ آئے روز کنٹرول لین اور ورکنگ باؤنڈری پر بلا اشتعال فائرنگ کے بے گناہ سرحدی لوگوں کو شہید کیا جاتا ہے کبھی سری نگر جانے والے ٹرکوں کو خوامخواہ روک لیا جاتا ہے ۔ اب دو دن سے سمجھوتا ایکپریس کو روک کر لوگوں کو پریشان کیا ہوا ہے۔ ویسے تو بھارت کے حکمرانوں نے پاکستان بننے پر ہی تعصب برتنے پر اپنی عوام کی پشت پنائی کی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ پاکستان دیر تک چل نہیں سکے گا ان ہی خیالات کا اظہار برطانیہ کے وزیر اعظم اٹلی بھی کیا کرتے تھے۔

مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور ہے مثل مدینہ پاکستان قائد اعظم  کی قیادت میں جمہوری طریقے سے بن گیا اور ان شاء اللہ قائم و دائم بھی رہے گا چاہے دشمنوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ بھارت اپنی چانکیا کوٹلیا سیاست،یعنی بغل میں چھری اور منہ پر رام رام پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کے دو ٹکرے کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے اور اب کراچی، فاٹا اور بلوچستان میں یہی مکروہ چال چل رہا ہے۔

ہمارے وزیر اعظم صاحب نے حال ہی میں اس کے ثبوت اقوام متحدہ اور دوست ممالک کو پیش کئے اور امریکا کے دورے کے دوران بھی یہی ثبوت پیش کئے جائیں گے۔ جب سے بھارت میں دہشت گرد مودی کو انتہا پسند ہندوو تنظیم آر ایس ایس نے وزیر اعظم بنوایاہے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھ گئی ہے۔ مودی کے وزیر اور کابینہ آر ایس ایس کے سامنے اپنی کارکرردگی رپورٹ پیش کرتے ہیں۔

مودی نے ایک صوبائی ریاست کے سربراہ کے طور پر مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا اور اسی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ بھارت کا وزیر اعظم بھی بن گیا تو اس سے کیاتوقعات کی جا سکتی ہیں؟ اس نے بنگلہ دیش میں ایک ایوارڈ کی تقریب میں بڑے غرور سے برملا اعلان کیا تھا کہ بنگلہ دیش بھارت نے پاکستان کو توڑ کر بنایا ہے۔پاکستان کو چاہیے کہ اس اقبالی جرم پر عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کرے۔

پورے بھارت میں انتہا پسند ہندووں نے مساجد کے خلاف مہم چلائی ہوئی ہے اس مہم کے تحت بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا۔اب بھارت میں جس مسجد کو چاہیں وہ شہید کر دیتے ہیں۔مسلمانوں کو آئین میں مقرر کردہ کوٹے کے مطابق سرکاری نوکریاں نہیں دی جاتیں وہ مجبوراً دوکانداری شروع کرتے ہیں جب دکانیں کچھ چلنے لگتیں ہیں تو بلوے کرا کے مسلمانوں کی دوکانوں کو آگ لگا دی جاتی ہے ۔

غریب مسلمانوں کو گھر واپسی اسکیم کے تحت زبردستی ہندو بنایا جارہا ہے۔غرض بھارت کے مسلمانوں کو ہر طرح سے تنگ کیا جاتا ہے ان پر ظلم کیا جاتا ہے مودی سرکار اس ظلم میں برابر کی شریک ہے۔ ۹/۱۱ کے بعد مسلمانوں کے خلاف امریکا نے یہودی سازش کے تحت جنگ چھیڑی تھی۔امریکا نے القاعدہ اور طالبان کے بہانے مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے بین الاقوامی یہودی کنٹرولڈ میڈیا کو استعمال کیا۔

وہ طالبان جو روس کے خلاف لر رہے تھے تو امریکا کے نزدیک مجاہد تھے جب اپنے ملک کو امریکا کی غلامی سے چھڑانے کے لیے لڑ رہے ہیں تو دہشت گرد بنا دیے گئے ہیں۔اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے بھی کشمیر کے مجاہد ،جو اپنے وطن کو بھارت سے آزاد کرنے کی جنگ کر رہے ہیں ان کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ آئے دن کشمیریوں کو قتل کر رہا ہے آج بھی نوجوانوں کے قتل پر حریت کانفرنس کے سربراہ علی گیلانی صاحب کی اپیل پر پورے کشمیر میں ہڑتال ہے۔

کشمیر میں اجتمائی قبریں دریافت ہو رہی ہیں۔ پاکستان جس نے دہشت گردی میں سب سے زیادہ نقصان اُٹھایا ہے بھارت اس پر دہشت گردی کے الزامات لگاتا ہے اور پاکستان کے اندر برما جیسی کاروائی کی دھمکیاں دے رہا ہے۔بھارت نے حال ہی میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو صرف اس لیے ختم کر دیا کہ پاکستان کا وفد دہلی میں ہمیشہ کی طرح کشمیریوں سے ملاقات کا کہہ رہا تھا مگر مودی سرکار نے ایسا نہیں ہونے دیا اور کہا کہ صرف دہشت گردی پر مذاکرات ہونگے۔

پاکستان نے ہمیشہ سے بھارت کے جارحانہ رویہ کے خلاف معذرتانہ پالیسی اختیار کی ہوئی ہے کشمیر کو چھوڑ کر آلو پیاز کی تجارت کی باتیں کیں۔ جب سے راحیل شریف صاحب نے کہا کہ پہلے کشمیر بعد میں کوئی بات،اسی کا اظہار اپنے بین الاقوامی دورے کے دوران بھی کیا اور یہی پالیسی صحیح ہے۔بھارت نے جنگی جنون پیدا کر دیا ہے۔اس لیے ہی وہ ہر محاز پر پاکستان کی مخالفت کی پالیسی پر عمل کر کے اپنی عوام کو تیار کر رہا ہے ۔

یاد رکھیں بھارت نے پاکستان کو توڑنا ہی ہے اور اکٹھنڈ بھارت کا خواب پورا کرنا ہے۔ یہ بلی اور کبوتر والا معاملہ ہے کہ بلی کی سررشت میں شامل ہے کہ اس نے کبوتر کو ہر حالت میں ہڑپ کرنا ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اُسے بھارت پر واضح کر دینا چاہیے کہ وہ اس کھیل کو ختم کر کے اچھے ہمسایوں کی طرح رہے ورنہ اگر وہ اس سے باز نہیں آتا تواے پاکستان کے مسلمانوں جنگ سے نفرت ضرور کرو کہ یہی اللہ کا حکم ہے مگر اس کی تیاری پوری رکھو اور بھارت نے اگر جنگ چھیڑ دی تو ایک مومن کی طرح دشمن کو بھاگنے پر مجبور کردو۔

بھارت نے مسلمانوں سے اپنی دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک پر امن شہری کے منہ پر سیاہی نہیں ملی بلکہ بھارت نے اپنے سیکولر چہرے پر سیاہی مل دی ہے۔ اس کا حساب ایک نہ ایک دن جمہوری اور پر امن دنیا کو دینا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :