قسطنطنیہ کی فتح اور یورپ !

ہفتہ 10 اکتوبر 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

1453میں ترکوں نے قسطنطنیہ فتح کیا تو یورپ کی نشاة ثانیہ کا آ غا ہوا ۔ انسانی تاریخ بڑی دلچسپ ہے ، ایک واقعہ کسی قوم کے لیئے عروج کا باعث بنتا ہے تو وہی واقعہ دوسری قوم کے زوال کا سندیسہ لے کر آتا ہے ۔ جب یورپ نے امریکہ دریافت کیا اور وہاں زراعت کا آغا زہوا تو روئی کے بھرے ہوئے جہاز یورپ آنے لگے ، اب یورپ میں کپڑے کی فیکٹریاں قائم ہونے لگیں ، وہ قوم جو صرف اونی لباس پہننے پر مجبور تھی اب ان کی اپنی فیکٹریوں میں وافر مقدار میں سوتی کپڑا تیار ہونے لگا تھا ۔

عین اس وقت جب یورپ صنعتی میدان میں آگے بڑھ رہا تھا ہندوستانی کپڑے کی مارکیٹ ختم ہو رہی تھی کیونکہ انگریز ہندوستانی کپڑے کا سب سے بڑ خریدار تھا لیکن جب یورپ میں یہ کپڑا مقامی سطح پر بننے لگاتو ہندوستانی صنعت تباہ ہو کر رہ گئی۔

(جاری ہے)

بالکل اسی طرح جب 1453میں ترکوں نے قسطنطنیہ فتح کیا تو بظاہر یہ انگریزوں کی شکست تھی لیکن یہاں سے ایک نئے یورپ کا آغاز ہو رہا تھا ۔

نشا ة ثانیہ ، ایک نئی زندگی ۔ ہوا یوں کہ جب قسطنطنیہ مسلمانوں کے قبضے میں آیا تو یہاں رہنے والے یونانی عالم اپنی قدیم کتابیں اٹھا کر یورپ بھاگ گئے ۔ انہوں نے وہ یونانی علوم یورپ کو پڑھائے ،ا س سے پہلے یورپی معاشرہ مذہبی رسومات اور توہمات میں جھکڑا ہوا تھا جب انہیں نئے علوم اور نیا فلسفہ ملا تو انہوں نے اپنی سوچ اور فکر کے زایوں کو بدل لیا ،اب نئی شاہراہوں پر سوچ اور فکر کا سفر شروع ہو ا ۔

قرون وسطیٰ کا یورپی معاشرہ یونانی، رومی اور اسلامی علوم سے بالکل ناآشنا تھا لیکن اب انہیں ان تینوں تہذیبوں کا علم اور فلسفہ ملنا شروع ہوا ، ایک طرف یونانی عالموں اور دوسری طرف عربی ترجمے کے ذریعے یہ علوم اہل یورپ تک پہنچے تو انہوں نے دوبارہ اپنی گمشدہ تہذیب دریافت کی ۔ یونانی عالم اپنے قدیم مسودات کے ساتھ پورے یورپ میں پھیل چکے تھے اب یورپ میں نشاة ثانیہ کا آغاز ہو رہا تھا ۔

ایک نیا جنم ، ایک نئی زندگی ۔ یہ اس لئے کہا گیا کیونکہ یونانی اور رومی تہذیب کے بعد یورپ کا ذہن مر گیا تھا لیکن اب اہل یورپ کو علوم وفنون کی ایک نئی ہوا لگی تھی اور انہوں نے نئی شاہراہوں پر زندگی کا سفر شروع کیا تھا جس سے یورپ کا مردہ ذہن دوبارہ سے زندہ ہو گیا تھا ۔
یورپ کے عروج میں ایک اہم کردار پریس اور چھاپا خانے کا بھی تھا۔ یونانی عالم جو مسودات اپنے ساتھ یورپ لے کر آئے تھے اب ان کی جانچ پڑتا ل اور تہذیب ہونے لگی، ان کی تنقیح کا کام ہوا ، تحقیق و جستجو کا ایک نیا دروازہ کھلا ۔

ایک طرف قدیم علوم و فنون کو نکھارا جا رہا تھا دوسری طرف جرمنی کے ایک سائنسدان کٹن برگ نے 1452میں چھاپہ خانہ ایجاد کرکے ایک نیا انقلاب برپا کر دیا تھا ۔ پہلے علم کے پاس چل کر جانا پڑتا تھا اب علم آپ کے گھر کی دہلیز پر دستیاب تھا ۔ نئی نئی کتابیں شائع ہونے لگیں ، تعلیمی ادارے وجود میں آئے، یونیورسٹیاں قائم ہوئیں ، پبلک لائبریریز کا رواج ہو ا۔

اب سائنسدان جو نئی تحقیق کرتے تھے وہ کاغذو ں میں بند ہو کر نہیں رہتی تھی بلکہ اسے شائع کر کے سب کے سامنے پیش کر دیا جاتا تھا ۔ اس پر نقد ہوتا ، اس سے ایک طرف معاشرے میں وسعت ظرفی اور تحمل وبرداشت پید اہوا تو دوسری طرف سائنسدانوں اور دانشوروں میں مکالمے کی فضاپروان چڑھی۔ نئی نئی ایجادات سامنے آئیں ، نیا لٹریچر شائع ہونے لگا ، نئے لکھاری سامنے آئے ۔

لٹریچر چھپ کر مارکیٹ میں آیا تو اس کو پڑھنے والے بھی پید اہوئے ، عوام میں مطالعے کا رجحان پیدا ہوا جس سے شعور و آگہی میں پختگی آئی ، عوام اور سماج کا شعور بلند ہونے لگا ۔ تنگ نظری اور کم ظرفی کی جگہ تحمل اور برداشت نے لے لی ۔ معاشرہ خوشحال ہوا تو معیشت نے بھی ترقی کی ۔ چرچ اور کلیسا نے معاشرے کو جن مذہبی پابندیوں میں جھکڑا ہوا تھا اس کی زنجیریں بھی ٹوٹنے لگیں ۔

پہلے بائبل پڑھنے اور سمجھنے کا حق صرف کلیسا کو تھا اب وسیع تعداد میں کتابیں چھپی تو یہ حق سب کو حاصل ہو گیا۔ قدیم یونانی اور رومی دور کی تاریخ ، ادب، فلسفہ، شاعری ، سوانح عمریاں ، معاہدے اور لٹریچر بڑی تعداد میں چھپنے لگے ۔ مشہور رومی مفکر اور خطیب سسرو کی فن خطابت پر مشتمل کتاب بھی چھاپی گئی ،یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ 1500ء میں صرف اٹلی میں اس کے دو سو سے زائد ایڈیشن شائع ہو ئے ۔

یورپ کے مختلف علاقوں میں کتب خانے قائم ہوئے ، اٹلی کی ریاستوں فلورنس ، نیپلز اور وینس میں بڑی بڑی لائبریریاں قائم ہوئیں ۔
پریس کی ایجاد سے سب سے ذیادہ نقصان چرچ کو ہوا کیونکہ پریس نے تحریک اصلاح مذہب اور مارٹن لوتھر کے لٹریچر کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ تحریک کے دوران لوتھر نے کتابیں ، پمفلٹس، اعلانات اور کتابچے چھپوا کر جگہ جگہ پہنچا دیئے ۔

یہ ساری صورتحال چرچ کے ذمہ داروں کے لیئے بڑی تشویشناک تھی حتیٰ کہ پوپ کو کہنا پڑا کہ لوتھر کی جرمن اور لاطینی زبانوں میں لکھی تحریریں روزانہ بازاروں میں آتی ہیں اور لوگ اس کے سوا اور کچھ نہیں خریدتے۔لوتھر کو بھی احساس تھا کہ اس کی تحریک کو پھیلانے اور آگے بڑھانے میں پریس کا کردار بڑا ہم ہے چناچہ اس نے کہا ”میری تحریک اور مشن کو پھیلانے میں خدا کی عنایت اور مہربانی کا سب سے بڑا تحفہ پریس ہے کیونکہ اس کے ذریعے خدا کا پیغام ہر جگہ پہنچ گیا ہے “صرف دوسال میں لوتھر کی ترجمہ کی ہوئی بائبل کے پچاس ایڈیشن شائع ہوئے ۔

لوتھر کے 450پمفلٹس ، تین ہزار وعظ ، اور ہزارو ں خطوط شائع ہوئے اور اس کی تحریروں کا مجموعہ 100جلدوں میں شائع ہوا ۔
سترھویں اور ٹھارھویں صدی میں جب یورپ کے پاس دولت آئی اور صنعتیں پروان چڑھیں تو متوسط طبقے میں کام کا کلچر پروان چڑھا ۔ پہلے کام کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا اب باعث فخر ٹھہرا۔ تاجر اور سرمایہ دار نے متوسط طبقے کے لیئے روز گار کے مواقع پیدا کیئے ، کام فیشن بن گیا، لوگ سارا ہفتہ کام کرتے اور چھٹی کی دن جی بھر کر آرام کرتے ۔

اب بھوکوں کو پچھلی دینے کی بجائے مچھلی پکڑنے کا فن سکھایا جانے لگا ۔ شہروں اور دیہات میں خوشحالی آگئی ۔ بادشاہ ،کلیسا اور جاگیر دار کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوا ۔ تعلیم ،سیاست، معیشت اور سوچ و فکر کی پابندیاں ختم ہوگئیں ۔ عوام کو برابری کے حقوق ملنے لگے ، عوام کے حقوق کے بل اسمبلی میں پاس ہونے لگے ۔ 1688میں انگلستا ن کی پارلیمنٹ نے بادشاہ کے اختیارات کم کردیئے ۔

1689میں بل آف رائٹس پیش کیا گیا جس کے تحت بادشاہ پارلیمنٹ کی منظور ی کے بغیر نئے ٹیکس نہیں لگا سکتا تھا ۔ 1799اور1824میں بننے والے قوانین میں مزدور یونین پر پابندی تھی لیکن 1850میں مزدور یونینز بھی بن گئیں ۔1871ملازمین کے قانونی تحفظ اور انہیں اسٹرائک کا حق بھی مل گیا ۔ مزدور طبقہ خوشحال ہوا تو سماج میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں اور رہی سہی کسر انقلاب فرانس نے پوری کر دی اور یوں یورپ اگلی چند صدیوں کے لیئے ترقی کی شاہراہ پر چل نکلا ۔ و ہ دن ہے اور آج کا دن یورپ ترقی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑ رہا ہے ،ا س کی منزل کیا ہے اور یہ کہاں پہنچ کر دم لے گا اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :